Home تجزیہ بی جے پی کیوں چاہتی ہے ایک دیش ایک الیکشن-ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

بی جے پی کیوں چاہتی ہے ایک دیش ایک الیکشن-ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

by قندیل

بھارت میں آئین لاگو ہونے کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر لوک سبھا میں بحث کے بعد مودی حکومت نے ایک دیش ایک الیکشن بل پیش کیا ۔ اسے پیش کرنے کے حق میں 269 اور مخالفت میں 198 ممبان پارلیمنٹ نے ووٹ کیا ۔ اس موقع پر وزیر داخلہ امت شاہ نے ہاؤس میں کہا کہ یہ بل جب کابینہ میں آیا تھا تب وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اسے بحث کے لیے جے پی سی میں بھیجنا چاہئے ۔ وزیر قانون ایسی تجویز پیش کر سکتے ہیں ۔ اپوزیشن نے اسے آئین اور ملک کے وفاقی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کی کوشش بتایا ۔ کانگریس نے کہا کہ حکومت کے پاس اسے پاس کرانے کی اکثریت نہیں ہے ۔ 129یہ واں ترمیمی بل لوک سبھا، ریاستی و مرکز کے زیر انتظام صوبوں کی اسمبلیوں کے لئے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا التزام کرتا ہے ۔ سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں ایک کمیٹی نے اس کے بارے اپنی رپورٹ پیش کی تھی جس کو ون نیشن ون الیکشن یا ایک دیش ایک الیکشن کا نام دیا گیا ۔

موجودہ ترمیمی بل تین حصوں میں ترمیم کرتا اور آئین میں ایک نیا سیکشن شامل کرتا ہے ۔ جس کے ذریعہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے لیے پانچ سال کی میقات کے بنیادی اصول کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرانے کے لیے صدر جمہوریہ کے ذریعہ مقرر کی گئی تاریخ کے بعد لوک سبھا کی پانچ سال کی مدت پوری ہونے کے ساتھ ریاستی اسمبلیوں کی میقات ختم ہو جائے گی ۔ اس کا مطلب ہے اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت میں کٹوتی جو ریاستی اسمبلی کی پانچ سال کی میقات کے حق پر حملہ ہے ۔ یعنی مستقبل میں لوک سبھا یا ریاستی اسمبلیوں کے لیے پانچ سال کی میقات کی گارنٹی نہیں رہے گی ۔ ترامیم میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ اگر لوک سبھا یا اسمبلی اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے تحلیل ہوگئی تو باقی بچی مدت کے لیے الیکشن ہوگا ۔ مثال کے طور پر اگر لوک سبھا یا کسی ریاست کی اسمبلی تین سال میں تحلیل ہو گئی تو اگلا وسط مدتی الیکشن صرف دو سال کی مدت تک کام کرنے کے لیے ہوگا ۔ یعنی وسط مدتی الیکشن میں منتخب ہونے والے ممبر پارلیمنٹ یا اسمبلی کی مدت پانچ سال نہیں ہوگی ۔ یہ آئین میں پارلیمانی جمہوریت کی بنیادی پالیسی کے خلاف ہے ۔ ریاستی اسمبلیوں کی میقات میں اس طرح کی کٹوتی سے وفاقیت اور منتخب ممبران اسمبلی کے حقوق پر منفی اثر پڑے گا ۔ وفاقی ڈھانچہ جو ریاستوں کے وفاق میں ظاہر ہوتا ہے اور زیادہ کمزور ہو جائے گا ۔ کیونکہ اسمبلی کے لیے پانچ سال کی میقات کا بنیادی حق ختم ہو جائے گا ۔

ملک میں ہر وقت کہیں نہ کہیں انتخاب ہوتے رہتے ہیں، یہ بھارت کی جمہوریت کی خوبی ہے لیکن بی جے پی اسے خوبی کے بجائے خامی تصور کرتی ہے ۔ اس کی دلیل ہے کہ اس سے ترقی کے کام متاثر ہوتے ہیں ۔ افرادی قوت اور کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے ۔ سرکاری گھاٹا بڑھتا ہے ۔ انتخابات کو لے کر بنی غیر یقینی صورتحال کی اب حد پار ہو چکی ہے ۔ ان حالات کو بدلنے کے لیے اب کچھ کیا جانا چاہیے ۔ وزیراعظم چاہتے ہیں کہ لوک سبھا، بلدیاتی اور اسمبلی انتخابات ہر پانچ سال میں ایک دن ایک ساتھ ہوں ۔ کیونکہ بار بار انتخابات ہونے کی وجہ سے عوام کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے ۔ اس طرح کے انتخابات مرکزی حکومت کے لیے چیلنج ہو سکتا ہے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ریاستی انتخابات مقامی مدوں سے متعلق ہوتے ہیں ۔ مگر ان کے نتائج کو مرکزی حکومت کی کارکردگی سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے ۔ الیکشن کے دوران قانون انتظامیہ ٹھپ ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ انتخابی ضابطہ اخلاق ایسے اعلانات کرنے سے روکتا ہے جو رائے دہندگان کو ان کی حمایت کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ قومی لیڈران الیکشن والی ریاستوں میں انتخابی تشہیر میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ اس سے حکومت کے روز مرہ کے کام متاثر ہوتے ہیں ۔

بلاشبہ پارلیمنٹ اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ ہونے سے کئی طرح کی پریشانیوں سے بچا جا سکتا ہے۔ مگر یہ کہنا کہ الگ الگ الیکشن ہونے سے ترقی کے کام متاثر ہوتے ہیں،یہ پوری طرح صحیح نہیں ہے۔ ملک میں ترقی کا مطلب انفراسٹرکچر(سڑک، بجلی، ڈرینج وغیرہ) میں بہتری کو مانا جاتا ہے۔ جبکہ اصل ترقی زندگی کے معیار کی بلندی سے ماپی جاتی ہے۔ مثلاً فی شخص آمدنی کتنی ہے، معیاری تعلیم کا کیا انتظام ہے۔ صحت کی سہولیات، پینے کے صاف پانی اور اچھی غذا کی دستیابی کا کیا نظام ہے۔ کیا ہر شخص کی ان تک آسانی سے رسائی ہے وغیرہ۔ بھارت میں اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ عوام کو اس بارے میں سوچنے اور آواز اٹھانے سے روکنے کےلیے انہیں ذات، مذہب، علاقہ اور فروعی مسائل میں الجھا کر رکھا جاتا ہے۔ ایک دیش ایک ٹیکس، ایک دیش ایک الیکشن بھی اسی منصوبہ کا حصہ ہے۔

ملک میں پارلیمنٹ اور اسمبلی کے انتخابات 1967 تک ایک ساتھ ہوتے تھے۔ آئین بنانے والوں نے بھی لوک سبھا اور ودھان سبھاؤں کے الیکشن ایک ساتھ کرانے کا انتظام کیا تھا، مگر 1967 کے بعد ملک کی سیاست نے کروٹ لی اور رام منوہر لوہیا کے غیر کانگریس واد کے نعرے پر کئی ریاستوں میں غیر کانگریسی حکومتیں بن گئیں، جو مختلف وجوہات سے اپنی میقات پوری نہیں کر پائیں۔ ان کے انتخابات 68-1969 میں کرائے گئے۔ اسی طرح 1971 میں پارلیمنٹ کا انتخاب وقت سے پہلے کرایا گیا۔ 80-1981 میں جنتاپارٹی کو اسی کی زبان میں جواب دیئے جانے اور 96-1999 کے درمیان تین پارلیمانی چناؤ ہونے کی وجہ سے انتخابات کا پورا نظام درہم برہم ہو گیا۔ البتہ بار بار انتخابات نے صوبائی سیاسی جماعتوں کو طاقتور بنا دیا۔ ایک ساتھ انتخابات کرانے کےلیے انتخابی کمیشن نے 1983 میں پارلیمنٹ اور اسمبلی انتخابات ایک ساتھ کرانے کی سفارش کی تھی۔ 1999 میں وزارت قانون نے اپنی 170 ویں رپورٹ میں بھی اس طرح کی تجویز پر زور دیا تھا۔ ایک ساتھ الیکشن کرانے کےلیے آئین کی دفعہ 172،85،83 اور 174 میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ دفعہ 83 لوک سبھا اور دفعہ 172 اسمبلی کی میقات پانچ سال مقرر کرتی ہے۔

مگر موجودہ مرکزی حکومت کی نیت اور حزب اختلاف کے تئیں اس کے رویہ کی وجہ سے اتفاق رائے بننا آسان نہیں ہے۔ ایک طرف اس کے قول و فعل میں تضاد نے اس کا بھروسہ کم کیا ہے۔ دوسری طرف اجارہ داری کی خواہش نے اس کے اپنے ساتھیوں کو بھی اس سے دور کر دیا ہے۔ صوبائی پارٹیوں کے دم پر آگے بڑھنے والی بی جے پی انہیں کو ختم کرنے کے در پر ہے۔ کیوں کہ صوبائی سیاسی جماعتوں کی وجہ سے اسے اپنے ہندوتوا کے ایجنڈہ پر عمل کرنا دشوار ہو رہا ہے۔ ایک دیش ایک الیکشن اس کے اسی منصوبہ کا حصہ ہے۔ وزیراعظم نے اسے بڑھا کر اس کے ساتھ ایک ووٹر لسٹ کو جوڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لوک سبھا ہو، اسمبلی ہو یا پنچایت کا الیکشن، اس کےلیے ایک ہی ووٹر لسٹ کام میں آئے۔ ایک نظر میں ان کا یہ قول جائز لگ سکتا ہے کہ ہر الیکشن کے الگ الگ ووٹر لسٹ پر خرچ کیوں کیا جائے؟ لیکن یہ غور طلب ہے کہ ووٹر لسٹ کے بہانے انہوں نے’ایک‘ کے نعرے کو لوک سبھا سے پنچایت تک پھیلا دیا ہے۔ لوک سبھا سے پنچایت تک کے انتخابات ایک جھٹکے میں کرانے کی منشاءحکومت کرنے والوں کو عوام کی خوشی نا خوشی سے پانچ سال کےلیے چھٹی دلانے کی ہی تو نہیں ہے۔

اس طرح کا انتخابی نظام عوام کی رائے کے معیار کو اتنا کم کر دے گا کہ جمہوریت کا صرف خول رہ جائے گا۔ مثال کے طور پر لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کا مظاہرہ انہیں ریاستوں میں اسمبلی کے مقابلے میں خراب اور کافی خراب رہا ہے ۔ مودی جی کے ایک چناؤ کے تصور میں کیونکہ عوام کو ایسی رائے دہندگی کا موقع ملے گا جو اندازوں کو غلط ثابت کر دے ۔ موجودہ ترامیم سے مرکز میں بر سر اقتدار پارٹی کے لیے ہیرا پھیری کا راستہ کھلے گا ۔ وہ وعدوں، نعروں، جھوٹے پروپیگنڈے اور مذہبی عصبیت کی بنیاد پر عوام کو گمراہ کر اپنے حق میں ماحول بنا کر ایک ہی ساتھ پارلیمنٹ اور اسمبلی پر قبضہ کر سکتی ہے ۔ ایسی صورت میں ہر سطح پر، ہر سیٹ پر کسی امیدوار کے حق میں یا اس کے خلاف ووٹ ہمارے جیسے تکثیری ملک اور سماج میں عوامی رائے کی سب سے کم آزادی کا ہی ووٹ ہوگا۔ البتہ اس سے اجارہ دار حکومت اور حکمرانوں کے لیے انتخابی سر دردی کافی کم ہو جائے گی ۔

بی جے پی، سنگھ کی یہ مہم جمہوریت اور عوام کی خوشی نا خوشی سے حکومت کو آزادی دلانے سے بھی بہت آگے تک جاتی ہے۔ وہ شہریوں کی حیثیت، شہریوں اور حکومت کے رشتوں کے توازن میں بنیادی بدلاو کرنا چاہتی ہے ۔ رہا سوال انتخابات پر ہونے والے خرچ کا تو لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات میں تال میل بنائے رکھنے کے لیے مجوزہ بلاؤ سے کم وقت میں غیر ضروری انتخابات کا راستہ کھلے گا ۔ جس سے ملک پر انتخابات کے خرچ کا بوجھ اور بڑھے گا ۔ ایک دیش ایک الیکشن سے صدارتی نظام کو مضبوط کرے گا جس سے تانا شاہی کو بڑھاوا ملے گا ۔ اس لیے بھارت میں ایک دیش ایک الیکشن کارگر نہیں ہو سکتا ۔ بار بار ہونے والے انتخابات کی ہمیں ضرورت ہے ۔ کیونکہ انہیں کے ذریعہ عوام حکومت تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like