وانمباڑی قومی اردو کتاب میلہ اس اعتبار سے تاریخ ساز رہا کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے پورے ہندوستان کو جنوبی ہند کے ایک اہم اردو خطے سے متعارف کروایا ، ایک ایسا خطہ ، جس کی تاریخ اردو سے انیسویں صدی سے ہی وابستہ ہے، جہاں تعلیم و تعلم کی گرم بازاری کا عرصہ طویل ، روشن، قابلِ قدر اور شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے قابلِ رشک بھی ہے ، ایک ایسا خطہ ، جہاں کم و بیش چھ ہزار سالہ قدیم تمل زبان و تہذیب کی روشنیاں قدم قدم پر بکھری ہوئی ہیں، ایک معنی خیز ہندو مائتھولوجی کی طرف مشیر ‘وانمباڑی’ کا خطہ شیر میسور ٹیپو سلطان کی انگریزوں کے خلاف اولین رزم گاہ بھی رہا ہے، تقریباً دو لاکھ کی آبادی والا ایک ایسا شہر ، جو سادگی، شرافتِ نفس، بے ریائی ، علمی و فکری روشن ضمیری کا جیتا جاگتا نمونہ ہے، ایک ایسا علاقہ ، جہاں کے لوگ فخریہ طور پر اپنے مذہب و ثقافت سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں ، مگر دوسرے مذہب والوں کی ایذا رسانی کا انھیں خیال تک نہیں آتا، جہاں کے 65 فیصد مسلمانوں میں اعلیٰ سرکاری افسران سے لے کر بڑے بڑے بزنس مین بھی ہیں اور کمال یہ کہ انھیں اپنے عہدہ و منصب یا معاشی مرفہ الحالی پر کوئی غرہ نہیں، وہ جھک کے ملتے ہیں، آگے بڑھ کر سلام کرتے ہیں، گرم جوشی سے مہمانوں کا استقبال کرتے ہیں اور حقِ میزبانی ادا کرتے ہوئے بچھے جاتے ہیں، ان میں سادگی ہے، مگر ابلہانہ پن نہیں ہے،وہ ہوشیار ہیں، مگر مکاری انھیں چھو کر نہیں گزری، ان کا درون و بیرون اجلا، روشن اور شفاف ہے، دل کو لبھاتا اور من کو بھاتا ہے۔
وہ اپنی تمل زبان سے مفتخرانہ وابستگی رکھتے ہیں، مگر ان کی اردو سے شیفتگی کی تاریخ بھی قدیم ہے، دہلی کے کوچہ چیلان اور گلی قاسم جان کی طرح اندرون وانمباڑی آپ جب خوب صورت نستعلیق رسم خط میں کوچہ محمد قاسم اور گلی زین العابدین کے حجری کتبے دیکھتے ہیں، تو آنکھیں چمک اٹھتی ہیں، اپنی خدمت و بارآوری کے سیکڑوں سال گزار چکے متعدد تعلیمی ادارے اس شہر کی خوب صورت تعمیر و تشکیل کے حوالے ہیں ۔ مدرسۂ مفید عام(1873)، مدرسۂ اعظم (1886)، مدرسہ معدن العلوم(1888)، مدرسۂ نسواں و انجمن خیر خواہ عام(1904)یہاں کے قدیم ترین تعلیمی ادارے اور انجمنیں ہیں، مدرسہ کے نام سے شمالی ہند والی مدرسے کی اصطلاح کی طرف ذہن نہ جائے ، کہ یہ ادارے آزادی سے پہلے کے تصورِ مدرسہ پر کاربند ہیں اور یہاں طلبہ و طالبات کی دینی و عصری دونوں تعلیم کا منصوبہ بند اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایک انجمن خدام الاسلام 1939 سے قائم ہے، جس کے تحت ایک لائبریری و دارالمطالعہ بھی اتنی ہی عمر کا ہے، اس میں اردو سمیت مختلف زبانوں کی ساڑھے چھ ہزار کتابیں ہیں ، جن سے اہلِ ذوق استفادہ کرتے ہیں۔ ہمارے دوست احسان احمد جن کا ذریعۂ معاش تو آئی ٹی سیکٹر میں ملازمت ہے، مگر نہایت عمدہ علمی و ادبی ذوق رکھتے ہیں، ان کے والد عتیق احمد جاذب مقبول و مشہور پیامی شاعر ہیں، ریڈینس ویکلی کے مدیر اعجاز اسلم صاحب ان کے ماموں ہیں ، احسان بھائی خاندانی علمی و ادبی وراثت ، وجاہت و شرافت کا نہایت خوب صورت نمونہ ہیں۔ وہ خدام الاسلام لائبریری سے بھی وابستہ ہیں اور اس میلے میں انھوں نے تقریباً اسی ہزار روپے کی پانچ سو مزید کتابیں خرید کر اس لائبریری کی ثروت مندی میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ مجھ سے وہ جس خلوص ، اپنائیت اور والہانہ پن سے ملے اور وانمباڑی سے نکلتے وقت تک اسی طرح ملتے رہے، اس نے مجھے ایک خاص تاثر سے سرشار کیے رکھا۔ اللہ پاک انھیں تر و تازہ و شاداب رکھے۔
خود جس سوسائٹی نے قومی اردو کونسل کے ساتھ اردو کتاب میلے کے انعقاد کے لیے اشتراک کیا، اس کی تاریخ کم و بیش سوا سو سال کو محیط ہے اور اس کے زیر اہتمام لڑکوں اور لڑکیوں کے معیاری سکولوں کے علاوہ ایک اعلی معیار کا اسلامیہ کالج بھی ہے، جس میں ریسرچ تک کی تعلیم ہے اور وہ بھی ایک سو سات سال پرانا ہے، اسی کے خوب صورت اور وسیع و عریض کیمپس میں اس میلے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ درجنوں ادارے آزادی کے بعد قائم ہوئے ہیں اور ان کی خدمات بھی اہم ہیں۔ ان خصوصیاتِ علمی و ثقافتی کے ہوتے ہوئے اگر اس شہر کو جنوب کا علی گڑھ کہا جاتا ہے، تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ؛ بلکہ کئی خصائص تو اسے موجودہ علی گڑھ سے بھی ممتاز کرتے ہیں !
قومی اردو کونسل اور وانمباڑی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے ذریعے پورے میلے کی تنسیق و تنظیم بڑی خوش اسلوبی سے انجام دی گئی، جس کے اطمینان بخش نتائج بھی سامنے آئے۔ نو دنوں تک مسلسل کامیاب ثقافتی پروگرام منعقد ہوئے اور وانمباڑی و اطراف کے اداروں نے جہاں مختلف پروگراموں میں حصہ لیا ، وہیں ان کے ذمے داران اور طلبہ نے خوب کتابیں بھی خریدیں اور تجارتی اعتبار سے بھی یہ میلہ نہایت کامیاب رہا۔ اس میلے میں خصوصاً جامعہ دارالسلام عمرآباد کی شراکت قابل رشک رہی، وہاں کے اساتذہ، ذمے داران اور طلبہ نے جہاں لاکھوں کی کتابیں خریدیں، وہیں ان طلبہ نے تقریر و خطابت، حمد و نعت کے مسابقوں سے لے کر بیت بازی، تمثیلی مشاعرے اور سائنسی کاوشوں کی نمایش کے مقابلے میں بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ہر کمپٹیشن میں اول، دوم یا سوم پوزیشن حاصل کی ۔ بیت بازی اور تمثیلی مشاعرہ تو تمام تر انھی کے نام رہے۔
اس میلے میں ذاتی طور پر مجھے اپنے بہت سے نادیدہ دوستوں/ بزرگوں سے مل کر بے پناہ مسرت ہوئی، اس علاقے کے وہ احباب جو سوشل میڈیا پر کئی سال سے مربوط تھے، اس میلے نے ان سے بالمشافہ ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ جناب اسانغنی مشتاق رفیقی ہماری ویب سائٹ ‘قندیل’ کے پرانے قاری اور معاونِ تحریری ہیں، ان کے بصیرت انگیز سیاسی و علمی مضامین ، وانمباڑی کی ادبی سرگرمیوں کی رپورٹس وغیرہ ہمارے یہاں شائع ہوتی رہی ہیں، اپنے دوست ڈاکٹر امتیاز باشاہ صاحب کے ساتھ مل کر وہ اردو ادب و صحافت کے فروغ کی قابل قدر خدمت انجام دے رہے ہیں، وہ ایک پندرہ روزہ اخباری جریدہ ‘زبانِ خلق’ بھی شائع کرتے ہیں، یوم مادری زبان کے موقعے پر وہ ‘اردو میلہ’ کا بھی اہتمام کرتے ہیں، جس میں اردو زبان اور تعلیم کے شعبے میں خدمات انجام دینے والی شخصیات کی قدر افزائی کا اہتمام کیا جاتا ہے، مشتاق صاحب اور امتیاز صاحب دونوں نہایت بے نفس، کشادہ ذہن، باوضع، متواضع ، خلیق و نفیس شخصیت کے مالک ہیں، اللہ انھیں سلامت رکھے۔
فیس بک پر کئی سالوں سے حلقۂ احباب میں شامل ڈاکٹر ابو بکر فارس ابراہیم عمری صاحب سے کئی قسطوں میں ملاقات ہوئی ، ہم ایک دوسرے سے ایسے لپک کر ملے گویا برسوں کا یارانہ ہو، ہم نے بے تحاشا باتیں کیں، ہنسے اور قہقہے لگائے، بعض حالات و اشخاص پر دلچسپ تبصرے کیے ، اسلامیہ کالج کی کینٹین میں چائے پی اور خوش ہوئے۔ ابوبکر بھائی پیشۂ معلمی سے وابستہ ہیں، متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں ، جن میں ‘مولانا ظفر علی خاں: شخصیت اور خدمات’ ، ‘گلبانگِ پریشاں’ ، ‘بارانِ رحمت'(تمل سے ترجمہ) قابل ذکر ہیں۔ عن قریب اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ‘برصغیر میں کتبِ احادیث کے اردو تراجم: ایک جائزہ’ کے نام سے شائع کروا رہے ہیں۔ انھوں نے اور بھی کئی اہل علم و ادب حضرات ، خصوصاً جامعہ دارالسلام عمرآباد کے متعدد اساتذہ سے ملوایا، سبھی بڑے شاداب ، نرم دمِ گفتگو، دل کو بھانے والے اور ذہن و دل میں بس جانے والے لوگ تھے، خصوصاً ان کے والد محترم مولانا ابو بکر زہیر احمد عمری حفظہ اللہ، حافظ ابراہیم حفظہ اللہ ، شیخ منیر الدین حفظہ اللہ ، دارالسلام کے مقبول و مشہور رسالے ‘راہ اعتدال’ کے مدیر مولانا رفیع کلوری ، جامعہ باقیات الصالحات ویلور کے لائبریرین شیخ شاکر احسن باقوی سے مل کر اور متعارف ہوکر جی خوش ہوا۔ انھوں نے ہی جامعہ کے شیخ الحدیث دکتور عبداللہ جولم مدنی عمری حفظہ اللہ سے بھی ملوایا، ان کا سراپا، ان کی سادگی ، ان کے وجود سے چھلکنے والا خلوص اور علم و عمل کا نور سرور بخش تھا۔ آخری دن ان کی معیت میں ایک اور عمری دوست محمد سیفی صاحب سے ملاقات ہوئی اور ایسی کہ ہم دونوں اول وہلہ میں کھل اور گھل گئے، پھر جتنی دیر ساتھ رہے، بڑی مزے دار گفتگو کا سلسلہ رہا، ہم اگلی صبح پھر مل بیٹھنے کے وعدے پر شب کے بارہ بجے جدا ہوئے، مگر بہ وجوہ پھر ملاقات نہ ہوسکی۔ انھوں نے مشہور محدث شیخ ضیاء الرحمن اعظمی کے ایک رسالے کا بہت اچھا ترجمہ ‘مسلمانوں کے دلوں میں حرمین شریفین کی عظمت ‘کے نام سے کیا ہے، وہ انھوں نے ہمیں بھی عنایت کیا، ان کا ایک اور انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے’مجھے فخر ہے کہ میں مسلمان ہوں’ ، وہ ہفتے میں دو یا تین دن جامعہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں، باقی دن آئی ٹی سیکٹر میں ملازمت کرتے ہیں۔ عبداللہ نادر عمری بنگلور سے ملنے آئے اور اپنے ساتھ محبت و خلوص کی بیش بہا سوغات لائے، ان سے ملنا، باتیں کرنا ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ ایک دن بنگلور کے ایک طبیہ کالج میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ارشد جمال صارم سے بھی ملاقات ہوئی، انھوں نے اپنا خوب صورت شعری مجموعہ عنایت فرمایا ، شاعری کی طرح ان کی شخصیت بھی بڑی خوب صورت اور دل انگیز ہے۔ ہمارے عزیز دوست مولانا حماد غزالی صاحب (حال مقیم بنگلور) سے پہلی ملاقات کتاب میلے میں ہوئی، وہ اپنی بے پناہ کاروباری مصروفیات کے باوجود بنگلور سے وانمباڑی آئے اور ایک دن قیام کیا، کتابوں کی آن لائن فروخت میں کامیابی کی نئی نئی منزلیں سر کرنے والے محترم شیخ نوشاد زبیر ملک صاحب کی معیت میں وقفے وقفے سے ان سے کئی ملاقاتیں اور باتیں ہوئیں، واپسی کے دن بنگلور میں چند گھنٹوں کا قیام حماد غزالی صاحب کی معیت میں یادگار ثابت ہوا، شیخ نوشاد زبیر ملک بھی ساتھ تھے، بیس بائیس سال سے بنگلور میں مقیم ہمارے پڑوس کے گاؤں کریم گنج جھٹکی (سیتامڑھی) کے محترم اشرف صاحب اور موتیہاری کے جواد صاحب سے پر لطف ملاقات رہی، لنچ کے بہانے ان حضرات کے ساتھ بنگلور کی سڑک گردی بھی ہوگئی، ٹریفک کا کچھ کچھ اندازہ ہوا اور صاف ستھرے آب و ہوا نے طبیعت پر خوشگوار اثر ڈالا، اس دوران اشرف صاحب کچھ اہم عمارتیں، سڑکیں اور پارک بھی دکھاتے اور ان کے بارے میں بتاتے رہے، کرناٹک ہائی کورٹ ، اسمبلی اور سکریٹریٹ کی عمارتوں سے بھی ہم سرسری گزرے ۔ انھوں نے بتایا کہ بنگلور میں ٹیپو سلطان کی وقف کردہ املاک بے نہایت ہے ، مگر دوسری ریاستوں کی طرح یہاں بھی اس قیمتی ملی سرمایے کا اللے تللے استعمال ہو رہا ہے، یہ جان کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ شہر بنگلور کی زمینیں یا تو اوقاف کی ہیں یا فوج کے قبضے میں یا ریلوے کے حصے میں، پبلک پراپرٹی کا حصہ تھوڑا ہی ہے۔ عصر کی نماز بنگلور سٹی کی جامع مسجد میں پڑھی، اس مسجد کا محلِ وقوع تو شاندار ہے ہی، مگر اس کی ساخت بھی پرشکوہ اور جاذب و جمیل ہے، اس کے گرداگرد بہت ساری پراپرٹی اسی مسجد کی ہے، جس کی خطیر آمدنی سے متعدد دینی و عصری تعلیم کے ادارے چلائے جا رہے ہیں۔ مولانا خالد قاسمی صاحب سے بھی مختصر، مگر دلچسپ ملاقات رہی ، بیس بائیس سال پرانے فاضلِ دیوبند، مظفرپور کے باسی ہیں، کوٹ پینٹ ، شیروانی اور صدری کی سلائی و سپلائی کا اچھا اور جما ہوا کاروبار ہے۔
عربی کی قدیم کہاوتوں میں سفر کو ‘سقر’ بھی کہا گیا ہے اور ‘وسیلۂ ظفر’ بھی، مسافر اور سفر کی نوعیتوں کے حساب سے دونوں مفہوم کے مصداق طے ہوتے رہتے ہیں، ہمارے لیے ہمیشہ سے سفر وحشت اثر ہی رہا ہے، اس لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹلنے میں گویا جان پر بن آتی ہے، پھر بھی بعض اوقات کسی ضروری ہدف یا مجبوری کے تحت سفر کرنا بھی پڑتا ہے، وانمباڑی کا یہ سفر بھی اسی دوسری نوعیت کا تھا، مگر انجام کار بڑا یادگار، دلچسپ، مسرت بخش، معلومات و اکتشافات سے معمور ثابت ہوا۔ بخیر و عافیت واپسی پر خدا کا شکر اور تمام ملنے والے دوستوں کے لیے صحت و عافیت و سعادت کی دعائیں ۔