Home تجزیہ اوبامہ کی کتاب سے ہندوستان میں ہلچل – سہیل انجم

اوبامہ کی کتاب سے ہندوستان میں ہلچل – سہیل انجم

by قندیل

 

امریکہ کے سابق صدر براک اوبامہ کی چند روز قبل منظر عام پر آئی کتاب ”اے پرومسڈ لینڈ“ نے پوری دنیا میں ایک ہلچل مچا دی ہے۔ انھوں نے اپنے آٹھ سالہ دور صدارت میں مختلف ملکوں کے سربراہوں اور سیاست دانوں کو جیسے دیکھا ویسے ہی بلا کم و کاست بیان کر دیا ہے۔ لیکن ہندوستان میں یہ کتاب کافی ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں انھوں نے اپنے پہلے دور صدارت میں 2010 میں ہندوستان کے دورے کے وقت یہاں کے سیاست دانوں بالخصوص اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ، کانگریس صدر اور حکمراں یو پی اے کی چیئرپرسن سونیا گاندھی اور ان کے بیٹے راہل گاندھی کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے راہل گاندھی کے بارے میں تو لکھا ہے لیکن موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں اس کتاب میں ایک لفظ بھی نہیں ہے۔ گجرات کے 2002 کے فسادات کی وجہ سے امریکہ نے 2005 میں ان پر امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ یہ پابندی اس وقت اٹھی جب نریندر مودی 2014 میں ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ بہر حال انھوں نے ہندوستان کی سیاست اور یہاں کے سیاست دانوں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ میڈیا میں چھائے ہوئے ہیں۔

براک اوبامہ نے دوسری بار 2015 میں ہندوستان کا دورہ کیا تھا اس وقت بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار آگئی تھی اور نریند رمودی ملک کے وزیر اعظم تھے۔ اس دورے میں انھوں نے جاتے جاتے اپنے آخری خطاب میں ہندوستان میں مذہبی آزادی کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ ہندوستان کے دستور کی دفعہ 25 کے مطابق ہر شخص کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت تک ملک میں مذہبی جنون کافی بڑھ گیا تھا اور مذہب کی بنیاد پر ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کی ہلاکت کے واقعات ہونے لگے تھے۔

میڈیا میں شائع ہونے والے براک اوبامہ کی کتاب کے اقتباسات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اوبامہ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ سے کافی متاثر ہیں۔ جب من موہن سنگھ برسراقتدار تھے تو ایک بار اوبامہ نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب من موہن سنگھ بولتے ہیں تو دنیا سنتی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے 2008 میں ممبئی پر ہونے والے حملوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ممبئی حملے کے بعد پاکستان کے خلاف کارروائی کے مطالبات پر انھوں نے بڑے تحمل سے کام لیا تھا۔ لیکن اس کی انھیں سیاسی قیمت چکانی پڑی۔ خیال رہے کہ اس حملے میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں کئی امریکی باشندے بھی تھے۔ اوبامہ لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ان سے کہا تھا کہ ”جناب صدر! غیر یقینی کے اس ماحول میں مذہبی اور ذات برادری کے اتحاد کی اپیل عوام کو بہکا سکتی ہے۔ اور ایسے میں سیاست دانوں کے لیے اس صورت حال کا استحصال زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ خواہ وہ ہندوستان میں ہو یا کہیں اور ہو“۔ اس سے براک اوبامہ نے اتفاق کیا تھا۔

اوبامہ کے مطابق من موہن سنگھ کو اندیشہ تھا کہ اگر وہ پاکستان کے خلاف کارروائی کریں گے تو اس سے مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول پیدا ہوگا اور (ہندوتو کی سیاست کرنے والی) بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ پہنچے گا۔ اوبامہ نے لکھا ہے کہ وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ جاری مسلسل کشیدگی سے بہت فکر مند تھے۔ براک اوبامہ کے مطابق ”اس وقت پاکستان کے ساتھ بھی مسائل تھے۔ سال 2008 میں ممبئی کے دو ہوٹلوں اور دوسرے مقامات پر ہونے والے حملوں کی ہندوستان کے ساتھ مل کر جانچ کرنے میں وہ مسلسل ناکام ثابت ہو رہا تھا۔ اس سے دونوں ملکوں میں قابل ذکر انداز میں کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ کیونکہ ایسا سمجھا جاتا تھا کہ حملے کے لیے ذمہ دار دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے رشتے ہیں“۔ انھوں نے من موہن سنگھ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ایک شریف ٹیکنوکریٹ ہیں جنھوں نے نہ صرف عوام کے جذبات کو عملی شکل دیتے ہوئے ان کا اعتماد حاصل کیا بلکہ ان کے معیار زندگی کو بھی بلند کیا اور اس دوران بد عنوان نہ ہونے کے اپنے امیج کو بھی برقرار رکھا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ خارجہ پالیسی کے سلسلے میں من موہن سنگھ بہت محتاط تھے۔ تاریخی طور پر امریکی ارادو ںکو شبہے کی نظر سے دیکھنے والی ہندوستانی نوکر شاہی کی سوچ سے وہ بہت آگے نہیں جانا چاہتے تھے۔ ہم نے جو وقت ایک ساتھ گزارا اس نے ان کے بارے میں میری اس ابتدائی رائے کو مضبوط کیا کہ وہ ایک غیر معمولی طور پر قابل اور مہذب انسان ہیں۔ خیال رہے کہ دورے کے پہلے دن وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا۔

براک اوبامہ نے کانگریس صدر سونیا گاندھی کو ایک 60 سال کی پرکشش خاتون قرار دیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ملاقات کے وقت وہ روایتی ساڑھی پہنے ہوئے تھیں۔ ان کی آنکھیں سیاہ تھیں اور ان کی موجودگی میں شاہانہ انداز تھا۔ یہ یوروپی نژاد خاتون پہلے ماں کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے گھر کی چہار دیواری تک محدود تھیں۔ لیکن 1991 میں سری لنکا کے خودکش حملہ آور کے ہاتھوں اپنے شوہر کی ہلاکت کے بعد وہ اپنے ذاتی غموں سے اوپر اٹھ کر خاندان کی سیاسی وراثت کو سنبھالتے ہوئے قومی سطح پر ایک اہم سیات داں کی حیثیت سے ابھریں۔ یاد رہے کہ 1991 میں تمل ناڈو کے سری پیرومبدور میں ایک عوامی جلسے میں کیے گئے خودکش حملے میں ان کے شوہر اور سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو وحشیانہ انداز میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اوبامہ نے لکھا ہے کہ ڈنر کے وقت سونیا گاندھی بول کم اور سن زیادہ رہی تھیں۔ پالیسی امور کو وہ احتیاط کے ساتھ من موہن سنگھ کی جانب موڑ دیتی تھیں۔ البتہ باتوں کا رخ اپنے بیٹے کی طرف موڑنے کی بھی کوشش کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ سونیا گاندھی نے وزیر اعظم کے منصب کے لیے من موہن سنگھ کا انتخاب اس لیے کیا تھا کہ ایک معمر سکھ جس کی کوئی قومی سیاسی بنیاد نہ ہو ان کے 40 سالہ بیٹے راہل گاندھی کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھے جن کو وہ کانگریس پارٹی کا صدر بننے کے لیے تیار کر رہی تھیں۔

راہل گاندھی کے بارے میں انھوں نے بہت مزے کی باتیں لکھی ہیں۔ تاہم انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اس سے بی جے پی کے رہنماوں کو ان پر طنز کرنے کا ایک موقع مل گیا ہے۔ اوبامہ کے مطابق راہل گاندھی ایک نروس اور غیر منظم خوبیوں والے لگے۔ جیسے کہ وہ ایک ایسے طالب علم ہوں جس نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے اور وہ اپنے استاد کو متاثر کرنا چاہ رہا ہے۔ لیکن اندرونی طور پر یا تو اس کے اندر اپنے موضوع کی صلاحیت نہیں ہے یا اس میں کام کرنے کا جنون نہیں ہے۔ تاہم انھوں نے راہل کو ایک اسمارٹ اور پرجوش شخص قرار دیا ہے جس کے نین نقش اپنی والدہ سے ملتے ہیں۔

ہندوستان کے بارے میں بحیثیت ایک ملک کے وہ لکھتے ہیں کہ وہ ایک کامیاب ملک ہے جو کئی قسم کی حکومتیں بدلنے، سیاسی پارٹیوں کے درمیان تیکھے مباحثوں، کئی علیحدگی پسند تحریکوں اور ہر قسم کی بدعنوانیوں کو دیکھ چکا ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ہندوستان اب بھی گاندھی کے خوابوں والے ایک مساوات پسند، پر امن اور خیر سگالانہ جذبات رکھنے والے معاشرے کے امیج سے مماثلت نہیں رکھتا۔ یہاں اونچ نیچ کا رجحان انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور تشدد بھارتی معاشرے کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ یہاں غریب زیادہ ہیں اور امیروں کی دولت بڑھتی جا رہی ہے۔ اوبامہ لکھتے ہیں کہ نومبر کی اس شام کو ڈاکٹر من موہن سنگھ کی رہائش گاہ سے نکلتے وقت میں سوچ رہا تھا کہ جب 78 سال کے وزیر اعظم اپنی ذمہ داری سے الگ ہوں گے تو کیا ہوگا۔ کیا یہ (اقتدار کی) مشعل کامیابی کے ساتھ راہل گاندھی تک پہنچ پائے گی۔ ان کی ماں نے جو سوچ رکھا ہے کیا وہ پورا ہوگا او ربی جے پی نے جو تقسیم کرنے والی قوم پرستی پیش کی ہے اسے شکست دیتے ہوئے کانگریس کا دبدبہ قائم رہے گا۔ ان کے خیال میں جانے کیوں مجھے شبہ تھا۔ یہ مسٹر سنگھ کی غلطی نہیں تھی۔ انھو ںنے اپنا کردار ادا کیا۔ وہ سرد جنگ کے بعد تمام روادار ملکو ںکے راستے پر چلے، انھوں نے آئینی نظام کو قائم رکھا، مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کو بڑھایا اور سماجی تحفظ کا دائرہ وسیع کیا۔ انھوں نے ہندوستان کے بارے میں مزید لکھا ہے کہ ”تشدد، لالچ، بدعنوانی، کرپشن، قوم پرستی اور عدم رواداری جیسی باتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے دوسروں کو کمتر ٹھہرانے کی فضول سی کوشش جیسے متعدد عناصر اتنے مضبوط ہیں کہ کسی بھی جمہوریت کے لیے ان پر پابندی لگانا ممکن نہیں ہے“۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اوبامہ کے سوالوں کا جواب 2014 میں اس وقت ملا جب ہندو قوم پرستی والی جماعت بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوئی۔

اوبامہ کی یہ کتاب 2011 میں پاکستان میں اسامہ بن لادن کی موت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ ان کی یادداشتوں کا پہلا حصہ ہے۔ جب اس کا دوسرا حصہ آئے گا تب ممکن ہے کہ اس میں وزیر اعظم نریند رمودی کا ذکر ہو۔ اس کا امکان زیادہ ہے۔ کیونکہ جب وہ دوسری مرتبہ ہندوستان آئے تھے تو نریندر مودی ہی وزیر اعظم تھے۔ بہر حال اوبامہ نے راہل گاندھی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس پر بی جے پی کے کئی رہنماوں نے ان کی چٹکی لی ہے اور ان پر طنز بھی کیا ہے۔ بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا کا کہنا ہے کہ راہل گاندھی خود اپنی پارٹی کو ختم کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ بی جے پی لیڈر ٹام وڈکم نے جو کہ چند سال قبل تک کانگریس میں تھے اور اس کے میڈیا سیل کے انچارج تھے اوبامہ کے بیان کی روشنی میں راہل گاندھی پر طنز کیا ہے۔ بی جے پی ایم پی میناکشی لیکھی نے کہا ہے کہ سیاست کوئی ایسی چیز نہیں کہ چمچے سے دودھ پلا کر کامیاب کروایا جا سکے۔ ان کے مطابق راہل گاندھی کو سیاست میں ترقی کرنے کے تمام مواقع اور وسائل ملے لیکن سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے ذاتی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔ جبکہ کانگریس کے قومی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا کا کہنا ہے کہ وہ کسی انفرادی شخص کی رائے پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے۔ البتہ کانگریس کے کچھ چھٹ بھیا لیڈروں نے راہل گاندھی پر تبصرے کی وجہ سے براک اوبامہ پر تنقید کی ہے۔ سینئر کانگریس رہنما ششی تھرور نے ٹوئٹ کرکے کہا ہے کہ انھیں اوبامہ کی کتاب کی ایڈوانس کاپی ملی ہے۔ بڑی خبر یہ ہے کہ 902 صفحات کی اس کتاب میں نریندر مودی کا نام تک نہیں ہے۔ یاد رہے کہ سابق امریکی صدر نے اپنی کتاب میں 1400 الفاظ نومبر 2010 کے اپنے ہندوستان دورے پر وقف کیے ہیں۔

9818195929

 

You may also like

Leave a Comment