Home نقدوتبصرہ نسخۂ حفیظ الدین احمد : اطہر فاروقی کا تحقیقی کا کارنامہ – شکیل رشید

نسخۂ حفیظ الدین احمد : اطہر فاروقی کا تحقیقی کا کارنامہ – شکیل رشید

by قندیل

اطہر فاروقی ، جنرل سیکرٹری ، انجمن ترقی اردو ( ہند) اپنی ’ کرم بھومی ‘ دہلی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ، ثبوت میں ، دہلی کے تعلق سے ان کی متعدد تحریریں ، اردو سے انگریزی اور انگریزی سے اردو زبان میں کتابوں کے ترجمے اور ان کی ادارت میں شائع ہونے والے سہ ماہی ’ اردو ادب ‘ کی مختلف اشاعتیں ، جن میں دہلی کی ادبی ، ثقافتی اور سماجی و تہذیبی تاریخ پر وقیع مضامین دیے گیے ہیں ، پیش کی جا سکتی ہیں ۔ کچھ پہلے ہی قدیم دہلی پر ’ اردو ادب ‘ کا شاندار ’ شاہجہاں آباد نمبر ‘ شائع ہوا تھا ، جس میں انگریزی زبان کے مشہور مصنف پون کمار ورما کی ایک کتاب کا ، اطہر فاروقی کا کیا ہوا ، بہترین ترجمہ شامل تھا ۔ اب قدیم دہلی کی عمارتوں کے کتبوں پر ان کی نئی تحقیقی کتاب ’ نسخۂ حفیظ الدین احمد ‘ منظر عام پر آئی ہے ۔ یہ کتاب بقول اطہر فاروقی ’ دہلی کی عمارات کے کتبوں کا اولین مخطوطہ ‘ ہے ۔ اس کے مؤلف حفیظ الدین احمد ہیں ، اسی لیے اسے ’ نسخہ حفیظ الدین احمد ‘ کہا جاتا ہے ۔ کتاب کی اشاعت کے بعد کچھ تنازعہ اٹھا تھا جس کی وجہ سے اس کتاب پر جس طرح سے گفتگو ہونی چاہیے تھی ، نہیں ہو سکی ۔ تنازعہ کیا تھا یا کیا ہے ، اس پر بات کریں گے ، مگر پہلے کتاب پر بات کر لیتے ہیں ۔

پوری کتاب کتبوں پر مشتمل ہے ۔ حفیظ الدین احمد نے جو کتبے جمع کیے اور کاغذ پر اتارے تھے انہیں مِن و عَن کتاب میں پیش کردیا گیا ہے ۔ اگر کسی کتبہ کے گرد نقش ونگار بنے تھے تو کتاب میں اسے نقش و نگار کے ساتھ شامل کیا گیا ہے ، اور اگر کوئی کتبہ رنگین تھا تو اسے اسی رنگ کے ساتھ ، جس میں وہ تھا ، کتاب میں شامل کر لیا گیا ہے ۔ یہ کتبے فارسی زبان میں ہیں ، کہیں کہیں عربی زبان کا استعمال بھی کیا گیا ہے ، بِنا کسی ترجمہ کے ۔ ظاہر ہے کہ جنہیں فارسی اور عربی زبان نہیں آتی ان کے لیے اُن کتبوں کو سمجھ پانا ممکن نہیں ہے ، لیکن ان کتبوں کو دیکھ کر گزرے زمانے کی ، اُس زمانے کے فن اور آرٹ کی ، ایک تصویر سامنے آ جاتی ہے ، جس پر غور کرنے کے لیے فارسی اور عربی سے واقفیت ضروری نہیں ہے ۔ ویسے اطہر فاروقی نے یہ نوید سنا دی ہے کہ معروف محقق اور فارسی داں پروفیسر شریف حسین قاسمی ان کتبوں کی تدوین کریں گے ، ترجمہ کے ساتھ ۔ اس کتاب اور اس کے مؤلف کے تعارف کے لیے اور یہ کتاب کیوں اہم ہے ، یہ جاننے کے لیے ، اطہر فاروقی کے کتاب کے ’ مقدمہ ‘ میں ، جو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ہے ، مواد ہے ۔ اطہر فاروقی نے تفصیل سے اس کتاب کے نسخہ کی دریافت کی کہانی لکھی ہے ۔ اُنہیں پروفیسر شریف حسین قاسمی کی مدون کردہ کتاب ’ سیرالمنازل ‘ پڑھ کر یہ پتہ چلا کہ برٹش لائبریری میں ایک ایسا مخطوطہ موجود ہے جس میں دہلی کی قدیم عمارات کے کتبے اپنی اصل شکل میں دیے گیے ہیں ، اور اب یہ مخطوطہ سابقہ انڈیا اوفس ریکرڈ کے ایشیا پیسفک اور افریقہ ( افریقی) ذخیرے کا حصہ ہے ۔ وہ مخطوطہ ’ نسخۂ حفیظ الدین احمد ‘ تھا ، جسے بڑی تگ و دو کے بعد اطہر فاروقی نے حاصل کیا ، اور کتابی شکل میں پیش کر دیا ۔

یہ کتاب کیوں اہم ہے؟ اس سوال کا اطہر فاروقی نے کتاب کے ’ مقدمہ ‘ کی ابتدائی سطروں میں جواب دیا ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ یہ مقالہ دہلی کی تاریخی عمارات سے متعلق اُس اہم دستاویزی کوشش کا جائزہ ، اور ماضی کے اوراق میں گُم ایک ایسے نو دریافت مخطوطے کا تعارف ہے جو عمارات کے حوالے سے لکھی جانے والی دہلی کی تاریخ کا شاید رُخ ہی تبدیل کر دے گا ۔‘‘ سوال ہے کہ یہ نو دریافت مخطوطہ کس طرح ’ عمارات کے حوالے سے لکھی جانے والی دہلی کی تاریخ کا شاید رُخ ہی تبدیل کردے گا ‘ ؟ اطہر فاروقی نے اس رُخ کی کچھ زیادہ وضاحت نہیں کی ہے ، صرف یہ لکھا ہے : ’’ یہ نسخہ اہم اس لیے ہے کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق یہ دہلی کی اُن عمارات کے کتبوں کو جمع کرنے کی سب سے پہلی کوشش ہے جن کے بغیر اس شہر کی تاریخ رقم کرنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ اس مخطوطے میں فارسی زبان میں شہر دہلی کی اہم عمارات کے کتبوں کی تفصیلات مرقوم ہیں ۔ یہ نسخہ 1817 میں – اور اغلب ہے کہ ایک برطانوی افسر مٹکاف کے ایما پر – مرتب کیا گیا تھا جو اب تک مورخین کے التفات کا منتظر رہا ۔‘‘ اتنا لکھنے کے بعد اطہر فاروقی نے سنگین بیگ کی کتاب ’ سیرالمنازل ‘ اور سرسیّد احمد خاں کی مشہور کتاب ’ آثار الصنادید ‘ کا تذکرہ کیا ہے اور چند ایسے جملے لکھے ہیں جو کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئے ہیں ، حالانکہ محققین سخت سوالات اٹھاتے رہتے ہیں کہ یہ ان کا کام ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ ’ سیرالمنازل ‘ کی شہرت کے بعد اس خیال کو بھی راہ ملی کہ سیّد احمد خاں کے نام سے منسوب ’ آثار الصنادید ‘ میں درج ایسے تمام کتبے جو ’ سیرالمنازل ‘ میں موجود ہیں ، ’ سیرالمنازل ‘ ہی سے بغیر کسی حوالے کے اس لیے نقل کیے گیے ہیں کیوں کہ ’ سیرالمنازل ‘ ،’ آثار الصنادید ‘ سے کم و بیش 20 برس پہلے مکمل ہو گئی تھی ، مگر حفیظ الدین احمد کے مخطوطے کے سامنے آنے کے بعد اب یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ سنگین بیگ نے بھی ’ سیرالمنازل ‘ کے کتبے خود جمع نہیں کیے تھے بلکہ اس نے بھی حفیظ الدین کی تالیف سے ہی انہیں بغیر کسی حوالے کے نقل کر دیا تھا ۔‘‘ اطہر فاروقی آگے ’ پروفیسر عرفان حبیب اور پروفیسر نورالحسن وغیرہ ‘ کا ذکر کرتے ہوئے ، لکھتے ہیں : ’’ ’ آثارِ الصنادید ‘ کے سلسلے میں بھی مورخین نے حقیقی ماخذ دریافت کرنے کی کوئی کوشش سرسیّد کی عبقری شخصیت کی وجہ سے کی ہی نہیں ۔‘‘

مذکورہ سطروں سے یوں لگتا ہے جیسے سنگین بیگ اور سرسیّد احمد خاں پر سرقے کا الزام لگایا گیا ہے ۔ لیکن ’ سیرالمنازل ‘ اور ’ آثار الصنادید ‘ میں ’ نسخۂ حفیظ الدین احمد ‘ کے کتبوں کے شامل ہونے کا سبب کچھ اور بھی ہو سکتا ہے ۔ ممکن ہے کہ سنگین بیگ ، جو ’ نسخۂ حفیظ الدین احمد ‘ کے کاتب تھے کتبوں کو جمع کرنے کے کام میں حفیظ الدین کے معاون رہے ہوں ۔ اور جہاں تک سرسیّد کی بات ہے تو ممکن ہے کہ انہوں نے جِن عمارتوں کے تعمیری فن کو اپنی گفتگو میں موضوع بنایا ہے ، وہ تمام یا اکثر وہی رہی ہوں جن کے کتبے ’ نسخۂ حفیظ الدین احمد ‘ میں شامل ہیں ۔ کتبے تو جیسے تھے ، ہمیشہ ویسے ہی پیش کیے جائیں گے ۔ رہی بات پروفیسر عرفان حبیب اور پروفیسر نورالحسن کی تو ممکن ہے دونوں نے ’ آثار الصنادید ‘ اور ’ سیرالمنازل ‘ کے کتبوں اور ’ نسخۂ حفیظ الدین احمد ‘ کے کتبوں میں مماثلت پر غور نہ کیا ہو ، شاید ان کے پاس دیگر کام رہے ہوں ۔ مجھے نہیں لگتا کہ ان دونوں پروفیسروں نے ’ سرسیّد جیسی عبقری شخصیت ‘ کے لحاظ میں ماخذ دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ ویسے آگے کی سطروں میں اطہر فاروقی نے سرسیّد کو سارے الزامات سے بَری کر دیا ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ اس میں اب شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ ’ سیرالمنازل ‘ ایک معنیٰ میں نسخۂ حفیظ الدین احمد ہی کا سرقہ ہے ۔ ’ سیرالمنازل ‘ اور ’ آثار الصنادید ‘ دونوں میں ہی حفیظ الدین احمد کے مخطوطے میں موجود تمام کتبے بغیر کسی حوالے کے بعینہ نقل کر دیے گیے ہیں ۔ ’ آثار الصنادید ‘ کے باب میں یہ جرم اغلب یہی ہے کہ پہلے اڈیشن کے گھوسٹ رائٹر امام بخش صہبائی نے کیا ہو ، جنہوں نے 1847 کا اڈیشن تیار کرتے وقت ان کتبات کو مالِ غنیمت کی طرح استعمال کر لیا ۔ یہ امر مسلم ہے کہ صہبائی نے – جو اپنے زمانے میں دہلی کے مشہور گھوسٹ رائٹر تھے – دوستی یا پیسوں کے لیے آثار کا پہلا اڈیشن مرتّب کیا ۔‘‘ وہ آگے لکھتے ہیں : ’’ آثار کے پہلے اڈیشن کی تحریر کا طرز اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ یہ صہبائی کا لکھا ہوا متن ہے جس سے سرسیّد کا کوئی تعلق نہیں جب کہ دوسرے اڈیشن یعنی 1854 میں سرسیّد کا اسلوب نمایاں ہے ۔ اس دعوے کی مزید تصدیق سرسیّد کے اس بیان سے بھی ہو جاتی ہے جسے ان کے سوانح نگار الطاف حسین حالیؔ نے نقل کیا ہے : ’ آثار الصنادید ‘ کا پہلا اڈیشن جس کی عبارت میں بہت کچھ ساختگی اور تکلّف پایا جاتا ہے وہ جیسا کہ سرسیّد خود اقرار کرتے ہیں مولانا صہبائی کا لکھا ہوا ہے ‘ ۔‘‘ رہی بات کتبوں کے حوالے نہ دینے کی تو دورِ حاضر کے ایک محقق شمس بدایونی نے اس تعلق سے اپنے ’ فیس بک اکاؤنٹ ‘ میں اطہر فاروقی کی اس کتاب کے حوالے سے ہی لکھا ہے : ’’ چند روز پیشتر جناب اطہر فاروقی کی عنایت سے یہ تحفہ وصول پایا ۔ اس کتاب سے متعلق خاصی معلومات روزنامہ ’ انقلاب ‘ میں فاروقی صاحب کے مطبوعہ مضامین اور سوشل میڈیا پر برپا بحث سےہوچکی تھی ۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس کتاب کا مطالعہ عہدِ سرسیّد کے قاری کی حیثیت سے اگر کیا جائے تو بہت سے شبہات از خود رفع ہوجائیں گے ۔ عہدِ سرسیّد میں ایک دوسرے کی تحریروں سے استفادہ کرنا اور اس کا اعتراف و اظہار نہ کرنا عام سی بات تھی ۔ جو لوگ سرسیّد کو بددیانت کہہ رہے ہیں انہیں عہدِ سرسیّد میں متعدد کتب کسی دوسری کتاب سے مستفاد و مستعار مل جائیں گی ۔ اس دور کے متعدد تذکرے ترتیب اور مواد کے لحاظ سے ایک دوسرے کا چربہ معلوم ہوتے ہیں ۔ آزاد کی کتاب ’ آب حیات ‘ ، تاریخ ادب میں جس کے مقدمہ کی بڑی دھوم ہے ، ’ تذکرہ شمیم سخن ‘ کے مقدمہ سے مستفاد ہے ۔ خاکسار اس پر ایک مقالہ بعنوان ’ مقدمہ آب حیات مستفاد یامستعار ‘ لکھ چکا ہے ۔‘‘

شمس بدایونی کی تحریر سے بات صاف ہوگئی ۔ ایک بات ’ سیرالمنازل ‘ کے ترجمہ کے تعلق سے ؛ اس کا سب سے پہلا ترجمہ ، پروفیسر شریف حسین قاسمی کے ترجمہ سے قبل ، پروفیسر نعیم احمد نے کیا تھا ، اس کا ذکر اطہر فاروقی نے اپنے ’ مقدمہ ‘ کے حواشی میں کیا ہے ، اس کتاب کی بازیافت ضروری ہے تاکہ پتا چلے کہ اس کا ترجمہ کیسا تھا اور مترجم نے اس کتاب کے بارے میں کیا تحقیق کی تھی ۔ اطہر فاروقی اس کتاب کے لیے ہم سب کے شکریے کے حقدار ہیں ۔ یہ کتاب بلاشک و شبہ ان کی ایک اہم ’ تلاش و تحقیق ‘ پے بلکہ کارنامہ ہے ، اور یقیناً آنے والے دنوں میں ، جب یہ دہلی کی عمارات کے کتبے مدون ہو جائیں گے اور ان کے ترجمے سامنے آئیں گے ، تب دہلی کی تاریخ کا شاید واقعی رُخ بدل جائے ۔ کتاب کا انتساب پروفیسر شریف حسین قاسمی صاحب کے نام ہے ۔ کتاب کو بہت معیاری انداز میں اور بہت ہی اچھے کاغذ پر شائع کیا گیا ہے ۔ صفحات 280 ہیں اور قیمت 1000 روپیے ہے ۔ کتاب ’ انجمن ترقی اردو ( ہند ) ، نئی دہلی ‘ نے شائع کی ہے ، اور ان سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔ ممبئی میں یہ کتاب ’ مکتبہ جامعہ ‘ ( 81083 07322) اور ’ کتاب دار ‘ ( 09869321477) سے لوگ لے سکتے ہیں ۔

You may also like