Home تجزیہ این آر سی، ایم ایل سی صاحب اور مسلمان

این آر سی، ایم ایل سی صاحب اور مسلمان

by قندیل

 

شمیم اکرم رحمانی

سیاسی جماعتوں کے مسلم لیڈران کاہمیشہ سے یہ المیہ رہاہے کہ یہ لوگ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد یا کسی سیاسی عہدہ پر براجمان ہوجانے کے بعد مسلمان نہیں رہتے ؛بلکہ پارٹی کے وفادار غلام بن زندگی گزارتے ہیں ،ان کے لیے خدا ،رسول، قرآن اور ایمان بہت بعد کی چیزیں ہوتی ہیں یا وہ بھی نہیں ہوتیں، ان کا چلنا ،بیٹھنا، اٹھنا، بولنا اور خاموش رہنا پارٹی کے طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہوتاہے اور وہ بھی ایمان کی قیمت پر، قوم ملک اور ملت کےلئے ہرگزنہیں ،دو تین لوگوں کے استثنا کے ساتھ یہی اب تک کی تاریخ رہی ہے۔

تازہ معاملہ نتیش کمار کے ایک مسلم ایم ایل سی صاحب کہاہے ،جناب مولانا یاسر ندیم الواجدی کے شو میں تشریف لائے والےتھے ،جہاں لائیو انہیں این آرسی کے تعلق سے گفتگو کرنی تھی؛ لیکن جب پروگرام کا وقت ہوا، تو اچانک معذرت خواہ ہوئے، وجہ یہ بتائی کہ اس معاملے میں پارٹی کااسٹینڈ کلیر نہیں ہے؛ بلکہ اس سے آگےبڑھ کر ڈھٹائی سے یہ بھی کہا کہ این آرسی مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے، مولانا واجدی نے اس ریکارڈنگ کو ایک وڈیو کی شکل میں اپنے فیسبک پر اپلوڈ کردیا ہے، جسے ہر کوئی دیکھ اور سن سکتاہے۔

موصوف جس انداز سے ایم ایل سی منتخب ہوئے تھے، اس کی وجہ سے ان سے ایسی قبیح حرکت کی امید نہ تھی، ان کی پہلے کی دوچار گفتگو سے اندازہ بھی ہورہاتھا کہ جناب عالی مسلمانانِ ہند کے روشن مستقبل کے لئے جدجہد کررہےہیں اورکریں گے بھی؛ لیکن کیا کیاجائے کہ اس دنیا میں زیادہ ترچیزوں کا وجود خلافِ توقع ہی ہوتارہاہے، بالخصوص مسلمان ہند کےساتھ:

نہیں منّت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری

خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری

اقبال

نام لئے بغیر ہم جس ایم ایل سی صاحب کی بات کررہےہیں ،وہ تنہا نہیں ہیں ؛بلکہ جے ڈی یو میں موجود دوسرے مسلم لیڈرز بھی وہی کچھ کہیں گے، جو ہمارے ایم ایل سی صاحب نے کہا ہے، پرشانت کشور نام کا کوئی شخص تو بہتر رخ اپناسکتاہے ؛لیکن پارٹی میں موجود خالداور غلام رسول نام کے لوگ نہیں؛ کیونکہ پارٹی نے اگر انہیں باہرکاراستہ دکھادیا،تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے:

خدا تجھے کسی طوفاں سے آشناکردے

کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

اقبال

مولانا محمود مدنی کے این آرسی پر دیے گئے بے تکے بیانات کے ساتھ ساتھ مذکورہ واقعے نے بھی ہمیں جھنجھوڑ کررکھ دیاہے۔ این آر سی جیسے خطرناک معاملے پر ایم ایل سی صاحب کی خاموشی؛ بلکہ دبے لفظوں میں حمایت نے ایک بار پھر ہمیں سبق دیاہے کہ ہمیں کسی بھی سوکالڈ سیکولرجماعت اور اس کے چمچے پراعتماد کرنے سے نہ صرف بازرہناہوگا؛بلکہ کسی طرح کی چھوٹی موٹی قیادت کھڑی کرنی ہوگی یا پہلے سے کھڑی قیادت کے گرد جمع ہوناہوگا اور اس ڈر کو ختم کرناپڑے گا کہ ہمارے متحدہونے سے ہندوبھائی بھی متحدہوجائیں گے ؛اس لئے کہ وہ تو متحدہوچکے ہیں ،دستور ہند کے باقی رہتے ہوئے اگر ہم نے متحدہ سیاسی محاذ کی تشکیل نہ کی اور مسلکی یا ذاتی مفادات کو بالائے طاق نہ رکھا، تو آنے والےایام مزید سخت ہوںگے اور یکے بعد دیگرے ہرطرح کےمسلک و مشرب سے منسک مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، پھریہ کہ ہمارےاتحاد کی بنیاد کسی مذہب کی دشمنی نہیں ہونی چاہیے؛ بلکہ سیاسی ناانصافیوں کے خلاف جدجہد ہونی چاہیے، جس کی اجازت آئین ہند نے ہمیں دےرکھی ہے ،مجھے پتہ ہے کہ یہ اتحاد عوام سے نہیں، خواص کے چاہنےاور ہرطرح کی قربانیاں دینےکےلیے تیار رہنےسےہوگا ،عوام کی حیثیت ہمیشہ اس جانور کی سی رہی ہے ،جس کورسی پکڑکرچرواہاجدھر چاہتاہے ،لےجاتاہے!

You may also like

Leave a Comment