شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
شہریت پر خطرہ منڈلا رہا ہے لیکن
ہم جس طرح سے لڑتے چلے آئے ہیں اسی طرح اب بھی لڑرہے ہیں !
ابھی کچھ پہلے تک یہ لڑائی بابری مسجد کے نام پر تھی۔ اور اب یہ لڑائی شہریت ترمیمی بِل ۔۔۔ جو اب صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی دستخط کے بعد قانون بن چکا ہے ۔۔۔ پر ہے ۔ لڑائی ’قیادت‘ کی ہے ، ’قوم‘ کی نہیں ۔ ابھی کل جمعہ کے روز جب مولانا سید محمود مدنی کی قیادت والے جمعیۃ علماء ہند کے دھڑے نے ملک کے دوہزار سے زائد شہروں میں متنازعہ شہریت قانون کے خلاف مظاہرے کئے تو جمعیۃ کے میڈیا انچارج عظیم اللہ صدیقی قاسمی نے سوشل میڈیا پر چند سطروں کا ایک عجیب وغریب بیان جاری کیا ، قارئین پہلے اس بیان کو پڑھ لیں:’’ آج دو ہزار شہروں وقصبات میں جمعیۃ علماء کے مظاہرے نے یہ ثابت کردیا کہ ملّی قیادت میں اس کی عوامی وسعت کا کوئی دوردور تک ہمسر نہیں ہے ‘‘۔ محترم صدیقی صاحب کا یہ بیان عجیب وغریب اس لئے ہے کہ اس میں سارا زور ’ ملی قیادت‘ پر دیتے ہوئے جمعیۃ کے تعلق سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’اس کی عوامی وسعت کا کوئی دوردور تک ہمسِر نہیں ہے ۔‘‘ یعنی اس ملک کی جو دوسری مسلم تنظیمیں اور جماعتیں ’ ملی قیادت‘ کی دعویدار ہیں وہ اس ( جمعیۃ علماء ہند ۔ محمود مدنی) کے آگے پانی بھرتی ہیں ۔ حیرت اس بات پر ہے کہ دوہزار سے زائد شہروں وقصبات میں جو مظاہرے ہوئے ان کے ، مودی سرکار پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس پر کوئی بات نہیں کی گئی ، نہ ہی یہ بتایا گیا کہ ان مظاہروں کے بعد ، وہ جماعت ، جس کا ’ ملی قیادت‘ میں کوئی ہمسر نہیں ہےمتنازعہ شہریت قانون کے تئیں کیا اقدام کرے گی، کیا وہ مزید مظاہرے کرے گی ، کم از کم اس وقت تک جب تک ’مودی اینڈ شاہ کمپنی‘ اس متنازعہ بلکہ سیاہ قانون کے تعلق سے مذاکرات کرنے یا اس میں ردوبدل کرنے پر راضی نہیں ہوجاتی ۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا یا نہیں ! اِن مظاہروں کے عظیم الشان ہونے میں کوئی دورائے نہیں ہے ، ان مظاہروں میں شریک ہونے والوں میں اکثریت یقیناً مخلصین ہی کی ہوگی ، لیکن مذکورہ ’بیان‘ کے بعد یوں لگنے لگا ہے کہ یہ مظاہرے واقعی صرف اور صرف ’ قیادت‘ کا ’ جلوہ‘ دکھانے کے لئے ہی منعقد کئے گئے تھے ، ان کا نہ ہی ’شہریت ترمیمی بل‘ سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی این آر سی سے ۔۔۔
بات ’ لڑائی‘ سے شروع ہوئی تھی۔ چچا، حضرت مولانا ارشد مدنی کا ، جو جمعیۃ علماء ہند کے دوسرے دھڑے کے کرتا دھرتا ہیں یہ بیان بڑا ہی معنیٰ خیز ہے کہ ’’ہم احتجاج نہیں کرتے ہیں اور احتجاج کا کوئی نتیجہ بھی ہمارے سامنے نہیں ہے ۔ ‘‘ بھتیجے، مولانا محمود مدنی احتجاج اور مظاہرے کررہے ہیں ۔ اور چچا، حضرت مولانا سید ارشد مدنی احتجاج اور مظاہروں کو بے نتیجہ بتارہے ہیں ۔ دودھڑوں میں تقسیم ہونے والی قوم پرست تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے کرتا دھرتاؤں کا ایک ایسے سیاہ قانون پر ، جو اس ملک کے حقیقی مسلمانوں کو بھی شہریت سے محروم کرسکتا ہے ، یہ رویّہ، نہ ان کی ’ ملّی قیادت‘ کی ’ وسعت‘ کا ثبوت ہے اور نہ ہی ’ امن وامان ‘ کے لئے ان کی ’ تڑپ ‘ کا بلکہ یہ ثبوت ہے ، ان کے ’ قوم‘ کو ’ احمق‘ اور ’بے وقوف‘ سمجھنے کا ۔۔۔ یہ ’ ثبوت‘ ہے کہ ایک ’ حساس‘ مسئلہ پر بھی یہ دو جماعتیں ایک رائے نہیں رکھ سکتیں ، ایک پلیٹ فارم پر نہیں آسکتیں اور ’قوم‘ کے مفاد میں اپنے اختلافات ختم نہیں کرسکتیں۔ اور اپنی اپنی ’ قیادت‘ کو تھوپنے اور ثابت کرنے کے لئے ایک دوسرے کی راہ کاٹ سکتی ہیں ۔
اس ’ لڑائی‘ سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی الگ نہیں ہے ۔ جنرل سکریٹری ، امیرشریعت مولانا ولی رحمانی جمعیۃ علماء کے مظاہروں کے تعلق سے فرماچکے ہیں کہ ’’یہ مظاہرے بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لئے کئے جارہے ہیں ۔ ‘‘وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ بورڈ ایسے احتجاج اور مظاہرے نہیں کرتی ،ان کے بقول جن کا شرعی معاملات سے کچھ لینا دینا نہ ہو ۔ مطلب بورڈ شہریت قانون کے خلاف احتجاج نہیں کرے گا ۔مگر عدالت جائے گا!۔بورڈ کا رویہ قابِل افسوس ہے ۔ مولانا ولی رحمانی کا بیان ان کی مسلمانوں کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے بے حسی کا ثبوت ہے ۔ ویسے یہ لڑائی صرف جمعیۃ کے دودھڑوں اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے درمیان ہی نہیں ہے ، بلکہ ہر مسلم تنظیم اور ہر مسلم جماعت اپنی ڈفلی اپنا راگ الاپ رہی ہے ۔ مختلف بنیادوں پر ۔۔۔ جن میں مسلکی بنیاد بھی شامل ہے ۔۔۔ یہ ایک پلیٹ فارم پر آکر ، ایک دوسرے سے مل کر ، نہ ہی تو این آرسی کے خلاف تحریک چھیڑنے پرراضی ہیں اور نہ ہی شہریت قانون کے خلاف مہم چلانے پر ۔ ہر تنظیم اور جماعت کا سربراہ اپنی ’ قیادت‘ کو حرف اوّل سمجھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ملک کے سارے مسلمان اُسے ہی ’ قائد‘ مان لیں ۔
مذکورہ پس منظر میں جب جامعہ ملیہ اسلامیہ ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، دارالعلوم دیوبند اور جے این یو کے طلباء وطالبات کا احتجاج دیکھتے ہیں تو ایک ڈھارس بندھتی ہے کہ ’ بے روح اور بے اثر‘ مظاہروں کی بجائے آج کی نسل ’ زندگی سے بھرپور اور بااثر‘ مظاہروں کے لئے موجود ہے ۔۔۔ لاٹھیاں کھاکر ، آنسو گیس کا سامنا کرکے اور پولس کی بربریت کے سامنے ڈٹ کر ان طلباء وطالبات نے یہ ثابت کردیا کہ اس ملک میں ’ آئین‘ کا دفاع ممکن ہے ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ودارالعلوم دیوبند کے طلباء وطالبات کے ساتھ پولس نے جو کچھ کیا وہ تو اسے کرنا ہی تھا کہ اس کی ’جینیات‘ کی تشکیل ہی ’ اقلیت دشمنی‘ سے ہوئی ہے ۔ جامعہ اور علی گڑھ اور دیوبند کے طلبا وطالبات مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ صرف مبارکباد کے ہی نہیں وہ سارے ہندوستانیوں کے ’ ساتھ‘ کے بھی مستحق ہیں کیونکہ یہ ’ جنگ‘ ۔۔۔ جی ہاں ’ لڑائی‘ نہیں ۔۔۔ متحد ہوکرہی جیتی جاسکتی ہے ۔ اتحاد بھی مسلم ، مسلم کا نہیں ، اتحاد سب کا ، مسلمانوں، ہندو ؤں، دلتوں ، سکھوں ، عیسائیوں ، پارسیوں، بودھ ، جنیوں یعنی سارے ہندوستانیوں کا ۔ اور ان سیاست دانوں کا جنہوں نے وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا ۔ اب نتیش کمار ، رام ولاس پاسوان ، وائی ایس آر ، چندرا بابو نائیڈو وغیرہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ’چھوڑنا‘ ہوگا ، ان کی ’ شکلیں‘ لوگ اپنے ذہنوں میں بٹھالیں ۔۔۔ اور انہیں جنہوں نے شہریت ترمیمی بل کے خلاف ووٹ دیئے ، انہیں قطعی نہ چھوڑیں ، ان میں ایم آئی ایم کے سربراہ ایم پی بیرسٹر اسدالدین اویسی کے ساتھ اکھلیش سنگھ یادو ، ممتابنرجی ، مایاوتی اور سارے کانگریسی ، این سی پی وغیرہ کے لیڈران شامل ہیں ۔ یہ ’ جنگ‘ ان سب کے ساتھ متحد ہوکر ہی لڑنا ہوگی ۔ اس ’جنگ‘ کو ’ مسلمان بنام ہندو‘ بنانے سے ہمیں باز رہنا ہوگا ، حالانکہ مختلف حلقوں سے یہ کوشش کی جارہی ہے ۔ بی جے پی تو یہ چاہتی ہی ہے کہ یہ معاملہ ’ ہندو ۔ مسلم معاملے‘ میں تبدیل ہوجائے ۔ اور کچھ ’ سنگھی مسلمان‘ بھی ہیں ، جن میں ’ باریش مقدس چہرے‘ بھی شامل ہیں جو سارے معاملے کو ’ ہندو ۔ مسلم معاملہ‘ بنانے کی سعی کررہے ہیں ، لہٰذا مسلمان ، بالخصوص وہ مسلم نوجوان جو مستقبل کا سرمایہ ہیں ، ہوشیار رہیں ۔ تحریک جو شروع ہوئی ہے اس میں سارا ملک شامل ہے ۔ سارا آسام جل رہا ہے ۔ نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں مظاہرے زوروں پر ہیں ۔ مظاہرے یوپی اور جنوبی ہند کی ریاستوں میں بھی ہورہے ہیں۔ ملک کے دانشوران اور قانون دان ’شہریت قانون‘ کو ’ غیر آئینی اور غیر اخلاقی‘ قرار دے چکے ہیں ۔ اور یہ ’ قانون‘ ہے بھی ’ غیر آئینی اور ’غیر اخلاقی‘۔۔۔ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ یہ بِل ۔۔۔ اب قانون ۔۔۔ ملک کے بٹوارے کے اثرات ونتائج کا تریاق اور زخموں کا مداوا ہے ! وہ بٹوارے کا قصوردار کانگریس کو قرار دیتے ہیں اور دوقومی نظریہ کی بات کرتے ہوئے پاکستان کا تو ذکر کرتے ہیں مگر دوقومی نظریے کو ملنے والی ساورکر کی حمایت کو نظرانداز کردیتے ہیں ۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ بِل (قانون) آئین کے آرٹیکل ۱۴ کی خلاف ورزی نہیں ہے ۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے کسی طرح عالمی معاہدوں کی بھی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے ۔ حالانکہ آرٹیکل ۱۴ کی ،بلکہ مکمل آئین کی یہ بِل(قانون) مکمل خلاف ورزی ہے ۔ اور عالمی سطح پر حقوقِ انسانی کی تنظیموں اور ملکوں کی طرف سے اس پر جس طرح سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اس سے ازخود یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دنیا اسے’غیرآئینی‘ بھی سمجھتی ہے اور ’ غیر اخلاقی‘ بھی۔ امیت شاہ بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ اس بِل (قانون) سے مسلمانوں پر کوئی بھی ’مصیبت‘ نہیں آئے گی ۔۔۔ حالانکہ یہ بالکل واضح ہے کہ سی اے بی(CAB) اور این آر سی کا ’ملغوبہ‘ مسلمانوں کے لئے ’ زہرہلال‘ ہوگا ۔۔۔ مودی سرکار اور امیت شاہ مسلسل لوگوں کو ’ بہلانے‘ ’ پھسلانے‘ اور ’ بہکانے‘ کی کوششوں میں ہیںکہ یہ تو بس پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ’ستائے‘ ہوئے ہندوؤں ، سکھوں ، پارسیوں، جینوں، عیسائیوں اور بودھسٹوں کو ’ شہریت‘ دینے کا معاملہ ہے ، اس سے کسی کا کوئی حق تھوڑی چھینا جارہا ہے ! شاہ کہتے ہیں کہ قانون کسی سے کسی کی شہریت تھوڑی چھین رہا ہے اور وہ بھی ہندوستانی مسلمانوں سے ، نہیں بالکل نہیں ۔۔۔ پر وہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتے کہ سری لنکا میں تمل ہندوؤں کو ،پاکستان کے ان مسلمانوں کو جو ستائے جارہے ہیں ، چین کے ایغور اور برما کے روہنگیا مسلمانوں کو فہرست میں کیوں شامل نہیں کرتے ؟؟
بات بہت صاف ہے ، مودی اینڈ شاہ کمپنی یہ سارا کھیل ’ مسلمانوں‘ کے نام پر کھیل رہی ہے ، ستایا مسلمانوں کو ہی جانا ہے لیکن وہ یہ بھول گئی ہے کہ متاثر آسام ، مغربی بنگال اور پورے نارتھ ایسٹ کے غیر مسلم بھی ہونگے ۔ جنہیں باہر سے لاکر ’ شہریت‘ دی جائے گی انہیں اس ملک کے سارے حقوق ملیں گے ، اور سارا نارتھ ایسٹ یہ سمجھ رہا ہے کہ ایسا ہوا تو ان کے اپنے مفادات پر زک پڑے گی اور ان کے اپنے حقوق متاثر ہونگے ۔ ۔۔۔ اس لئے سارا نارتھ ایسٹ سراپا احتجاج ہے ۔ یہ کھیل سیاسی ہے ، بی جے پی ’اپنا ووٹ بینک‘ مضبوط کرنا چاہتی ہے، آسام میں بھی ، مغربی بنگال میں بھی اور نارتھ ایسٹ میں بھی ۔۔۔ سب ہی یہ سمجھ رہے ہیں ، اور یہ بھی جان رہے ہیں کہ یہ سارا عمل ’ انسانیت پرستی‘ نہیں بلکہ ’مفاد پرستی‘ پر مبنی ہے ۔۔۔ لہٰذا سارا ملک سراپا احتجاج ہے ۔۔۔ مسلمانوں کو اس موقعے کا فائدہ اٹھانا چاہیئے ۔ یہ فائدہ کیسے اٹھایا جائے اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے ’ہندو بنام مسلم ‘ نہ بننے دیا جائے بلکہ یہ جنگ سب کے ساتھ مل کر بلکہ برادران وطن ہی کی قیادت میں لڑی جائے ۔