احمد نور عینی
کل وزیر داخلہ نے سی اے اے اور این پی آر کے تعلق سے راجیہ سبھا میں جو بیان دیا ہے اسے لے کر کچھ لوگ کچھ زیادہ ہی خوش ہورہے ہیں، یہ بات تو سچ ہے کہ کل اس کا فرعون وقت کا لہجہ بہت حد تک بدلا ہوا تھا، اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، اس کے آواز کی گرج بھی کہیں غائب ہوچکی تھی، آمرانہ طمطراق بھی نظر نہیں آرہا تھا، اور جس طبقہ کو انتہائی حقارت کے ساتھ گھس پیٹھیا کہتے نہیں تھکتا تھا، کل اسی طبقے کو ایک سے زائد بار اس نے پیار بھرے انداز میں مسلمان بھائی بہن کہا، تانا شاہ کے الفاظ اور لہجے کی یہ تبدیلیاں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ مسلمانوں کی طرف سے اٹھنے والی آواز بے اثر نہیں گئی۔ ہماری تحریک نے فرعون وقت کا غرور کسی حد تک توڑا ہے۔ اس مثبت پہلو کے باوجود ہمیں یہ بات سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وزارت داخلہ کا پارلیمنٹ میں دیا ہوا یہ زبانی بیان نہ این پی آر کے نفاذ میں کوئی تبدیلی لا سکتا ہے اور نہ این پی آر کے خطرات کو ختم کرسکتا ہے۔
وزیر داخلہ نے کل سی اے اے اور این پی آر کے تعلق سے بات کی، این آر سی کا کوئی ذکر نہیں کیا، سی اے اے کے بارے میں ان کی بات کوئی نئی نہیں ہے، یہ بات برسر اقتدار طبقہ اور نیشنل میڈیا شروع ہی سے کہتا ہوا آرہا ہے، وہ یہ کہ سی اے اے شہریت دینے کا قانون ہے نہ کہ لینے کا ، اور اس سے مسلمانوں کا کوئی نقصان نہیں ہوگا، اس بات کا جواب مستقل تین مہینوں سے دیا جارہا ہے، اس لیے ہم اسے چھوڑتے ہیں۔ این پی آر کے تعلق سے وزیر داخلہ نے بالترتیبب تین باتیں کہیں:
1۔ این پی آر میں ڈاکومنٹس نہیں مانگے جائیں گے۔
2۔ این پی آر میں تمام سوالوں کا جواب دینا ضروری نہیں ہوگا۔
3۔ این پی آر میں کسی کے فارم پر ڈی D نہیں لکھا جائے گا۔
سب سے پہلےہم آخری بات کو لیتے ہیں، وزیر داخلہ نے یہ بات کہی کہ کسی کے آگے ڈی نہیں لکھا جائے گا، یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ڈی لکھنا یا نہ لکھنا اہم نہیں ہے، کسی کو مشتبہ شہری بتانا یہ اہم ہے، مشتبہ شہری بتانے کے لیے چاہےڈی لکھا جائے یا کوئی اور علامت ڈالی جائے، این پی آر کے لیے 2003 میں جو رولز بنائے گئے ہیں اس میں مشتبہ شہری پر مناسب علامت ؤ لگانے کی بات واضح طور پر لکھی ہوئی ہے؛ چناں چہ رول 4 کی شق 4 کہتی ہے:
‘‘During the verification process, particulars of such individuals, whose Citizenship is doubtful, shall be entered by the local Register with appropriate remark in the Population Register for further enquiry and in case of doubtful Citizenship, the individual or the family shall be informed in a specified proforma immediately after the verification process is over’’.
اس میں یہ بات واضح ہے کہ جس پر شک ہوگا اس پر سرکاری آفیسر مشتبہ شہری کی کوئی علامت لگا دے گا۔ اس لیے وزیر داخلہ کی بات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ اور مان لیجیے کہ وزیر داخلہ نے ڈی سے لفظ نہیں بل کہ اس کا مفہوم مراد لیا ہے، یعنی کہ کسی کو ڈاوٹ فل سیٹیزن نہیں بنایا جائے گا، تب بھی 2003 کے رولز میں سرکاری کارکنان کو جو ڈاوٹ فل سیٹیزن بنانے کا اختیار دیا گیا ہے وہ وزیر داخلہ کے زبانی بیان سے ختم نہیں ہوسکتا۔
وزیر داخلہ نے دوسری بات یہ کہی کہ تمام سوالوں کا جواب دینا ضروری نہیں ہے، بل کہ اسے اختیار ہوگا، جس کا جواب چاہے دے اور جس کا چاہے نہ دے۔ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے، کیوں کہ این پی آر کے 2003 والے رولز میں یہ بات کہیں نہیں ملتی کہ اسے اختیار ہوگا، بل کہ اس میں اس کے برعکس بات ملتی ہے:
‘‘it shall be the responsibility of the head of every family, during the period specified for preparation of the Population Register, to give the correct details of name and number of members and other particulars’’.
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ این پی آر میں ڈاکومنٹس نہیں مانگے جائیں گے تو یہ بات سچ ہے، مگر یہ آدھا سچ ہے، اس سچی بات سے ایک اور سچی بات جڑی ہوئی ہے جسے وزیر داخلہ نےعمدا بیان نہیں کیا، وہ یہ کہ جب ایک تعداد کا مشتبہ شہریوں کی لسٹ میں نام آجائے گا تو پھر اسے کورٹ کچہری میں اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی، اور ظاہر سی بات ہے کہ اس کے لیے ڈاکومنٹس دکھانے ہوں گے، جیسا کہ آسام میں ہوا۔ اور اس پوری کاروائی کا طریقہ 2003 کے رولز میں تفصیل سے موجود ہے۔ گویا این آر سی کا جو پہلا قدم این پی آر ہے اس میں ڈاکومنٹس بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی؛ لیکن این پی آر کا مرحلہ ختم ہونے کے بعد جب این آر سی کا مرحلہ آئے گا تو ڈاکومنٹس کا چکر شروع ہوگا۔
اب تک کی تفصیل سے این پی آر کے تعلق سے وزیر داخلہ کے بیان کی حقیقت سمجھ میں آگئی ہوگی، اب یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ وزیر داخلہ نے جب راجیہ سبھا میں بیان دے دیا تو پھر 2003 کے رولز کو بیچ میں لاکر کنفیوژن پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ این پی آر کی بنیاد کیا ہے۔ این پی آر کی بنیاد در اصل 2003 کے سیٹیزن شپ رولز پر ہے، جو اٹل جی کی سرکار میں بنائے گئے تھے، این پی آر کی بنیاد امیت شاہ کا کوئی بیان نہیں تھا کہ موجودہ بیان سے وہ بیان منسوخ ہوجائے، این پی آر کے 2003 میں بنائے گئے اصول کسی وزیر کے ایوان میں دیے گئے زبانی بیان سے منسوخ نہیں ہوجاتے، اس لیے جب تک این پی آر اور این آر سی کے تعلق سے بنائے گئے 2003 کے رولز واپس (Repeal) نہیں ہوجاتے تب تک زبانی جمع خرچ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ جب تک این پی آر میں مشتبہ بنانے کا اختیار سرکار ی کارندوں کو حاصل ہوگا اور جب تک وہ این آر سی سےمربوط رہے گا تب تک این پی آر خطرناک سمجھا جائے گا، چاہے کوئی کچھ بھی بیان دے دے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں این پی آر کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرنا چاہیے؛ کیوں کہ این پی آر کو این آر سی کے لیے ہی بنایا گیا ہے، چناں چہ 2003کے رولز میں جہاں این پی آر کا طریقہ کار سمجھایا گیا ہے اس کا عنوان ہی ہے Preparation of‘‘ National Registration of Indian Citizens یعنی این آر سی کی تیاری۔ اسی طرح وزارت داخلہ کی طرف سے شائع ہونے والی 19۔2018 کی سالانہ رپورٹ کے صفحہ 262 پر بہت واضح لفظوں میں موجود ہے:
‘‘The National Population Register (NPR) is the first step towards the creation of the National Register of Indian Citizens’’.
بعض حضرات اس خوش فہمی میں ہیں کہ وزیر داخلہ نے کہہ دیا کہ ڈاکومنٹس نہیں مانگے جائیں گے اور D نہیں لگایا جائے گا اس لیے اب این پی آر اور مردم شماری(census) میں کوئی فرق نہیں رہا، اور مردم شماری آزادی کے بعد سے ہوتی ہوئی آئی ہے، اس لیے ڈرنے اور ڈرانے کا کام بند ہونا چاہیے، یہ خوش فہمی بھی در اصل قانونی بنیادوں سے ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے، حقیقت یہ ہےکہ این پی آر اور مردم شماری دونوں الگ ہیں، دونوں دو مختلف قانون کے تحت آتے ہیں، این پی آر کا تعلق 1955 کے قانون شہریت (Citizenship_Act_1955)سے ہے، اور مردم شماری کا تعلق 1948 کے قانون (census_act_1948) سے ہے،مردم شماری کے ایکٹ سے شہریت لینے یا دینے کا تعلق نہیں ہے، جب کہ شہریت کے ایکٹ کا تعلق شہریت کے لینے اور دینے سے ہے، اور 2003 میں این پی آر کے جو رولز بنائے گئے اس کا تعلق شہریت ایکٹ سے ہے نہ کہ مردم شماری ایکٹ سے ، اور این پی آر کے یہ رولز این آر سی ہی کے لیے بنائے گئے ہیں، لہذا این پی آر کا عمل این آرسی ہی کے لیے ہے، اگر صرف مردم شماری ہی کرنا مقصد ہے تو پھر این پی آر کے بغیر بھی مردم شماری ہوسکتی ہے، اس کے لیے علیحدہ ایکٹ موجود ہے۔
ایک بات بہت مضبوطی کے ساتھ یہ کہی جاتی ہے کہ 2010 میں این پی آر ہوا تھا اگر انہی سوالات کے ساتھ 2020 میں بھی کرلیا جائے تو کیا حرج ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ 2010 میں ہمارے گھر میں سانپ آیا اورہمیں کانٹے بغیر نکل گیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اس سانپ کو 2020 میں بھی اپنے گھر میں آنے دیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قانونا 2010 کا این پی آر بھی این آر سی سے مربوط تھا مگر خوش قسمتی سے عملا وہ این آر سی سے ناآشنا رہا، دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت سی اے اے جیسا خلاف دستور قانون نہیں لایا گیا تھا اور نہ ہی اس وقت کے وزیر داخلہ کی طرف سے این آر سی کی کرونولوجی سمجھائی گئی تھی،اس لیے لوگوں میں شعور پیدا نہ ہوسکا اور لوگ اس کو مردم شماری کے ہی قبیل سے سمجھتے رہے؛ لیکن اب تو سب کچھ واضح ہوچکا ہے اس لیے ہم حتی الامکان 2010 والا فارمیٹ بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، ہاں اگر حکومت یہ گزٹ جاری کردے کہ جس طرح 2010 میں عملا اس کو این آر سی سے نہیں جوڑا گیا تھا اسی طرح 2020 میں بھی زائد سوالات نکالنے کے ساتھ ساتھ عملا اسے این آر سی سے بے تعلق رکھا جائے گا۔اور سی اے اے سے بھی اس کا رشتہ نہیں ہوگا ؛ بل کہ سی اے اے کو رد کیا جائے گا، اگر حکومت کی طرف سے ایسا ہوتا ہے تب تو ٹھیک ہے ورنہ ہم بھی دیکھیں گے ، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)