Home تجزیہ نوبیل انعامات : علوم و تحقیق پر استعماریت کے اثرات -محمد خالد اعظمی

نوبیل انعامات : علوم و تحقیق پر استعماریت کے اثرات -محمد خالد اعظمی

by قندیل

(شبلی نیشنل کالج، اعظم گڑھ)

علم و تحقیق کے مختلف شعبوں میں نوبیل انعامات کی شروعات ۱۹۰۱ء سے ہوئی، جب مشہور سائنسداں اور تاجر الفریڈ نوبیل نے اپنے انتقال سے قبل اپنی جائداد اور دولت کے استعمال کے لیے ایک وصیت نامہ مرتب کیا جس کی رو سے بعد از مرگ ان کی چھوڑی ہوئی دولت سے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کی جانے والی علمی تحقیقات اور دنیا میں امن وامان کے قیام کی کوشش کرنے والے افراد اور محققین کو ایک مخصوص رقم بطور انعام ہر سال دی جاتی رہےگی ۔ شروع کے دنوں میں شائد ان کی وصیت پر ایمانداری سے عمل ہوتا رہا ہوگا لیکن بعد کے ادوار میں یہ با وقار انعام بہت حد تک سیاسی نوعیت کا ہو گیا۔ سرد جنگ کے زمانے میں چین سمیت روسی بلاک کے محققین کو کبھی یہ انعام نہیں مل سکا۔ اسی طرح دور نزدیک کے کچھ برسوں میں ہنری کسنجر، شمعون پیریز، دلائی لامہ ، ملالہ یوسف زئی اور بارک اوبامہ جیسے لوگوں کو نوبیل انعام کے لیے منتخب کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ انعام اب کچھ مخصوص طرز فکر کے حامل افراد کو ہی دیا جاتا ہے۔ مہاتما گاندھی کا نام کئی بار اس انعام کے لیے شارٹ لسٹ ہوا لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر انہیں بھی اس کا حقدار نہیں سمجھا گیا۔ سائنس کی مختلف شاخوں کے کاموں کی اختصاصی نوعیت کا اندازہ اس کےمخصوص ماہرین علم ہی کرسکتے ہیں ، لیکن معاشیات میں دیا جانے والا نوبیل انعام اکثر ماہرین کے درمیان موضوع بحث بن جاتاہے۔

سال 2024 کے لیے معاشیات کے نوبیل انعام کا اعلان 14 اکتوبر 2024 کو کیا گیا، اور یہ اعزاز مشترکہ طور پر امریکہ میں مقیم تین ماہرین اقتصادیات دیرون عاصم اوغلو، سائمن جانسن اور جیمز اے رابنسن کو دیا گیا ہے۔ ان ماہرین کا تحقیقی کام کسی ملک کی معاشی ترقی و خوش حالی وہاں موجود سماجی و معاشی اداروں کی کارکردگی کے خصوصی تعلق پر مبنی ہے اور اسی تحقیق پر انہیں نوبیل انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ علوم کے دیگر شعبوں کے برعکس معا شیات میں نوبیل انعام دینے کی شروعات ۱۹۶۹ سے ہوئی، جبکہ تحقیق و خدمات کے دیگر شعبوں میں اس کی شروعات ۱۹۰۱ سے ہی ہوگئی تھی – معاشیات کے نوبیل انعامات کا اعلان بھی سویڈن کی نوبیل کمیٹی ہی کرتی ہے لیکن یہ انعام الفریڈ نوبیل کی جمع شدہ رقم سےنہ دےکر سویڈن کے مرکزی بینک (سویڈش رکس بینک ) کی جانب سے الفریڈ نوبیل کی یاد میں دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سال کے معاشیات کے نوبیل انعام یافتہ ماہرین اقتصادیات، اس خاص نظریہ کو سمجھنے کے لیے ایک طرح کا معاشی نظریاتی ٹول تیار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ مختلف ممالک میں معاشی اور سماجی ادارے ملک کی ترقی و خوش حالی کے لیے کس طرح مختلف کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان تینوں نوبل انعام یافتہ افراد میں دارون عاصم اوغلو ترک نژاد امریکی ہیں جو 1967 میں استنبول میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اور اس وقت ایم آئی ٹی، کیمبرج یونیورسٹی، امریکہ میں بطور پروفیسر کام کر رہے ہیں۔ دوسرے نمبر پر سائمن جانسن ہیں ، جو 1963 میں شیفیلڈ، انگلینڈ میں پیدا ہوئے، انہوں نے ایم آئی ٹی کیمبرج سے 1989 میں پی ایچ ڈی کیا اور آج کل وہیں پر بطور پروفیسر کام کر رہے ہیں۔ معاشیات کا نوبیل حاصل کرنے والوں میں تیسرے شخص جیمز اے رابنسن ہے، جو 1960 میں امریکہ میں پیدا ہوئے اور 1993 میں ایل یونیورسٹی، کنکٹیکٹ، امریکہ سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور اس وقت وہ امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی میں بطور پروفیسر کام کر رہے ہیں۔ رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز نے ان ماہرین اقتصادیات کو شارٹ لسٹ کرتے وقت جو پیمانہ مقرر کیا اس کی بنیاد مختلف ممالک میں جغرافیائی اور قدرتی ذرائع میں مماثلت کے باوجود معاشی ترقی اور خوش حالی کی سطح الگ الگ ہونے کی وجوہات پر تحقیق ہے۔ ان ماہرین نے اپنی تحقیق اور تجزئے میں اس بات کی ٹھوس پڑتال کرنے کی کوشش کی ہے کہ بہت سارے ممالک میں جغرافیائی اور قدرتی وسائل کی یکسانیت کے باوجود ان کی ترقی اور خوش حالی کی سطح اور رفتار کن وجوہات سے اور کس طرح الگ الگ ہوتی ہے اور کس طرح ان ملکوں کی سماجی و معاشی تنظیمیں اور ادارے مختلف اوقات میں معاشی خوشحالی اور ملک کی ترقی میں کیا اور کیساکردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے منطقی طور پر ان وجوہات کی وضاحت کی ہے کہ کس طرح بعض ممالک امیر اور خوش حال ہو جاتے ہیں اور بعض غریب اور پسماندہ رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق کی شروعات سولہویں صدی سےکی ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں یوروپی نوآبادیات کا ان ممالک کی معاشی ترقی پر پڑنے والے اثرات کا گہرائی سے مطالعہ کیاہے۔

ان ماہرین اقتصادیات نے اپنی تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایشیاء اور افریقہ کے ان خطوں میں جہاں استعماری طاقتوں نے اپنے نوآبادیاتی دور میں معاشی اور سماجی ادارے کھڑے کیے، جس کی وجہ سے ان ممالک کے اندرمعاشی خوشحالی پیدا ہوئی اور اسے مستحکم کرنے میں اداروں نے اہم کردار ادا کیا تھا، جب کہ ان ممالک میں جہاں اس طرح کے ادارے خراب حالت یا خراب کارکردگی کے حامل تھے وہاں وہ معاشی ترقی اور خوشحالی میں طویل مدتی استحکام پیدا نہیں کر سکے۔ گویا ان انعام یافتہ ماہرین معاشیات نے کسی ملک کی معاشی ترقی اور وہاں موجود مختلف طرح کے اداروں کے درمیان ایک مثبت تعلق کو معاشی ترقی کے بنیادی عنصر کی حیثیت کے طور پر تسلیم کیا ہے اور اسی خلاصے کو اہمیت دی ہے کہ کسی ملک کی ترقی و شرح نمو میں ادارہ جاتی حکمت عملی زیادہ کارگر اور تیز رفتار ہوتی ہے۔ ان ماہرین نے نو آبادیاتی تاریخ کے چار سو سال کے اعدادوشمار کے ساتھ اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نو آبادیاتی استعماری طاقتوں نے ایشیاء اور افریقہ میں اپنی نو آبادیات میں ادارے قائم کرکے ان علاقوں کو ترقی یافتہ بنادیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ علاقے اپنی ترقی اور خوش حالی کو تادیر قائم نہیں رکھ سکے اور نو آبادیاتی حکومتوں کے ہٹتے ہی وہاں پھر غریبی اور لاچاری نے ڈیرے ڈال دیے ۔ لیکن ان کی نیتوں کا کھوٹ اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس حقیقت کا اظہار بالکل نہیں کرنا چاہتے کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ایشیا اور افریقہ کے وہ ممالک جو اپنے وقت کے امیر ترین اور خوشحال ممالک تھے، استعماری نوآبادیات کے دوران ان ممالک سے معاشی اور قدرتی وسائل کی لوٹ کا ایک منفرد کاروبار شروع ہوا جس کی وجہ سے مال و دولت اور وسائل کا الٹا بہاؤ ایشیاء اور افریقہ کے ممالک سے انگلینڈ و دیگر یوروپی ممالک کی جانب ہو گیا۔ دولت اور وسائل کی یوروپ کی طرف اسی منتقلی کی وجہ سے ایشیائی و افریقی ممالک نوآبادیات اور استعماریت کے دوران غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئےاور ترقی کی دوڑ میں بھی پچھڑ گئے، جب کہ انہیں وسائل سے انگلینڈ اور یوروپ کے دیگر ممالک امیر ترین ہوتے چلے گئے۔

معاشی ترقی اور خوشحالی کا یہ نظریہ جو اداروں کی کارکردگی کے تعلق سے ان ماہرین معاشیات نے پیش کیا ہے وہ صرف یورپ، برطانیہ اور امریکہ کی ترقی کے لیے ہی صحیح ہے اور صرف ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کیلئے اپنا خاص نقطۂ نظر پیش کرتا ہے ۔ ایسے نظریات پیش کرنے والے دانشور یورپ اور امریکہ کے ہاتھوں صدیوں سے جاری ایشیائی اور افریقی ممالک کے لگاتار استحصال کی بات ہی نہیں کرتے۔ ان تمام ماہرین تعلیم اور دانش ور پروفیسروں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ سولہویں سے بیسویں صدی کے دوران عالمی استعمار کی تاریخ اور اپنی نو آبادیات میں انگلینڈ و دیگر یوروپی ممالک کی تمام تر مجرمانہ لوٹ اور وسائل کی بندر بانٹ کی حقیقیت کے باوجود، وہ امیر ایشیائی اور افریقی ممالک سے یوروپ کی طرف اقتصادی وسائل کی منتقلی کی کوئی بھی اخلاقی یا سیاسی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ فوجی قوت کے لحاظ سے طاقت ور اور مستحکم یورپی ممالک جو اپنے وقت کے نوآبادیاتی آقا تھے، انہوں نے کس طرح پسماندہ ممالک کا استحصال کرکے اپنی ترقی کی راہ ہموار کی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اب اس سلسلے میں وہ اپنے ہاتھوں ہونے والے استحصال کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ان ممالک میں موجود غربت اور پست معاشی حالات کا ذمہ دار خود انہیں ممالک کو ٹھہرانے کیلئے نئے نئے نظریات پیش کرتے رہتے ہیں۔ حقائق کے برعکس وہ ایشیائی اور افریقی ممالک کی پسماندگی کا الزام انہی ممالک پر ڈالنے لگتے ہیں جہاں انہوں نے صدیوں حکومت کی، عوام کا معاشی و سیاسی استحصال کیا،مادی و قدرتی وسائل پر دست درازی کی،لوٹ مار کی ۔ یایسا ظالمانہ استحصال کرنے والوں کے ظلم و جبر کو دنیا کے سامنے لانے کے بجائےاس کا دفاع کرنے کے لیے عالمانہ تحقیق کرتے ہیں، اسی تحقیق کے ذریعہ معاشی و سیاسی مسائل کیلئے غریب زخم خوردہ ممالک کو ہی ذمہ ٹھہراتے ہیں اور نتیجے کے طور پر عالمی معیار کا ایوارڈ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like