نیت بھانپنے کا ہنر جانتا ہے
مرا یار پڑھنا نظر جانتا ہے
زبردستی انجان ہے بن رہا وہ
مرا حالِ دل سر بسر جانتا ہے
پتہ تو ہیں آدابِِ عشق اس کو لیکن
ہاں اتنا ہے کچھ مختصر جانتا ہے
بڑی خوبیوں والا ہے چارہ گر وہ
مداوائے دردِ جگر جانتا ہے
مجھے بندگی کا سبق مت پڑھاؤ
کہاں جھکنا ہے میرا سر جانتا ہے
اکیلا نکل کر ہوا قافلہ اک
کچھ ایسا وہ فنِ سفر جانتا ہے
ہر اک غم کا انداز جیسے جہاں میں
فقط میرا ہی ایک گھر جانتا ہے
شفایاب کس کی دعا سے ہوا ہوں
یہ رب یا دعا کا اثر جانتا ہے
گزاری ہے عمر اس نے بے خوف ہوکر
مگر کیسا ہوتا ہے ڈر جانتا ہے
سعادتگنج۔بارہ بنکی
یوپی۔