Home متفرقاتمراسلہ نئی تعلیمی پالیسی میں مدارس کا ذکرکیوں نہیں ہے؟- مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی

نئی تعلیمی پالیسی میں مدارس کا ذکرکیوں نہیں ہے؟- مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی

by قندیل

 

نئی تعلیمی پالیسی پر تجزیہ اور تاثرات کا سلسلہ جاری ہے، میں نے بھی اس پالیسی کا مطالعہ کیا ہے، میں ابھی اس سے متعلق صرف مدارس کی تعلیم پر اپنے مطالعہ کو پیش کررہا ہوں۔

کئی حضرات نے نئی تعلیمی پالیسی کا جائزہ لیتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ یہ پالیسی مدرسہ ایجوکیشن سسٹم پر خاموش ہے،کہیں بھی اس کا تذکرہ نہیں ہے،جبکہ دیگر سسٹمز کا ذکر ہے۔ میں نے بھی اپنے مطالعہ میں یہی پایا،اس کی وجہ کیا ہے؟ مطالعہ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ نئی تعلیمی پالیسی نے رائٹ ٹو ایجوکیشن قانون کو برقرار رکھا ہے،یعنی رائٹ ٹو ایجوکیشن باقی رہے گا اور اس کی دفعات میں ضرورت پڑنے پر پھیر بدل کیا جائے گا ؛تاکہ رائٹ ٹو ایجوکیشن قانون کے ساتھ نئی تعلیمی پالیسی کا نفاذ ہوسکے، رائٹ ٹو ایجوکیشن کا اعلان ہوا، تو اس میں مدارس شامل تھے۔ اس کی بہت سی دفعات مدارس کے لئے خطرناک تھیں ،اس پر ہر طرف سے آواز بلند کی گئی، تو بڑی پریشانیوں کے بعد حکومت نے مدرسہ ایجوکیشن سسٹم کو مستثنیٰ قرار دے دیا، چونکہ رائٹ ٹو ایجوکیشن قانون کے تحت مدارس مستثنیٰ ہیں، اس لیے نئی تعلیمی پالیسی میں مدارس کا ذکر نہیں ہے، کیونکہ مدارس کے سلسلے میں کوئی پالیسی وضع کرنے سے پہلے رائٹ ٹو ایجوکیشن قانون میں ترمیم کی ضرورت پڑتی اور یہ ایک مشکل کام تھا ،اس لئے نئی تعلیمی پالیسی میں اس پر خاموشی اختیار کی گئی ہے ،میرے خیال سے نئی تعلیمی پالیسی میں مدارس کا ذکر اسی وجہ سے نہیں کیا گیا ہے۔ ابھی تک یہی معاملہ ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ حالات اسی طرح برقرار رہیں، نئی تعلیمی پالیسی میں مدارس کا ذکر نہیں ہے،اس کو اسی تناظر میں لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ ان اداروں کی ہر طرح حفاظت فرمائے۔

You may also like

Leave a Comment