Home نقدوتبصرہ نیکی کے فرشتوں کی کرداری کائنات-حقانی القاسمی

نیکی کے فرشتوں کی کرداری کائنات-حقانی القاسمی

by قندیل
ڈیجیٹل ایج میں بچوں کے لیے کہانیوں کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو بدلتے ذہنی اور ثقافتی نظام میں کس طرح کی کہانیاں بچّوں کو پسندآسکتی ہیں؟
یہ سوالات میرے ذہن میں اس لیے پیدا ہوئے کہ ٹیکنالوجی کے اس عہد میں بچوں کے لیے تفریح اور تربیت کے بہت سے متبادل موجود ہیں۔ موبائل اور انٹرنیٹ پر کہانیوں کا بیش بہا ذخیرہ ہے۔ خاص طور پر کارٹون کہانیاں بچّوں کو زیادہ پسند آتی ہیں اور کارٹون کردار بھی بچّوں کے ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں تو ایسے میں کتابی کہانیوں کی ضرورت رہ جاتی ہے یا نہیں اس پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔
میرا خیال ہے کہ آج بھی کتابی کہانیوں کی افادیت اور مقصدیت معدوم نہیں ہوئی ہے کیوں کہ کتابوں کے لمس کا لطف ہی کچھ اور ہے۔ یہ بات نہ ہوتی تو J.K. Rowlingکی Harry Potter سیریز کو پوری دنیا میں اتنی شہرت اور مقبولیت نہ ملتی اور اس کی ملین کتابیں فروخت نہ ہوتیں اور نہ ہی بہت ساری زبانوں میں اس کے ترجمے ہوتے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس فنطاسیہ سیریز کا ترجمہ اردو زبان میں بھی ہوا۔ معظم جاوید بخاری نے اس سیریز کے اردو میں ترجمے کیے اور اردو حلقہ میں بھی اس کو وہی مقبولیت اور شہرت نصیب ہوئی۔ اردو میں ’ہیری پوٹر اور بدبخت بچہ‘، ’ہیری پوٹر اور پارس پتھر کا راز‘، ’ہیری پوٹر اور تہہ خانے کے اثرات‘، ’ہیری پوٹر اور ققنس کا گروہ‘، ’ ہیری پوٹر اور آدھ خالص شہزادہ‘، ’ہیری پوٹر اور اجل کے تبرکات‘، ’ہیری پوٹر اور اژقبان کا اسیر‘، ’ہیری پوٹر اور رازوں کا کمرہ‘ بہت مقبول ہیں۔ اس کے علاوہ بصر مرکوز کہانیوں سے بچوں کے ذہنی افق کو نہ صرف وسعت ملتی ہے بلکہ نئے نئے الفاظ و ثقافتی اقدار سے شناسائی کی صورت نکلتی ہے۔ بچے اپنے جذبات ، احساسات اور داخلی نفسی کیفیات کے اظہار کے لیے نئے الفاظ تلاش کرتے ہیں جن کا ان کی ذہنی اور جذباتی زندگی سے بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ کہانیوں کے کردار سے بھی ان کے ذہن کو تحریک ملتی ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بچّوں کے ذہن میں وہ کہانیاں گونجتی رہتی ہیں جن میں اخلاقی اقدار اور تصورات کا عکس ہوتا ہے۔
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ بچوں کو وہ کہانیاں زیادہ پسند آتی ہیں جن میں جوش، جذبہ، مہم جوئی اور اسراریت ہو۔ اِن کہانیوں سے بچوں کی ذہنی تشکیل ہوتی ہے اور اخلاقی تصورات کی ترسیل میں ان کہانیوں کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ کہانی کا بنیادی مقصد صرف شخصیت یا کردار سازی نہیں بلکہ بچوں کو مستقبل کے منشور اور لائحۂ عمل سے آگاہ کرنا بھی ہے۔ اسی لیے بچوں کی کہانیوں میں ایسے مثالی کردار ضروری سمجھے جاتے ہیں جن سے حقیقی، ثقافتی اقدار اور معاشرتی حقائق سامنے آسکیں۔ اخلاقی اقدار پر مبنی کہانیاں بچوں کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً وہ کہانیاں جن میں ہمدردی،محنت، وفاداری، خاکساری، تواضع، دیانت داری، احترام، سخاوت، سچائی، انصاف ، آزادی، ذمہ داری وغیرہ وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہو۔ بدسلوکی ، جھوٹ اور برائی سے پرہیز کا سبق دیا جاتا ہو۔
دنیا کے تمام ادبیات اطفال کا ایک ہی مقصد ،مشن اور منشور ہے۔ عالمی ادبیات میں بھی زیادہ تر حکایات تربیہ و تعلیمیہ کا رواج ہے۔ عربی زبان کا ادب اطفال ہو یا فارسی زبان کا ادبیات کودک سبھی کا مقصد بچوں کی تعلیم و تربیت اور ذہنی نشوو نما اور شخصی وکرداری ارتقا ہے۔ اردو ادب میں بھی اسی مقصد کے پیش نظر کہانیاں لکھی جاتی رہی ہیں مگر اب جب کہ زمانے کی تقاضے اورترجیحات بدل چکے ہیں تو کہانی کے طریقۂ کار میں بھی تھوڑی سی تبدیلی آئی ہے اور یہ تبدیلی یقینی طور پر ادب اطفال کو نیا رنگ و روپ دینے میں کامیاب ہے۔ اب ایسی کہانیاں زیادہ اہم سمجھی جاتی ہیں جو مختلف تہذیبی روایات، ثقافتی رویے اور دیگر رسومات و روایات کے ساتھ ساتھ تاریخ و تہذیب اور دیگر اہم سائنسی ،سماجی اور بشریاتی معلومات کا ذریعہ ہوں۔
عارفہ خالد شیخ اردو کی معروف ادیبہ ہیں۔ عصر حاضر میں بچوں کی کہانیوں کے مطالبات اور مقتضیات سے اچھی طرح آگاہ ہیں اسی لیے ان کی ساری کہانیاں عصر حاضر سے ہم آہنگ نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اپنی کہانیوں میں انہی کرداروں کا انتخاب کیا ہے جو آج کے بچوں کے ذہن سے ہم آہنگ ہوں اور جن کے مثالی اوصاف سے بچے متاثر ہوں۔ انہوں نے معاشرے کے ان زندہ جاوید کرداروں کو اپنی کہانیوں میں جگہ دی ہے جن کے عمل اور کردار سے بچّے سبق سیکھ سکیں اور اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر بنا سکیں۔ دراصل بچوں کی کہانیوں میں کردار خاصا اہم ہوتا ہے کہ یہی کردار نہ صرف بچوں کے حافظہ کا حصہ بنتے ہیں بلکہ زندگی کے بہت سے مراحل میں انہی کرداروں سے انہیں تحریک اور ترغیب ملتی ہے۔
عارفہ خالد شیخ کی کتاب ’’نیکی کے فرشتے‘‘ میں خوب صورت اور مؤثر کرداروں کی ایک کہکشاں ہے اور یہی سارے کردار اس کتاب کی افادیت و مقصدیت کا دائرہ وسیع کرتے ہیں۔ ’نیکی کے فرشتے‘ میں ضدی شہزادی، بونوں کی سوغات، صبر کا پھل، عرشی کی فرمائش، کالا گلاب، شیر خرما، دوستی، چورن والے چاچا، پنکی کا جھولا، گلاب جامن، میلے کی سیر، رِنگ والا، عقل مند راجا جیسی کہانیاں شامل ہیں۔ یہ تمام کہانیاں دراصل بچّوں کی نفسیات اور ان کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر تحریر کی گئی ہیں۔ اس لیے مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ ان کہانیوں سے بچوں کا ذہنی اور جذباتی رشتہ آسانی سے قائم ہو سکتا ہے اور ان میں بچوں کو کسی قسم کی بوریت یا اکتاہٹ کا احساس بھی نہیں ہوگا۔ اس کی ایک وجہ تو کہانی کے دل چسپ اور تجسس آمیز موضوعات ہیں اور دوسری وجہ عارفہ خالد شیخ کا پرکشش انداز بیاں۔ انھوں نے کوشش کی ہے کہ کہانی کو کچھ اس سلیقہ سے پیش کی جائے کہ بچے اس میں دلچسپی محسوس کریں۔ انھوں نے جو زبان استعمال کی ہے وہ بھی نہایت سادہ اور سلیس ہے۔ الفاظ اور جملے بہت قرینے اور سلیقے سے سجائے گئے ہیں۔
پہلی کہانی ’ضدی شہزادی‘ میں نیلم ایک ضدی کردار ہے جو شہزادی ہے ۔ وہ ناممکن کو ممکن بنانے کی ضد کرتی ہے۔ بوندوں کا محل تیار کرنے کی ضد پر اڑی ہوئی ہے۔ بادشاہ ساری ترکیبیں آزماتا ہے مگر ناکام رہتا ہے۔ آخر میں اس کہانی میں ایک اہم کردار شہزادہ دانیال داخل ہوتا ہے۔ وہ نیلم کی ضد کوتوڑنے  کی ایک خوبصورت ترکیب نکالتا ہے۔ کہتا ہے :
’’شہزادی صاحبہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر بس آپ ان موتیوں کو سمیٹنے اور اکٹھا کرنے میں ہماری مدد فرمائیں آپ کا محل جلد از جل تیّار ہو جائے گا۔‘‘
 اور پھر اچانک منظر بدل جاتا ہے۔ ضدی شہزادی کو یہ پتا چل جاتا ہے کہ جسے وہ موتی سمجھ رہی تھی وہ محض پانی کی بوندیں ہیں۔
اس کہانی میں ضد جیسی نفسیاتی کیفیت کی عمدہ عکاسی ہے۔ ضد وہ شے ہے جس کے سامنے مضبوط سے مضبوط باپ بھی ہار جاتا ہے۔ اس تعلق سے راجیش ریڈی کا ایک بہت اچھا شعر ہے:
دل بھی اک ضد پہ اڑا ہے کسی بچے کی طرح
یا تو سب کچھ ہی اسے چاہیے یا کچھ بھی نہیں
اور اسی طرح کا ایک اور شعر صدیق مجیبی کا ہے:
اپنا سر کاٹ کے نیزہ پر اٹھائے رکھا
صرف یہ ضد کہ مرا سر ہے تو اونچا ہوگا
ضدسے جڑی ہوئی کیفیات اور نفسیات کا اس کہانی میں بہت خوبصورتی سے احاطہ کیا گیا ہے۔
’بونوں کی سوغات‘ کا کردار ڈبو ہے جو نہایت کاہل، آلسی اور جاہل ہے۔ اس کی زندگی کی راہ میں سستی اور کاہلی بہت بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے مگر جب وہ کوشش کرتا ہے تو اس کی تقدیر بدل جاتی ہے۔ اس کہانی میں کوشش کی اہمیت کو بہت سلیقے سے واضح کیا گیا ہے۔
’صبر کا پھل‘ بھی ایک اچھی کہانی ہے جس میں صابو، دیبو اور شامو تین کردار ہیں۔ یہ تینوں کسان کے بیٹے ہیں جس میں شامو کو دونوں بڑے بھائی ستاتے ہیں مگر شامو صبر اور شکر سے کام لیتا ہے۔اپنے دونوں بھائیوں کی سازشوں اور زیادتیوں کا شکار ہونے کے باوجود شامو کامیاب ہوتا ہے۔ دیکھیے اس کہانی میں کتنی خوبصورتی کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ
’’ایک انسان دوسرے انسان کے ہاتھوں کا مال چھین سکتا ہے مگر نصیب کا نہیں۔‘‘
’عرشی کی فرمائش ‘خوبصورت گھریلو کہانی ہے جس میں عرشی اپنے نانا جان سے کہانیاں سننے کے لیے بے چین رہتی ہے۔ نانا ہر طرح کی کہانیاں سناتے ہیں مگر ایک بار صورت حال یہ ہوتی ہے کہ نانا گھر کا راستہ بھول جاتے ہیں۔ عرشی کو احساس ہوتا ہے کہ دن میں کہانی سنانے کی ضد کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ دراصل عرشی ایک ایسا کردار ہے جو کہانی سننے کے لیے ہمیشہ بے چین اور بیتاب رہتی ہے اور یہ بچّوں کی عمومی کیفیت ہے کہ انھیں رات کے وقت کوئی نہ کوئی کہانی ضرور چاہیے ۔ مقصود بستوی کا ایک عمدہ شعر ہے جو اسی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔
ایک ہاتھی ایک راجہ ایک رانی کے بغیر
نیند بچّوں کو نہیں آتی کہانی کے بغیر
یہ بھی ایک سبق آموز کہانی ہے جو محبت اور پیار کی خوشبوؤں سے گوندھی گئی ہے۔
’کالا گلاب‘ بچّوں کے لیے ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اس کا کردار شہزادہ
عثمان ہے جو اپنے باپ کی بینائی کو واپس لانے کے لیے کالا گلاب کی تلاش میں نکلتا ہے۔ جہاں اسے ایک جادوئی درخت ملتا ہے اور وہ کالا گلاب حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ کہانی بتاتی ہے کہ اگر بیٹا سعادت مند ہو تو اپنے باپ کی خوشی کے لیے ہر طرح کی اذیتیں اور صعوبتیں اٹھانے کے لیے تیار رہتا ہے۔
’شیر خرما‘ ایک ایسی کہانی ہے جس کے دو کردار ہیں۔ حبا اور نمو۔ نمّو ایک غریب نصیبن بوا کی بیٹی ہے اور حبا ایک ایسی لڑکی جو اپنے منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر پیدا ہوئی۔ نمو سے حبا کے گھر والے بہت پیار کرتے ہیں اور یہی پیار حبا کو ناگوار گزرتا ہے۔ امیری کے مزاج میں ڈھلی ہوئی حبا نمو سے شدید نفرت کرتی ہے۔ وہ نہیں چاہتی ہے کہ کسی غریب کی بیٹی کو اس کے گھر والوں کی محبت اور پیار ملے۔ مگر کہانی میں ایک ایسا موڑ آتا ہے جو حبا کی نفرت کو محبت میں بدل دیتا ہے۔ دیکھیے وہ ترکیب یہ ہے کہ حبا کے گھر والے اس کے ذہن سے امیری کی انا، عُجب و تکبر کو نکالنے کے لئے اُسے یہ سمجھاتے ہیں کہ
’’اللہ کے حضور کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا۔ اچھے اخلاق، نیک اعمال والوں کو جنت ملتی ہے۔ ‘‘
’دوستی‘ چڑیا اور کوّا کی کہانی ہے،جس میں بتایا گیا ہے کہ بدگمانی اچھی چیز نہیں ہے۔ چڑیا نے کوّا کو خود غرض سمجھا مگر جب حقیقت سامنے آئی تو پتا چلا کہ کوّا نے خلوص نیت کے ساتھ وہ کام کیا تھا جسے چڑیا نے خود غرضی سمجھا۔
’چورن والے چاچا‘ بھی ایک اچھی کہانی ہے جس کا کردار ربّانی میاں ہیں۔ ہمدرد و غمگسار اور ایماندار جنھوں نے دوسروں کی مدد کو اپنا مشن بنا رکھا ہے۔ جن کی بڑی اچھی سوچ یہ ہے کہ
’’خدا مسبب الاسباب ہے۔ پتھر میں موجود کیڑوں کو بھی رزق پہنچاتا ہے۔ ‘‘
’پنکی کا جھولا‘، ’گلاب جامن‘ ، ’میلے کی سیر‘، ’عقل مند راجا‘ یہ ساری کہانیاں سبق آموز اور عبرت خیز ہیں۔ ان تمام کہانیوں کے ذریعہ عارفہ خالد شیخ نے بچّوں کے ذہن میں صحت مند تصوّرات اور خیالات کی ترسیل کی عمدہ کوشش کی ہے اور یہی کہانیوں کا مقصد بھی ہوتا ہے۔
’نیکی کے فرشتے‘ خوبصورت عمدہ دلچسپ کہانیوں کا اسمبلاژہے۔ اس میں بچوں سے جڑی ہوئی کہانیوں کے وہ سارے رنگ ہیں جو بچوں کو بہت بھلے لگتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ عارفہ خالد شیخ کی ان کہانیوں سے بچوں کے تخیّل اور تجسّس کو تحریک ملے گی اور ذخیرۂ لفظیات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ تاریخی، تہذیبی، ثقافتی، سماجی شعور کے ارتقامیں یہ کہانیاں معاون ثابت ہوں گی۔

You may also like