(افسانہ)
فوزیہ مغل
فاریہ کی پیدائش کیا ہوئی فردوس کی آزمائش شروع ہوگی ۔
فردوس فاریہ کی بڑی بہن تھی فاریہ کی پیدائش کی ذمے داری تو ماں نے ادا کی باقی کی تمام ذمے داریں فردوس کو نبھانا پڑی ۲۵ دسمبر کی رات کے بعد آنے والی صبح خالی نہیں تھی ننھی فاریہ کی کھولی آنکھیں اور بلند آواز تھی ۔
دو راتیں تو ایسے ہی گزر گئی نہ فاریہ سوئی نہ فردوس تیسرے دن ماں کے کہنے پر فردوس منہ بسوڑتی تجسس سے بھری آنکھوں والی گڑیاں کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گئی مگر ڈاکٹر نے دو دن کی بچی کو میڈیسن دینے سے منع کیااور ایک ہربل گرائپ واٹر کی بوتل دیتے ہوئے کہا اس میں سے چند قطرے نیم گرم کر کے رات کو پلا دیا کریں۔
وقت گزرتا گیاہر وقت کھولی آنکھوں سے دُنیا دیکھنے کی فاریہ کی عادت بن گی جب کبھی چند لمحوں کی اُونگ لیتی تو ماں فردوس کو بھی فورا سونے کا کہتی ۔
فردوس فاریہ سے بہت محبت کرتی فاریہ تھی بھی تو فردوس سے اٹھارہ سال چھوٹی تین بھائیوں کی پیدائش نے شاید فروس کو اتنی خوشی نہیں دی جتنی ننھی فاریہ کی ہر دم چمکتی آنکھوں کو دیکھ کر ہوتی ۔
فاریہ تین سال کی ہوگی کہ ایک دن گلی میں نجومی بابا کی آوازآئی فردوس جھٹ سے اپنے پرس سے پیسے نکالے اورفاریہ کی انگلی پکڑ کر دروازے کی جانب لپکی بابا جی میری چھوٹی بہن قسمت بھی بتائیں اسے کوئی
دکھ تو نہیں ملے گا زندگی سے نجومی بابا نے ایک نظر فاریہ کی آنکھوں کی جانب دیکھا پھر بے اختیار اس کی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھی گئی فردوس بابا جی میری بہن خوش رہے گی نہ ساری عمر نجومی بابا نظریں جھکا کے بولا اس کے دم سے بہت سی خوشیاں ملے گی سب کو فردوس باباجی اس کو بھی خوشیاں ملے گی نہ مگر اتنی دیر تک نجومی بابا بغیر کوئی نذرانہ لئے بہت دور نکل گیا۔
مگر فردوس کے دل میں ایک انجانہ سا ڈر بیٹھ گیا وہ ہر پل ننھی فاریہ کو آنکھ سے دُور نہ ہونے دیتی بھائیوں کے پاس بھی ہوتی تو فردوس کی نظر فاریہ پر جمی رہتی۔
گھر والے فردوس کی اس عادت سے تنگ آجاتے بھائی دُعائیں مانگتے جلد باجی فردوس کی شادی ہو جائے اور فردوس دُعائیں میں اپنے لئے کچھ نہیں مانگتی ساری دُعائیں فاریہ کے لئے ہوتی ۔
سب کی اُمیدیں بھر آئی جب حسین کی امی نے شادی کی تاریخ پکی کرنے آئی سارے گھر والے خوشی خوشی شادی کی تیاریوں میں لگ گے مگر فردوس اُداسی کے ساتھ حالانکہ فردوس اورحسین بچپن سے ہی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔
فردوس کی شادی ہو گئی نہ فاریہ کچھ کھائے پئے نہ فردوس حسین ہر طرح سے فردوس کا خیال رکھتا مگر فردوس کی نگاہوں میں ہر وقت فاریہ کی صورت گھومتی رہتی ادھر فاریہ کابھائیوں نے اتنا خیال رکھا کہ وہ بہت جلد بہل گئی اور روٹین کی زندگی جینے لگی مگر فردوس کی اُداسی کسی صورت کم نہ ہوتی ویسے وہ ہر طرح سے حسین کا خیال رکھتی گھر کی تمام ذمے داریوں کو پورا کرتی مگر اندر ہی اندر گھلتی رہتی اسی طرح شادی کو کئی سال ہو گئے اس کے دل کی طرح اسکی گود بھی خالی رہی رشتے دار عورتیں خوشخبری کا پوچھ پوچھ کے خاموش ہوگئی جب کبھی فردوس اس کمی کا ذکر حسین سے کرتی تو حسین اس کوڈھارس دیتا اور مسکرا کے کہتا ابھی تو ہم خود بچے ہیں جب اللہ پاک کو منظور ہوگا تو خود ہی عطا فرمائے گا۔
فاریہ بھائیوں کی آنکھ کا تارا تھی اورماں کی جان ہی فاریہ میں تھی مگر فاریہ نیند سے کسی طرح بھی دوستی نہ ہو سکی رات کو چاند ستاروں سے باتیں کرتی اور دن بھر چاند ستاروں کا انتظار کرتی ماں لاکھ دم درود پڑھ پڑھ کہ پھونکتی مگر کوئی اثر نہ ہوتانیند کا نہ آنا تھا نہ آئی اسی طرح سترہ سال بیت گئے ایک صبح فاریہ سکول کے لئے ماں کی آوازوں پر بھی نہ اٹھی تو ماں نے پیار سے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو معلوم ہوا کہ اسے تو بخار ہے ماں نے قرانی آیات کا دم کیا ۔
جب ڈاکٹر کے پاس گئی تو ڈاکٹر نے موسمی بخاربتایا اور کہا دو تین دن میں ٹھیک ہو جائے گی ماں تو بہت فکر مند ہو رہی تھی ماں نے ڈاکٹر کوبتایا کہ یہ سوتی بہت کم ہے اسے نیند نہیں آتی ڈاکٹر بی بی پریشانی کی بات نہیں اس عمر میں کھولی آنکھوں کے خواب ذیادہ ہوتے ہیں اس لئے نیند کم آتی ہے ۔
پھروہ دن بھی آگیاجب فاریہ دُعاؤں کر جھرمٹ میں باپ بھائیوں کے گھر سے شوہر کے مکان میں مقیم ہو گئی نہ کوئی سہیلی نہ کوئی جھملہ شوہر سو جاتا وہ جاگتی آنکھوں سے رات بسر کرتی کچھ عرصے بعد اسے اپنے پُرانے دوست چاند کی یاد آئی کھڑکی کھولی تو سامنے بیسوئی کا اُداس چاند منتظر تھا اس لمحے اسے یوں لگا جیسے دیار غیر میں کوئی بہت ہی عزیز بچھڑا مل گیا ہو اس شب فاریہ نے بہت دنوں کے بعد کچھ لکھنے کی کوشش کی ۔
چھوڑ کے گڑیاں
چاند سے دوستی کرنا
بڑی مہنگی پڑی
پڑا دوستی کا ایساعکس
وہ آسمان پر تنہا چمکتا رہا
میں زمین پر تنہائی ڈھوتی رہی
وہ ستاروں کے جھرمٹ میں
تنہاسلگتا رہا۔
میں رشتوں کے ہجوم میں
تنہا بھٹکتی رہی۔۔۔
پھر فاریہ کی روٹین بن گئی چاند سے ڈھیروں باتیں کرنا چاند بھی اس کی ہر ادا سمجھتا جب وہ خوشی ہوتی تو چاند بھی خوب چمکتا جب وہ اُداس ہوتی تو چاند بھی اُداسی کی ذردی بانٹتا۔
فاریہ کی اپنی گود میں بھی چاند ستاروں سے آباد ہو گئی تھی کسی کے منہ میں فیڈر دیتی تو کسی کا پیمپر بدلتی مگر اپنے دوست چاند سے دوستی نہ چھوڑی ماں بھی ساتھ چھوڑ گئی ماں جیسی بہن بھی ساتھ چھوڑ گئی۔
اب کبھی کبھی الجھ جاتی ہمیشہ کی کھولی آنکھوں سے تنگ آجاتی ایک ڈاکٹر کے پاس گئی ڈاکٹر کواپنی پرابلم بتائی کہ مجھے نیند نہیں آتی ڈاکٹر سلیپ پر عمر دیکھتے ہوئے بولا بی بی تیس سال کی عمر میں انسان کی نیند کم ہو جاتی ہے کیونکہ اس عمر میں انسان کی سوچیں بڑھ جاتی ہیں۔
وقت گزرتا رہاپھر اچانک زندگی نے کروٹ بدلی اور سب کچھ بدل گیاکھولی آنکھوں میں خواب بسنے لگے وہ یہ بھول گئی کہ کھولی آنکھوں کے خواب جب ٹوٹتے ہیں تو باقی کچھ بھی نہیں بچتا نہ دل نہ آنکھیں نہ خواب وہ ٹوٹتے خوابوں کی کرچیوں پر پاؤں رکھ کر اپنی ذا ت کو تنہائی کی چادرمیں سمٹ کر نہ جانے کیا سوچ کر ہجرت کا ثواب کمانے چل پڑی ۔
نیند نہ آنے کی وجہ سے رات کے پچھلے پہر شدید تکلیف اسے بے حال کر دیتی سر کی جانب سے درد کی لہر آتی جو گردن کو توڑ کر جسم کی ہر رگ میں پھیل جاتی آنکھوں کی پتلیاں درد سہتے سہتے تھک چکی تو ایک دن
یورپ کے سپشلیسٹ ڈاکٹر کے پاس گئی اور کہا مجھے نیند نہیں آتی ڈاکٹر نے بڑی توجہ سے بات سُنی سلیپ دیکھی اور کچھ میڈیسن اور ایکسر سائز تجویز کرتے ہوئے بولا میڈم یہ و ٹا منز اور ایکسر سائز سے بہتری محسوس کریں گی پریشانی کی کوئی بات نہیں اس عمر میں ہڈیوں کی تکلیف زیادہ اور نیند کم ہو جاتی ہے۔۔۔!