لکھنؤ :قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام گومتی ریور فرنٹ پارک لکھنؤ کے گومتی بک فیسٹیول /گومتی بک مہوتسو میں مذاکرہ اور مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ مذاکرہ میں محسن خان، پروفیسر صابرہ حبیب اور ڈاکٹر صبیحہ انور نے شرکت کی جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر عشرت ناہید نے انجام دیے۔ اس موقع پر محسن خان نے کہا کہ کہانی میں اسلوب و فکر بہت اہمیت کے حامل ہیں، انہوں نے کہا کہ میں نے ایک ایسے دور میں لکھنا شروع کیا جب ادب اور زبان کا تابناک دور تھا اور بڑوں سے لکھنے کی تحریک ملتی تھی، میری کہانی کے محرک کرشن چندر، منٹو اور غلام عباس تھے، انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگوں کو انسپائر نہ کرے ایسی تخلیق کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ڈاکٹر صبیحہ انور نے کہا کہ فکشن دوسرے اصناف کے مقابلہ میں زندگی سے زیادہ قریب ہے، میں نے اپنے قلم اور ذہن سے زندگی کی مختلف پرتوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ عورت کے ذہن اور قلم سے لکھنا اور توازن قائم رکھنا بہت مشکل امر ہے۔ پروفیسر صابرہ حبیب نے کہا کہ ہر زبان کی اپنی خوبصورتی ہوتی ہے، اردو زبان میں بہت خوبصورتی ہے اور اس کو محبت کا دوسرا نام دیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عشرت ناہید نے مذاکرہ میں شامل قلم کاروں سے ان کے ادبی سفر اورتخلیقی تجربات کے بارے میں بہت پرمغز گفتگو کی۔ مذاکرہ کے بعد مشاعرہ کا انعقاد ہوا جس میں صدارتی خطاب میں ڈاکٹر عمار رضوی نے کہا کہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں قومی اردو کونسل قابل ستائش کام کر رہا ہے اور اردو کونسل نے آئین ہند کے حوالے سے جو کتابیں شائع کی ہیں وہ ہمارے ملک کے عوام اور معاشرے کے لیے بہت مفید ہیں۔اس موقعے پر قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے تمام شعرا کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس مشاعرے میں لکھنو کے بڑے اہم شعرا شامل ہیں یہ ہمارے کلچرل ڈسکورس کا اہم حصہ ہے۔ قومی کونسل مختلف علاقوں میں ثقافتی تقریبات کے ذریعے اردو زبان کی ترقی کے لیے نہ صرف یہ کہ کوشش کر رہی ہے بلکہ معاشرے سے ایک صحت مند اور مثبت مکالمہ کی راہ بھی ہموار کر رہی ہے۔ مشاعرہ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے ڈاکٹر عمار رضوی نے شرکت کی، جبکہ چرن سنگھ بشر، منیش شکلا، حسن کاظمی، زبیر انصاری، شاہد کمال، پپلو لکھنوی اور اسد نصیر آبادی بحیثیت شاعر شریک ہوئے، مشاعرہ میں نظامت کے فرائض ڈاکٹر طارق قمر نےبحسن و خوبی انجام دیے ۔