Home مقبول ترین قومی اردو کونسل کے زیراہتمام عالمی کتاب میلے میں’میری پسندیدہ کتاب ‘ اور ‘پارلیمانی بحثوں اور عدالتی فیصلوں میں اردو کا رنگ و آہنگ’ کے عنوان سے پروگرام منعقد

قومی اردو کونسل کے زیراہتمام عالمی کتاب میلے میں’میری پسندیدہ کتاب ‘ اور ‘پارلیمانی بحثوں اور عدالتی فیصلوں میں اردو کا رنگ و آہنگ’ کے عنوان سے پروگرام منعقد

by قندیل

نئی دہلی: قومی اردو کونسل کے زیراہتمام عالمی کتاب میلے میں آج دو پروگراموں کا انعقاد ہوا۔ پہلا پروگرام کونسل کے اسٹال پر میری پسندیدہ کتاب کے عنوان سے ہوا جس میں ڈاکٹر جاوید حسن اور ذبیح اللہ نے شرکت کی اور انھوں نے اپنی پسندیدہ کتابوں کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ اس پروگرام کی صدارت پروفیسر متھن کمار شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارتی خطاب میں نئی نسل کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ قومی اردو کونسل کا یہ اقدام خوش آئند ہے، یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ سنجیدہ کتابیں سماج کو روشنی دیتی ہیں اور ان کے مطالعے سے انفرادی و اجتماعی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ اس پروگرام کی نظامت نصرت جہاں نے کی ۔

بعدازاں کونسل کے زیراہتمام تھیم پویلین میں ‘ پارلیمانی بحثوں اور عدالتی فیصلوں میں اردو کا رنگ و آہنگ’ کے عنوان سے مذاکرے کا اہتمام کیا گیا ۔اس میں اعجاز مقبول سینیر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، پروفیسر خواجہ محمد شاہد سابق پرو وائس چانسلر مانو اور پروفیسر نزہت پروین خان، سابق ڈین فیکلٹی آف لا جامعہ ملیہ اسلامیہ نے شرکت کی ۔ اس پروگرام کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے انجام دیے۔

اس موقعے پر استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ میں این بی ٹی اور این سی پی یو ایل کی طرف سے تمام مہمانوں کا استقبال کرتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ آج عمدہ گفتگو ہوگی ۔ انھوں نے کہا کہ اپنی بات کو پر اثر بنانے کے لیے پارلیمانی بحثوں اور عدالتی فیصلوں میں اردو شاعری اور اردو محاوروں کا شروع سے ہی استعمال ہوتا رہا ہے ، اب بھی ہوتا ہے اور آیندہ بھی ہوتا رہے گا۔

اس موقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر نزہت پروین خان نے کہا کہ زبان تہذیب و ثقافت کی ترجمانی کرتی ہیں، پارلیمنٹ میں مجاہدین آزادی، وزرا اور سینیر ممبران نے ہمیشہ اپنی بات کو موثر بنانے کے لیے اشعار استعمال کیے ہیں۔ انہوں نے مختلف مواقع پر پارلیمنٹ اور عدالت میں پیش کیے گئے متعدد اشعار بھی کوٹ کیے۔ انھوں نے کہا کہ یہ اردو شاعری کی خوبصورتی ہے کہ اسے اپنی بات آسانی سے اور موثر انداز میں پیش کرنے کے لیے ہر طبقے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عدالتی فیصلوں میں بھی اردو کا بہت استعمال ہوتا ہے، ایف آئی آر میں بھی اردو کے بہت سے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ سینیر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اعجاز مقبول نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو شاعری ہمیشہ سے وطن دوستی اور محبت کو فروغ دیتی آئی ہے، انھوں نے بھی متعدد عدالتی فیصلوں میں مستعمل معنی خیز اردو اشعار کے حوالے دیے‌۔ پروفیسر خواجہ محمد شاہد نے کہا کہ اردو شعروں میں معنوی وسعت ہوتی ہے، اپنی بات شعری پیرایے میں خوبصورتی سے کہی جا سکتی ہے،یہ اس زبان کی خوبی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کچھ بحثوں کو سنیں تو بے شمار اشعار کا استعمال ملتا ہے اور ہر سال کتنے اشعار استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعض لوگ ان کی نمبر شماری بھی کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اردو کی خوبی یہ ہے کہ چند مصرعوں میں پوری بات کہی جا سکتی ہے ، اسی وجہ سے ہمارے سیاسی لیڈران اکثر و بیشتر اردو اشعار کے ذریعے اپنی بات کو مدلل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب پارلیمنٹ یا عدالت میں بحث ہوتی ہے تو ایک شعر پورے منظر کی ترجمانی کر دیتا ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی وغیرہ کے ذریعے پارلیمانی بحثوں میں استعمال کیے گئے متعدد اشعار بھی پیش کیے۔ آخر میں این بی ٹی کے ایڈیٹوریل اسسٹنٹ لیاقت علی نے رسمِ شکریہ ادا کی۔

 

You may also like