Home نظم نظم ـ سفینہ عرفات فاطمہ

نظم ـ سفینہ عرفات فاطمہ

by قندیل

 

تیزگام وقت کی دسترس سے
کوئی لمحہ پھسل جائے
اور انگلیوں کی پوروں پرٹھہرجائے
بے یقینی کے خاردار جنگل میں
ایقان کا کوئی گلاب کھِلے
منافقت کی دنیا سے پرے
بے ریا کوئی جزیرہ ہو
خلوص کا کوئی گاؤں، انس کا کوئی گوشہ
کشمکش کے صحرامیں تسکین کا کوئی چشمہ
کڑی دھوپ کے سفر میں کوئی گھناسایہ
سکون کا کوئی وقفہ
مزاج آشنا کوئی ساعت
دل نواز کوئی پل
روح شناس کوئی گھڑی
خالص کوئی جذبہ
بے لوث کوئی تعلق
بے نام کوئی احساس
سچاکوئی خواب
گونگی، حیران آنکھوں کی وسعتوں میں
پڑاؤڈالے، مدام ٹھہرے!

You may also like

Leave a Comment