(ایوارڈ یافتہ ہندوستانی ناول نگار رحمن عباس نے 2019 میں "ہولوکاسٹ اور ہندوستان و پاکستان میں اقلیتوں کے مستقبل” کے موضوع پر تحقیق کی غرض سے یورپ میں کچھ عرصہ گزاراتھا۔ دراصل اس موضوع پر وہ ایک ناول لکھ رہے ہیں ، جس کے لیے مواد کی فراہمی اور متعلقہ مقامات و سانحات کے تاریخی پس منظر سے راست واقفیت کے لیے انھوں نے یہ سفر کیا تھا۔ یورپ میں نازیوں کے خلاف (8 مئی کو) یومِ فتح کے موقعے پر انھوں نے جرمن بیسڈ سہ لسانی ویب سائٹ قنطرہ (qantara.de) کے صحافی ڈومینک مولر کے ساتھ اپنے ناول کے پروجیکٹ اور ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کے تشویشناک احیا پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔ یہ پوری گفتگو مذکورہ ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہے، ‘‘قنطرہ’’ کے شکریے کے ساتھ اردو قارئین کے لیے اس کا اردو ترجمہ پیش ہے۔ )
سوال:آپ ہندوستان کی سیکولر مسلم اقلیت کے رکن ہیں۔ جہاں ان دنوں مسلمانوں کے خلاف "کورونا جہاد” جیسا لفظ دھڑلے سے استعمال کیا جارہا ہے۔ آپ کے نزدیک ہندوستان کی موجودہ صورتحال کس حد تک خطرناک ہے؟
رحمن عباس: صورتحال انتہائی خطرناک ہے ؛کیونکہ یہ دائیں بازو کی نسل پرست طاقتوں کے مفاد میں ہے۔ ہندو قوم پرست اقلیتوں کی توہین کرتے ہیں اور انھیں تمام بیماریوں کی وجہ بتاتے ہیں ۔ ماضی قریب ہی میں عالمی برادری نے دیکھا ہے کہ ہندو قوم پرستوں نے کس طرح مسلم اقلیت کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے "لو جہاد” جیسی اصطلاح استعمال کی ۔ سیاسی طور پر پھیلائی گئی اس نفرت کی بنا پر ما وراے عدالت سرِراہ لوگوں کی جانیں لے لی گئیں اور اسے ایک منظم منفی پروپیگنڈے کے ذریعے معمول بنا لیا گیا ۔
ہم "کورونا جہاد” کوبھی اسی مہم کی توسیع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں ،جس کو سوشل میڈیا ، مین سٹریم میڈیا اور حکمراں جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاستداں چلا رہے ہیں۔ اس کے نتائج تمام ہندوستانی معاشرے میں نظرآرہے ہیں؛چنانچہ ہندو، مسلم سبزی فروشوں سے سبزیاں اور سامان خریدنے سے انکار کررہے ہیں ، کئی ہندو ڈاکٹروں نے مسلمان مریضوں کے علاج سے انکار کردیا،اسی طرح کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں ۔
سوال:یورپ میں آپ کی تحقیق کا ہدف کیا ہے؟
رحمن عباس: مجھے اپنے اگلے ناول کے لئے ریسرچ گرانٹ ملی ہے۔ بنیادی طورپر اسی کے لیے میں نے یورپ کے مختلف مقامات کا دورہ کیا ؛تاکہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ یورپ میں نازی فکرکو کیسے فروغ حاصل ہوا؟ اس نے جرمن معاشرے کو کس طرح متاثر کیا؟ اور یہ آئیڈیالوجی کس طرح یہودیوں ، کمیونسٹوں ، سیاسی مخالفین ،سنتی، روما ، معذور اور دیگر جماعتوں کی بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری اور نسل کشی کا سبب بنی؟
ہندوستان میں مسلمان ، دلت ، عیسائی اور قبائلی باشندے دائیں بازو کے انتہا پسندوں یا بالادست ہندو طاقتوں کے ہاتھوں امتیازی سلوک ، الگ تھلگ کیے جانے اور ظلم و ستم کے شکار ہیں ، اسی طرح پاکستان میں شیعہ اور ہندو اقلیتوں کو مسلم شدت پسندوں سے خطرہ ہے۔
جرمنی اور یورپ میں ہولوکاسٹ کے پس منظر کے طور پر جو کچھ ہورہا تھا اس کی مذمت کرنے میں سماجی وسیاسی حلقے اور نظریات کی ناکامی کا مَیں مطالعہ وتعین کرنا چاہتا تھا۔ میں برصغیر ہند کے عوام کو فاشزم کے رجحانات و خصائل سے آگاہ کرنے کے لیے جرمنی کے نازی عہد سے حاصل شدہ اہم اسباق سے متعارف کرواناچاہتا تھا۔
درحقیقت گزشتہ دو دہائیوں کے بارے میں میرا تجزیہ ، جس دوران برصغیر پاک و ہند میں بنیاد پرستی میں اضافہ ہوا ہے ، اسی طرح ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی متعدد مذہبی و سیاسی تنظیموں کے سلسلے میں میری تحقیقات بھی ممکنہ نسل کشی کے خطرے کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ ان ملکوں کی موجودہ صورتِ حال جرمنی میں نازیوں کے عروج کے زمانے سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔
سوال:پچھلی صدی کے آغاز میں نازیوں کے دورِ حکومت میں جرمنی کی صورتحال سے ہندوستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال کس قدر مماثلت رکھتی ہے؟
رحمن عباس: نازی ازم ایک نسل پرست اور بالادستی کے حصول کانظریہ تھا۔ اس کے ماننے والوں نے قوم پرستی کو اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کرنے اور اقتدار تک پہنچنے کے لیے آلے کے طور پر استعمال کیا ۔اسی طرح قوم پرست سوشلسٹوں نے آریاؤں کی برتری کے نظریے کو عام کیا اور اس خیال کو بھی کہ وہی حکمرانی کے لائق ہیں۔
جس طرح نازیوں نے یہودیوں اور بہت سے دوسرے لوگوں کو بدنام کرنے کے لئے تمام دستیاب ذرائع کو استعمال کیا ،البتہ خاص طور پر یہودیوں کو جرمن مفادات کے تئیں غدار بتایا گیا اور ایڈولف ہٹلر نے پہلے 1933 میں یہودیوں کی تجارت و صنعت کے قومی بائیکاٹ کا اعلان کیا اور اس کے بعد 1935 میں نورمبرگ قوانین کے ذریعے یہودیوں کی شہریت اور ان کے بنیادی حقوق کوبھی کالعدم کردیا۔ ہندوستان میں بھی ٹھیک اسی طرح کے حالات پنپ رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف ہندو قوم پرستوں کا پروپیگنڈہ جاری ہے ،جس کے نتیجے میں ہندوستانی شہریت کانیا ترمیم شدہ قانون لایا گیا ہے، یہ قانون ہندوستانی پارلیمنٹ سے دسمبر 2019 میں پاس ہو چکا ہے۔ اس قانون کے تحت تین ممالک (پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان) سے تعلق رکھنے والے تمام غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی،جبکہ ان میں سے کسی ملک سے تعلق رکھنے والے مسلمان تارک وطن کو ہندوستان کی شہریت نہیں دی جائے گی ، مزید برآں نئے شہری رجسٹر کی تیاری کے نام پر ہندوستانی شہریوں سے متعدد دستاویزات مانگے جارہے ہیں، جن میں والدین یا دادا دادی کے برتھ سرٹیفکیٹس بھی شامل ہیں،ان کے ذریعے سے ہی ان کی شہریت کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ ایسا صرف مسلمانوں کو اس ملک سے بے دخل کرنے کے ایجنڈے کے تحت کیا جارہا ہے۔
ترجمہ:نایاب حسن