عمران عاکف خان
میاں ولی محمد نظیرؔ اکبر آبادی(1735دہلی۔1830آگرہ)ہماری اردو تہذیب و تاریخ کا وہ عنوان ہے جنھیں ہندوستانی تہذیب و تمدن کا استعارہ کہا جاسکتا ہے۔ان کی ذہنی تشکیل اور تعمیر جن خد و خال پر ہوئی تھی وہ وہی ہیں جو ہندوستان مضبوط و مستحکم دیواروں کی تعمیر و بنیاد میں شامل ہیں ۔یعنی اخوت،محبت،آپسی رواداری،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،ایک دوسرے کے لیے جذبۂ خیر سگالی،دلوں میں وسعت (اسے ہندی میں ’ایک میں انیک‘جیسے معروف جملے سے تصور کیا جاتا ہے) وغیرہ۔چوں کہ ہندوستان دنیا کاتیسرا سب سے بڑی آبادی اور اقوام والا ملک ہے۔نظیر ؔ کے عہدمیں تو اس کی سرحدیں ایشیائے کوچک سے لے کر دریائے نربدا تک اور کابل سے لے کر لنکا شائر تک پھیلی ہوئی تھیں،جس میں بر صغیر کے تقریباً تمام علاقے شامل تھے۔انھوں نے اسی ہندوستان کو دیکھا چنانچہ ان کے ذہن و فکراور ان کی انسانی تعمیر پر اسی ہندوستان کی رنگا رنگی،یہاں کی پھول پتیوں،ندی نالوں،جھرنوں،قدرتی آبشار،گوناگوں اور جداگانہ فطرت کے انسانوں،ان کے خوشی و غم کے مواقع ،تیوہاروں، میلوں، ٹھیلوں،ان کے رہن سہن کے طریقوں،ان کی بولیوں ٹھولیوں اور نظرو نظریات کا گہرا اثر پڑا۔اسی اثر کے احساس کو انھوں نے اپنی شاعری/فن کاری(جس کا زیادہ تر حصہ صنف نظم پر مشتمل ہے)کا موضوع بنایا۔پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انھیں یہاں کے انسانوں سے عجیب طرح کی محبت ہوتی گئی۔جس نے انھیں ایک سچا ہندوستانی بنا دیا چنانچہ وہ بلا تفریق مذہب و ملت،شہرو گاؤں،علاقے و جغرافیے،یہاں کے لوگوں کے متعلق سوچنے لگے اور ان کی فلاح و بہبود ،ان کی رہ نمائی کی خاطراپنے افکارکو بروئے کار لانے لگے۔انھیں ان کا غم ستانے لگا اور ان کی خوشیاں ان کی روح کو ٹھنڈک بخشنے لگیں۔
نظیر ؔ نے مسلمان،ہندو،ذات پات،چھوٹے بڑے،شہری و دیہاتی کی تفریق کیے بغیر صرف انسانیت سے پیار کیا۔انسانیت کے لیے نغمے گائے،انسانیت کے ترانے بلند کیے اور انسانیت کے دکھ و درد میں شریک رہے۔انھوں نے’’آدمی نامہ‘‘ لکھ کر ’’آدمی‘‘ کی مجموعی حرکات و سکنات،اس کے عبادت کے طریقے اور مقامات،وہاں ان کے اعمال و افعال پر گہری نظر رکھی۔اس کے بعد انسان کی سب سے بڑی ضرورت ،روٹی کو عنوان دے کر’’روٹی نامہ‘‘جیسی شہرہ آفاق نظم کے ذریعے انھوں نے اس عالمی مسئلے پر قدغن لگایا جس کے شکار انسان صدیوں سے چلے آرہے ہیں ۔یعنی ’’بھوک‘‘۔پوری دنیا میں کھانا جیسی نعمت پر بڑے افراد اور قوتوں کا قبضہ ہے۔ان ہی کی اجارہ داری ہے ،وہ اس نعمت کوبے تحاشا بربادبھی کرتے ہیں اور انسانیت کو محروم بھی چنانچہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی غریب انسان اس کی تمنا کرتے کرتے اور گہار لگاتے لگاتے مرجاتا ہے یا رات کی دن کی محنت اور کوشش سے صرف اتنا ہی کماپاتا ہے جو اس کی دووقت یا ایک وقت کی ضرورت کے لیے کافی ہو۔ایسے محنت کش انسان چاند کو بھی روٹی سمجھتے ہیں ۔نظیر ان کی ترجمانی کرتے ہیں اور اپنی اس نظم میں ان کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔روٹی کھاکر انسان کی خرمستیوں کا بیان بھی کرتے ہیں اور اس کے ملنے سے پہلے تک اس کی بے تابی کا ذکر بالکل فطری انداز میں کرتے ہیں۔
بھوکے انسان کا چاند کو بھی ’’روٹی‘‘ سمجھنے کی سادہ لوحی عظیم تر ہندوستان کی آفاقی شناخت ہے۔چاہے ہم چاند کے بعد مریخ کو تسخیر کرلیں ،مگر اس طرح کے احساس سے آزاد نہیں ہوسکتے۔یہ نظم اپنے مطالعہ کنندگان کو ایک ہی جست میں نہ جانے کہاں کہاں کی سیر کرادیتی ہے۔انھیں روٹیوں کے فوائد ،نقصانات،روٹیوں کے لیے انسان کی جدو جہد اور محرومی کے قصے سناتی ہے ۔جو نظیر کی فکر رسا اور فن کا ری کا اعلا نمونہ ہے۔
فطرت کے مسائل کا بیان اور فطرت شناسی نظیر ؔ کا محبوب مشغلہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے فطرت پرور بے شمار نظمیں لکھی ہیں جن میں ’’برسات کی بہاریں‘‘۔ ’’بہار‘‘۔ ’’جاڑے کی بہاریں‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔یہ نظیر ؔ کا دوسرا وصف ہے۔انھوں نے ہندوستان کے موسم،یہاں کے دن رات اور دن رات کے لمحات میں موجودان عناصر کی دریافت کی جن پر عموماً نظر نہیں جاتی یا اس کے باوجود بھی انھیں نظر انداز کردیا جاتاہے۔انھوں نے ان موضوعات پر کھل کر نظمیں لکھیں اور ترانے گائے۔ حالاں کہ انھیں بھانڈ ،بازارواور نہ جانے کیا کیا کہا گیا مگر انھوں نے ان سب باتوں کی پروا کیے بغیر اپنے مشن سے ہی واسطہ رکھا۔
نظیرؔ کا عہد ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اتھل پتھل کا دور کہا جاسکتا ہے جب نادر شاہ درانی کے تابڑ توڑ حملوں نے مغلیہ حکومت کے کس بل نکال دیے تھے اور محمد شاہ رنگیلا کسی بھی قیمت پر جان بچانے کی فراق میں تھا۔دہلی کی اینٹ سے اینٹ بج رہی تھی اور حسب دستوریہاں کے شرفا اپنے اثر و رسوخ اور وقار ومراتب کے دم پر نقل مکانی و ہجرت کررہے تھے۔نظیر اس ہندوستان کو دیکھ رہے تھے اور ان اسباب کی گہرائی میں اتررہے تھے جو دہلی اور اس کے اطراف کے علاقوں کی تباہی و برباد کے ضامن ہیں ۔چنانچہ ان پر کچھ انکشافات ہو ئے اور انھیں ایک سمت مل گئی ۔جو بعد میں ان نوک قلم سے ہویدا ہوئی۔
میاں نظیر ؔ اکبر آبادی ہر اعتبار سے ہندوستانی شاعر ہیں۔ وہ ہندوستان کے باشندے ہیں اور انھیں اپنے ہندی ہونے پر فخر ہے۔ یا۔ ان کی نظمیں جو خالص ہندوستانی رنگ میں ہیں ان میں ان کے عہد کا نظارہ کر سکتے ہیں اور ان کی فکر پیمائی کا کبھی دھیما اور کبھی تیزاحساس بھی ۔ان نظموں میں ’’ہولی‘‘۔’’دیوالی‘‘۔ ’’عید‘‘۔ ’’راکھی‘‘۔ ’’سامان دیوالی کا‘‘۔’’ہولی بہاریں‘‘۔’’مہا دیو جی کا بیاہ‘‘۔’’سلیم چشتی کا عرس‘‘ ۔’’بلدیو جی کا میلہ‘‘۔’’گرونانک شاہ ‘‘ ۔ ’’خواجہ معین الدین‘‘وغیرہ ان کی اس فکر کی غماز ہیں جو ہندوستانی مٹی کی پیداوار ہیں۔گو ان کا مذہب کوئی بھی رہا ہو،انھیں دین کوئی بھی پسند ہو تاہم اس کے علاوہ جتنے بھی ادیان،مسالک و مذہب تھے،وہ انھیں اپنے ہندوستان اور اپنے گھر کے سامان لگتے تھے۔اسی لیے انھوں نے لاکھ طعنوں اور ملامتوں کے باوجود انھوں نے زمین پر کھڑے ہوکر زمین شاعری کی زبان میں زمین کی ہی باتیں کیں اور زمین پر کھڑے کھڑے ہی آفاق کی بلندیوں کو چھوا۔انھوں نے روایت سے بغاوت کی اور اردو شاعری میں نئے اسالیب محاسن اور بیانات کو جگہ دی۔انھوں نے اردو شاعری میں پہلی مرتبہ اس قسم کے تجربے کیے اور اس کے لیے مواد انھیں اسی ہندوستان اور اس کی مٹی سے ملا جو کبھی لعل و گوہر اور ہیرے موتی اگلتی تھی۔ایک زمانے بعد ماہرین ادب و نقادوں کو اس کا احساس ہوا۔جسے ’’دیر آید درست آید ‘‘کے دیرینہ اصول کے تحت قبول کر لیا گیا اور پھرو ہیں سے نظیر فہمی کے دروا ہوتے چلے گئے۔(گو اس وقت تک دیر ہو چکی تھی اور اردو جدید نظم نگاری کا سہرا حالی و آزاد اور سرسید کی تحریک کے سر بندھ چکا تھا،مگر اس میں کلام نہیں کہ اس کا آغاز میاں نظیر ؔ اکبر آبادی کی فکر رسا کا ہی مرہون منت ہے!)
نظیر ؔ اکبر آبادی کی ایک شناخت نیچرل شاعرکے طور پر بھی ہے۔جو انھیں ماحول دوست اور اللہ تعالیٰ کی دیگر مخلوقات کا ہم نوا اور خوگر بھی بنا دیتی ہے۔سب سے پہلے انھوں نے ہی اس جانب توجہ دی ۔وہ مناظر قدرت،حسن کاینات، جنگلی جانوروں، ان کے معصوم بچوں ،پرندو ں اور ان کے گھونسلوں تک کو اپنی نظموں کا موضوع بنا کر بیان کرتے ہیں۔جن میں ’’ریچھ کا بچہ‘‘۔’’بلّی کا بچہ‘‘۔’’گلہری کا بچہ‘‘۔’’کوا اور ہرن کا بچہ‘‘۔’’بیا کا گھونسلہ‘‘۔’’ہنس نامہ‘‘۔’’امس‘‘۔’’موسم برسات‘‘۔ ’’بہار‘‘۔ ’’چاندنی رات‘‘ وغیرہ ایسی نظمیں جو ان کی ماحولیاتی معلومات اور جنگلی دنیا سے واقفیت کا واضح بیان ہیں۔ان نظموں کا مطالعہ جہاں حیرت انگیز دل چسپی کا باعث ہے وہیں یہ اندازہ بھی کراتا ہے کہ نظیر ؔ ان معصوم جانوروں کی حرکات و سکنات،چلنے پھرنے،اچھلنے کودنے ،اڑنے پھڑپھڑانے وغیرہ سے متعلق کتنی معلو مات رکھتے تھے جیسے وہ کوئی ماہر حیوانات ہوں مگر اس سے بھی کم کیا ہوں گے۔انھوں نے جنگل اور جنگل کی دنیا کے ایک ایک جز کو نہایت سلیقے اور حسن ترتیب سے بیان کیا۔ جیسے وہ جنگل بک ترتیب دے رہے ہوں ۔
نظیر ؔ پر جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کے یہاں فکر نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو سطحی مگر یہ سچ نہیں ہے۔بلکہ معترضین کی حقیقت سے ناآشنائی اور کور چشمی کی دلیل ہے۔نظیر ؔ کے یہاں جو فکر ہمیشہ سے رہی اور پروان چڑھی وہ ایک جہاں دیدہ اور سچے قوم پرست و وطن پرست شخص کی فکر تھی جس نے اس وقت بھی اپنی اہمیت اور مقام لو ہا منوا یا اور آج بھی جب کہ ہمارا عہد ڈیجیٹل دور میں داخل ہوچکا ہے۔نظیر کے افکار اور فن پارے آج بھی مشعل راہ ہیں اور ان کے جلو میں موجود تعلیمات ،فرقہ وارنہ ہم آہنگی،بین الانسان دوستی اور فطرت سے لگاؤ کی تلقین وہدایات ہمارے معاشروں اور سماجوں کی اہم ترین ضرورتیں ہیں۔
خلاصہ یہ کہ نظیر اکبر آبادی فکرو فنکے آئینے نہایت عظیم انسان اور ہندوستانی نظر آتے ہیں۔ان کی زندگی ،ان کے کارنامے،ان کی کاوشوں ،ان کا شہر شہر جانا اور وہاں کی آب و ہوا میں ہندوستانی عناصر کی تلاش ما بعد تلاش ان کا بیان اور اس طرح کہ سب متحیر رہ جائیں خزانۂ قدرت سے حاصل شدہ بے نظیر انعامات ہیں۔ان کے فکری وفنی شاہکاروں نے اردو شاعری کو نیا وژن اور جہات بخشے ہیں نیز اردو شاعری کو قانون فطرت سے قریب تر کیا ہے۔
[email protected]
259،تاپتی ہاسٹل،جواہر لال نہرو یونیورسٹی ،نئی دہلی
نظیرؔ اکبر آبادی:فکرو فن!
previous post
1 comment
کیا خوب سیر حاصل مضمون ہے۔ نظیر پر اب تک تحریر کیے گئے مضامین میں یقینی طور پر ممتاز۔
بہت ہی خوب تحریر۔
احمد صفی