بنا رہا ہُوں تری آنکھ کے اشارے پر
اسی کنارے کی تصویر اُس کنارے پر
اُداس شام سے اک نام میں نے سیکھا تھا
سو، لکھ رہا ہوں وہی صبح کے ستارے پر
انہی کے کھوج میں موسم بھی، شاخ و شبنم بھی
گُلاب کس نے کھلائے ہیں بہتے دھارے پر
سب اپنی اپنی خریداریوں کی فکر میں ہیں
نظر کسی کی نہیں ہے مرے خسارے پر
اسی لیے تو زمیں پر وہ اجنبی نہ لگے
مَیں اُن سے پہلے ملا تھا کسی ستارے پر
ہَوائیں آج بھی پیغامِ امن لائی ہیں
کہ اس نے کاٹ دیے فاختہ کے سارے پر