ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو !-یاور رحمن

جذباتی قسم کے عقیدت مند مسلمان مدنی صاحب کی جرات و شجاعت کے گن گا رہے ہیں۔ انھیں لگتا ہے جیسے ‘مولانا’ نے شرک کے ہنگامے میں نعرۂ توحید بلند کر کے اسلام کا جھنڈا بلند کر دیا ہے۔

ہوا یہ ہے کہ ارشد صاحب نے اپنے جلسے میں حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ باتیں کہی ہیں جن کے بارے میں اس ملک کے غیر مسلم بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہیں۔ وہ اسلام کو "صرف چودہ سو سال پرانا مذہب” سمجھتے ہیں اور اللہ کے آخری پیغبر کو "اسلام کا بانی” ۔ پھر وہ اپنے مذہب کو ہزاروں سال پرانا بتا کر اسلام پر اپنے عقیدے کا تفوق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وہ اصل مرکز نزاع ہے جو اس ملک میں اسلام کی دعوت میں حارج ہے۔

اس غلط فہمی کو دور کرنا اور اسلام کی ابتدا و انتہا پر براہین و دلائل کی روشنی میں دلکش و دل نشیں دعوت دیتے رہنا مسلمانوں کی ذمہ داری تھی اور رہے گی۔ ارشد مدنی صاحب نے یہی بات کہنے کی کوشش کی۔ انکے اسٹیج پر ہندو مذہب اور دیگر مذاہب کے پیشوا موجوود تھے۔ مدنی صاحب اپنی بات انتہائی نرمی اور تفہیمی انداز میں رکھ سکتے تھے مگر افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ الٹا یہ ہوا کہ ‘مہمان’ بری طرح ذلیل ہوکر خفا ہوئے اور معاملہ جھگڑے تک پہنچ گیا۔ دلوں میں مزید دوری آئ اور غلط فہمیوں کی جڑ اور بھی الجھ گئی۔

گفتگو کا ہنر اصل چیز ہے۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کے لیے حرف و لفظ کی تعیین اور اسلوب کا انتخاب بڑی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ آج جھوٹ اسی لیے فاتح بنا پھررہا ہے کہ ہم سچ کو پیش کر سکنے کی صلاحیتوں سے یکسر محروم نظر آتے ہیں۔ ہم اسلام کی دعوت بھی لٹھ مار انداز میں کرنے لگے ہیں۔ اسلام کی دولت ہمیں حاصل ہے تو یہ صرف ہمارے رب کی رحمت اور اسکا فضل ہے۔ اس میں ہمارا اپنا کوئی کمال نہیں۔ اس پر ‘احساس برتری’ نہیں بلکہ احساس تشکر ہونا چاہیے۔ اور جو لوگ اس دولت سے محروم ہیں ان سے ہمدردی ہونی چاہیے۔ اسی لیے اسلام کی دعوت و پیشکش میں جذبۂ مسیحائی کا ہونا لازمی ہے۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کا طرز اپنایا جاۓ۔

کڑوی کسیلی بات بھی میٹھے لہجے میں کہی جاۓ تو دل آمادءفکر ہو جاتا ہے۔مقصد بھی یہی ہونا چاہیے کہ مخاطب سوچنے پر مجبور ہو جاۓ۔ اسلام "تو تو میں میں” کی بحث نہیں ہے بلکہ راہ نجات کی عظیم دعوت ہے۔
افسوس کہ مدنی صاحب نے ایک بہترین بات جس بھدے انداز میں رکھی، جو انکی زبان تھی، جو انکا لب و لہجہ تھا اور جس طرح کی انکی باڈی لینگویج تھی وہ مخاطب کی بصارت و سماعت کو برہم کر دینے کے لیے کافی تھی۔ ان کا طرز استدلال دلوں کو جھنجھوڑنے والا نہیں تھا بلکہ دلوں کے مرض کو اور بھی سوا کرنے والا تھا، ان کے جو جملے تھے وہ سوچنے کے بجاۓ ‘نونچنے’ پر مجبور کر دینے والے تھے۔ ان کے لہجے میں رعونت اور تمسخر تھا، انکی دعوت میں ‘عداوت’ تھی، تحدی تھی اور تفاخر تھا۔ ایسے تو بات دل میں نہیں اترتی بلکہ دل سے اتر جاتی ہے۔ اور بالکل یہی ہوا۔

جن لوگوں نے یہ سب نہیں دیکھا ہے وہ سوشل میڈیا میں ارشد صاحب کی وہ تقریر ضرور سنیں، انکی طرز تقریر پر سوچیں پھر میری تنقید پر غور کریں اور پھر ABP نیوز پر اس واقعے پر مبنی محمود مدنی کا انٹرویو بھی دیکھ لیں۔ آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ حضرت کی علمی اور فکری لیاقت کیا ہے ؟ مثال کے طور پر پروگرام اینکر نے یہ سوال پوچھ لیا کہ اگر اسلام سب سے پرانا دھرم ہے تو دوسرے دھارمک گرنتھوں میں اسکا ذکر کہاں ہے ؟

یقین جانیے کہ اس سوال کا جواب ہی تمام مخالفتوں کا مسکت جواب تھا۔ کاش کہ یہ لوگ مطالعہ کرتے اور مخلص ہوکر تیاری کر کے جاتے تو کروڑوں لوگوں تک وہ بات پہنچ جاتی جو کبھی پہنچ نہیں پاتی ہے۔ افسوس کہ محمود مدنی نہیں بتا پائے کہ ویدوں میں حضور کی بعثت کا ذکر کس تفصیل سے موجود ہے اور توحید و آخرت کا تصور کس قدر واضح انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ بس بائبل کا نام لیکر سوال گول کر دیا۔

اسلام اگر زیر بحث ہو تو ضروری ہے کہ خود قرآن اور صاحب قرآن کا اسلوب اختیار کیا جاۓ۔ دلیلیں وہ دی جائیں جو قرآن دیتا ہے اور رسول دیتے ہیں۔ بس زبان وہ ہو جو مخاطب کے لیے اجنبی نہ ہو۔ مگر افسوس کہ یہ لوگ اس طرح سوچتے ہی نہیں۔

شاید اسی لیے کچھ لوگ اس واقعے کو ایک منصوبہ بند "ڈرامہ” کہ رہے ہیں۔ اللّه کرے کہ یہ بات بالکل غلط ہو مگر د یکھنے سے تو واقعی ایسا لگتا ہے جیسے یہ ڈرامہ باضابطہ اسٹیج کیا گیا تھا۔ لیکن اگر حسن ظن سے کام لیں بھی تو جس انداز میں اسلام کو پروسا گیا ہے، اسکے جو نتائج سامنے آرہے ہیں اور انکا جو گزشتہ ریکارڈ رہا ہے وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یہ لوگ صرف ذاتی سیاست ہی کر رہے ہیں اور کچھ نہیں! اللّه بد گمانیوں سے ہماری حفاظت فرماۓ اور انھیں بھی ان حرکتوں سے روک دے جن حرکتوں کی وجہ سے بد گمانیاں ہمارے ذہن کے آنگن میں اتر آتی ہیں !

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*