میں ادیبوں ، شاعروں ، عالموں ، دانشوروں ، سیاست دانوں اور اہم شخصیات کے خطوط پڑھنا پسند کرتا ہوں ، وجہ یہ کہ انہیں پڑھ کر کچھ نہ کچھ حاصل ہوتا ہے ، زبان کی کوئی گتھی سلجھتی ہے ، کوئی نظریہ جو سمجھ میں نہ آیا ہو ، سمجھ میں آ جاتا ہے ، ادبی تحریکوں سے ، ادبی معرکوں سے ، درست سیاسی صورت حال سے آگاہی ہوتی ہے ، کسی اچھے سے شعر کی تفہیم ہوتی ہے ، اور اس سے بھی بڑھ کر پتہ چلتا ہے ، کہ اکابر نااتفاقی اور نظریاتی بُعد کے باوجود ، کس صبر و ضبط ، تحمل اور خوش مزاجی سے ایک دوسرے سے پیش آتے تھے ، اور کیسے اپنے سے چھوٹوں کی تربیت کرتے تھے ۔ یوں تو مکتوبات جو ہاتھ لگیں پڑھ لیتا ہوں ، لیکن جب مکتوب نگار کوئی پسندیدہ شخصیت ہو تب کیا کہنے ، دل چاہتا ہے کہ پڑھتا ہی رہوں ۔ ایسی ہی ایک شخصیت نیّر مسعود کی ہے ۔ مجھے نیّر مسعود کا فکشن بھی بھاتا ہے اور نان فکشن بھی ، اس لیے جب ان کے اور اپنے دور کے ایک بہترین ادیب و مترجم محمد عمر میمن کے درمیان ’ مراسلت ‘ کتابی صورت میں ملی تو یقین جانیں کہ مسرت کی انتہا نہیں رہی ۔
نیّر مسعود اور محمد عمر میمن کے درمیان ’ مراسلت ‘ کا سلسلہ ۱۹۸۹ء میں شروع ہوا ، اور ۲۰۱۳ء تک جاری رہا ، یعنی تقریباً ۲۴ سال تک دونوں ایک دوسرے کو خط لکھتے رہے ۔ جب نیّر مسعود کے صٓاحب زادے تمثال مسعود نے ان خطوں کو کتابی شکل میں لانے کا ارادہ کیا ، تو ان کے لیے ان خطوں کا حصول ایک مشکل کام تھا ۔ کتاب کے آغاز میں ’ نیّر مسعود اور محمد عمر میمن کے خطوں کا تعارف ‘ کے عنوان سے تمثال مسعود نے جہاں ’ مراسلت ‘ کے اس مجموعے کی ترتیب و تدوین میں پیش آنے والی دقتوں کا ذکر کیا ہے ، وہیں انہوں نے ان خطوں کی اہمیت اور ضرورت پر بھی روشنی ڈالی ہے ، اور یہ ذکر کیا ہے کہ اس مجموعے کی اشاعت کا سبب کیا رہا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ محمد عمر میمن کی شریک حیات ناکاکو صاحبہ نے نیّر صاحب کے خطوں کی نقل بھجوا دی مگر ’’ والد صاحب کے خطوں کی دستیابی اور ان کے پڑھنے کے بعد مجھ کو میمن صاحب کے خطوں کی فکر اب ذرا تشویش کے ساتھ ہونا شروع ہوئی ۔ اس تشویش کی وجہ یہ تھی کہ اپنے گھر کے کاغذٓات میں میمن صاحب کے خطوں کا دیکھنا مجھ کو یاد نہیں آ رہا تھا ۔ اور ظاہر ہے ، میمن صاحب کے خط ایسی چیز نہیں تھے کہ اُن کو والد صاحب نے سنبھال کر نہ رکھا ہو ۔ اسی اُدھیڑ بُن میں ایک روز مجھے خیال آیا کہ کبھی والد صاحب نے مجھ سے ذکر کیا تھا کہ اُنہوں نے اپنے نام ادیبوں کے خط انجمن ترقی اردو کو دے دیے ہیں ۔‘‘ تمثال مسعود نے انجمن کے سکریٹری اطہر فاروقی سے رابطہ کیا ، اور انہوں نے میمن صاحب کے خطوں کی نقلیں بھجوا دیں ۔ انجمن ترقی اردو کا ادیبوں کے خطوں کو محفوظ رکھنا ایک مثالی کام ہے ، اس کے لیے اس کی ستائش لازمی ہے ۔ مرتب نے ان خطوں کی اہمیت اور افادیت پر بھی گفتگو کی ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ نیّر صاحب اور میمن صاحب کی ’’ ذاتی زندگی کی جھلکیاں ان خطوں میں موجود ہیں جن سے اُن کی شخصیت اور مزاج کی صحیح تصویر کے دیکھنے میں مدد ملتی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ خط اُن حالات کے بھی عکاس ہیں جن سے نیّر مسعود اور میمن صاحب دونوں خاصے خائف اور نبرد آزما رہتے تھے اور یہ حالات اُن کے ذہنوں کو بری طرح متاثر بھی کرتے تھے ، جیسے ادبی دنیا کا غیر ادبی رویہ ، ادب اور ادب کے باہر کے سیاسی حالات ، اور فرقہ وارانہ کشیدگیاں ۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں ، ’’ خطوں کا یہ مجموعہ اردو فکشن اور ترجمے کی تنقید بھی ہے ‘‘ ، اور ’’ نیّر مسعود اور محمد عمر میمن کے خط مراسلت کی قدیم روایت کے آخری نمونوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ صرف یہی ایک بات ان خطوں کو مرتب کرکے ان کا مجموعہ شائع کرنے کو بہت ہے ۔‘‘
ان خطوں کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ ماضی میں ترقی کے عذاب سے محفوظ کیسی کیسی شخصیات تھیں ، جو خط میں اپنا دل نچوڑ کر رکھ دیتی تھیں ۔ آج ’ انٹرنیٹ ‘ نے مکتوب نگاری کا سارا حسن ، خط میں سموئے جانے والے سارے احساسات ، خطوں کے پانے کا سارا صبر ، اور خط بھیجنے کی ساری مسرت چھین لی ہے ، اور خط بذریعہ نیٹ ایک ’ فوری ردعمل ‘ میں بدل گیے ہیں ۔ نیّر مسعود اور محمد عمر میمن کے خطوں میں افسانے کی تنقید سے لے کر ایک دوسرے کی طبیعت کی فکر تک ہر چیز پائی جاتی ہے ، ایک دوسرے کا احترام ملحوظ رکھا گیا ہے ، اور کوشش کی گئی ہے کہ کسی کی کسی بات سے ایک دوسرے کو ٹھیس نہ پہنچے ۔ آج اگر کوئی کسی افسانہ نگار کے افسانے کو اچھا نہ کہے تو تلواریں نکل آتی ہیں ، اور افسانہ نگار خود اپنے لکھے افسانے کو کبھی بُرا نہیں کہہ سکتا ، نیّر مسعود کے دو خطوں کی چند سطریں ملاحظہ ہوں جس میں انہوں نے اپنے افسانوں پر بات کی ہے ، ’’ ’ عطرِ کافور ‘ ( بلکہ سیمیا کے بعد کے سب افسانوں ) کو میں نے سیمیا کے افسانوں سے مختلف رکھنے کی کوشش کی تھی مگر بات شاید بنی نہیں ۔ آپ کے لکھنے سے مجھ کو بھی محسوس ہوا کہ نصرت اور ماہ رُخ سلطان کے کرداروں میں خاصی مماثلت ہے اور راوی کا کردار بھی دونوں افسانوں میں تقریباً یکساں ہے ۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں ۔‘‘ مزید ، ’’ ’ ساسان پنجم ‘ کے بارے میں آپ کی رائے میری رائے کے عین مطابق ہے ۔ اس تحریر کی اصل کمزوری یہی ہے کہ یہاں راوی قاری کو انگلی پکڑ کر چلاتا نظر آتا ہے ۔ اسے افسانہ کہنا بھی مشکل ہے ۔‘‘ یہ کہنا تو دور کی بات کہ ’ اسے افسانہ کہنا بھی مشکل ہے ‘ آج کا کوئی افسانہ نگار اپنے کسی افسانے کو کمزور بھی نہیں کہہ سکے گا ۔ ایک دوسرے کی طبیعت کی کس قدر فکر تھی اس کا اندازہ نیّر مسعود کے ایک خط کی ان سطروں سے لگائیں ، ’’ آپ کی طبیعت کے بارے میں پہلے گفتگو کرنا چاہیے تھی لیکن بات ’ تاریک گلی ‘ ( میمن صاحؓب کا افسانوی مجموعہ ) میں جا پڑی ۔ آپ کو احتیاط اور پرہیز تو خیر کرنا ہی چاہیے ۔ سبز چاے کا بھی استعمال جاری رکھیے ۔‘‘ دو خطوں کی چند سطریں مزید ملاحظہ کریں ، ایک میں لکھنئو کے ہندو – مسلم کشیدگی کا ، اور دوسرے میں مندر – مسجد کے تنازعے کا ذکر ہے ، ’’ یہاں کے حالات اچھے نہیں ہیں ۔ ہندو مسلم کشیدگی کا تجربہ لکھنئو کو پہلی بار ہو رہا ہے ۔ ہمارا یہ شہر تو ماشاء اللہ شیعہ سُنّی فساد کا عاادی اور ماہر ہے جس میں شکار کی شناخت اس بات سے کی جاتی ہے کہ وہ شیعہ مسجد سے نماز پڑھ کر نکلا ہے یا سُنّی مسجد سے ، اور یہ تصدیق ہوجانے کے بعد کہ وہ شیعہ یا سُنّی ہونے کے علاوہ نمازی بھی ہے ، اسے قتل کر دیا جاتا ہے ۔‘‘ مزید ، ’’ مندر مسجد کے قضیے کے بعد سے جو فضا پیداہوئی ہے ، اُس کا اثر ذہن پر اتنا بُرا پڑا ہے کہ کئی مہینے سے قاعدے کے ساتھ لکھنا پڑھنا ممکن نہیں رہا ہے ۔‘‘ اپنی کتاب ’ کافکا کے افسانے ‘ کے تعلق سے میمن صاحب کو لکھتے ہیں ، ’’ آپ کو حیرت ہوگی کہ اس کتاب کی شاید بیس کاپیاں بھی فروخت نہیں ہوئیں ۔ بہرحال دیمکوں اور سیلن کی مہربانی سے پہلا ایڈیشن قریب قریب ختم ہو گیا ہے ۔‘‘
محمد عمر میمن کے خطوں میں بھی ادب ، ترجمے سے متعلق باتیں ، سیاست ، افسانے کی تنقید ، کچھ آپ بیتی اور کچھ جگ بیتی سب کچھ پڑھنے کو اور پڑھ کر سیکھنے کو مل جاتا ہے ، ان کے خطوں سے چند سطریں ملاحظہ کریں ، ’’ ہم سب کچھ تو اپنے تجربے اور مشاہدے سے سیکھتے ہیں اور کچھ دوسروں کی بے لاگ تنقید سے ۔ تنقید کا بے لاگ ہونا تکلیف دہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا انصاف پسندی سے منحرف ہونا آزردہ کرتا ہے ۔‘‘ نیز ، ’’ جب معاشرے میں لکھنا ایک باوقار عمل سمجھا جانے لگے گا ، اُس کی عصمت دری کے رکاؤ کے طور پر اصول بھی منضبط ہو جائیں گے ، اور اُن پر باقاعدگی سے عمل بھی ہونے لگے گا ۔ فی الوقت تو بہتی گنگا ہے ۔ ولادت سے پہلے ہی مولود آئندہ اپنی تحریر سرکا دیتا ہے ، پھر خود تشریف لاتا ہے ۔‘‘ ایک خط کی کچھ اور سطریں ، ’’ ’ شب خون ‘ اگر بند ہو گیا تو افسوس ہوگا ۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اب اس کی وہ شان بھی نہیں رہی جو ہوا کرتی تھی ۔ فاروقی صاحب کی نگارشات کا جوبن بہرحال اپنی جگہ ہے ۔‘‘ یہ ایک شاندار کتاب ہے ۔ نیّر صاحب کے ۷۸ اور میمن صاحب کے ۵۴ خطوں کو پڑھ کر لفظوں کی ایک انوکھی دنیا سامنے آجاتی ہے ، ایسی دنیا جو پڑھنے والے کو حیران کر دیتی ہے ، اور وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا لفظوں کا ایسا خوب صورت استعمال بھی کیا جا سکتا ہے ۔ کتاب میں حواشی بھی ہے جو خطوں میں شامل ادیبوں ، شخصیات اور مقامات و دیگر ناموں کو تلاش کرنے میں مددگار ہے ۔ دونوں ادیبوں کے خطوں کے عکس بھی دیے گیے ہیں ۔ یہ کتاب ’ عرشیہ پبلیکیشنز ، نئی دہلی ‘ نے شائع کی ہے ، صفحات ۳۲۴ ہیں اور قیمت ۶۵۰ روپیے ہے ۔ یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے ۔
نیّر مسعود کی مزید دو کتابیں ’ انیس : سوانح ‘ اور ’ ادبستان ‘ بھی ’ عرشیہ پبلیکیشنز ، نئی دہلی ‘ نے شائع کی ہیں ، یہ دونوں ہی جدید ایڈیشن ہیں ، اور ان کی وہ غلطیاں جو پہلے کے ایڈیشنوں میں پائی جاتی ہیں ، درست کر دی گئی ہیں ۔ ’ انیس ‘ کی سوانح ایک یادگار کتاب ہے ۔ ۳۸۳ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو نیّر صاحب نے ۱۹۷۴ء میں لکھنا شروع کیا تھا ، اس کی تکمیل ۲۰۰۰ء میں ہوئی ، یعنی اسے لکھنے میں پورے ۲۶ سال لگ گیے ! نیّر صاحب کی یہ کتاب اپنی اشاعت کے بعد ہی سے ادبی حلقوں میں موضوع گفتگو بن گئی تھی ، اور آج بھی اس کا ذکر ہوتا ہے ۔ کتاب ایک شاعر کی سوانح ہے لیکن اسے پڑھتے ہوئے کسی ناول کا لطف محسوس ہوتا ہے ۔ کتاب بہت خوب صورت شائع ہوئی ہے ، اس کی قیمت ۷۵۰ روپیے ہے ۔ تیسری کتاب ’ ادبستان ‘ بارہ شخصیات کے خاکے ہیں ۔ ان خاکوں میں شمس الرحمٰن فاروقی کا خاکہ بھی شامل ہے ، اس سے چند سطریں ملاحظہ کریں اور خود اندازہ لگائیں کہ کس غضب کے یہ خاکے ہیں ، ’’ اپنے یہاں وہ خاصے ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے تھے ۔ کم سے کم ایک نوکر اپنے ذاتی کام کے لیے رکھتے تھے ۔ کبھی کبھی بیگم جمیلہ فاروقی کچھ دن کے لیے لکھنئو آ جاتیں اور گھر کا انتظام درست کر دیتی تھیں ورنہ زیادہ تر فاروقی ملازموں کی چیرہ دستیوں کا شکار رہتے تھے ۔ ملازم بھی ان کو عجیب و غریب ملے ۔ ایک بار گھر میں عمدہ چاولوں کا اسٹاک ختم ہو گیا ، ملازم نے بچے ہوئے چاول پکا کر خود نوش کر لیے اور فاروقی کے سامنے موٹے چاول پکا کر رکھ دیے ۔ ایک صاحب کو جب اکر صاحب کو جب فاروقی کسی بات پر ڈانتے تھے تو وہ غصے میں آکر ’ صاحب ‘ کو ایک وقت کا فاقہ دینے کا فیصلہ کر لیتے اور اس دن دفتر میں ان کا لنچ نہیں پہنچاتے تھے ۔‘‘ تمام خاکے ایسے ہی دلچسپ ہیں ۔ یہ کتاب ۱۵۵ صٖفحات پر مشتمل ہے ، قیمت ۳۰۰ روپیے ہے ۔ یہ تینوں کتابیں ممبئی کے کتاب میلے سے ’ عرشیہ ‘ اور ’ کتاب دار ‘ کے اسٹال پر حاصل کی جا سکتی ہیں ۔