نئی دہلی:اردو کا ایک بڑا ادبی اجتماع جو ستائیس سال سے لگاتار منعقد ہورہا ہے وہ اس سال جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقد ہوا ۔ یہ اجتماع ہمیشہ اردو اکادمی کے قمر رئیس آڈیٹوریم میں منعقد ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ اکادمی سے باہر کرنے کا تجربہ کیا گیا ، اور وہ کامیاب بھی رہا ۔ اس پانچ روزہ ادبی اجتماع میں کل چودہ اجلاس منعقد ہوئے اور تقریباً پانچ سو ناقدو ادیب اور شعرا نے حصہ لیا ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کانفرنس ہال،سی آئی ٹی میں بارہواں اجلا س صبح دس بجے منعقد ہوا۔ یہ اجلاس تحقیقی و تنقید ی تھا ، جس کی صدارت پروفیسر احمد محفوظ ، پروفیسر مظہر احمد اور پر فیسر ابوبکر عباد نے کی ۔
پروفیسر احمد محفوظ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ تحقیق میں کچھ باتوں پر خاص توجہ دینی ہوتی ہے جن میں سے ایک کراس چیک ہے ۔ گفتگو کر تے ہوئے انہوںنے نئے لکھنے والوں سے کہا کہ پیروی اور تقلید سیکھنے کے مراحل میںضروری ہوتا ہے ، ہر ایک ریسر چ اسکالر عمدہ سے عمدہ مضامین ضرورپڑھتے ہوںگے جن میں معروضی انداز میں بات کی جاتی ہے تو آپ لکھنے کے لیے اس اسلوب کی تقلید کریں تاکہ آپ کی باتیں زیادہ مؤثر انداز میں پہنچیں ۔ شاعری پر بات کر تے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک موضوع پر کئی شعرا کے مختلف شعر آپ کو پڑھنے کو ملیںگے ۔ تو کیا موضوعات شاعر یا شعر کو بڑا بناتا ہے نہیں بلکہ بڑی شاعر ی موضوع سے نہیں بلکہ فن اور اسلوب سے طے ہوتی ہے ۔ پروفیسر مظہر احمد نے نئے پرانے چرا غ پر وگرام کی اہمیت پر گفتگو کر تے ہوئے کہا کہ یہ ایک تربیت گاہ ہے میں بھی اس عمل سے گزر کر آج کالج میں ہوں ۔ بلقیس ظفیر الحسن کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ، بلقیس نے ہمیشہ کہا ہے کہ میرا تانیثیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور کہتی تھیں کہ یہ لازمی نہیں عورت ہی فیمنسٹ ہو مر د بھی فیمنسٹ ہوسکتا ہے ۔ طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سمینار کے لیے اکثر ایسے موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے جس میں وقت پر بات مکمل ہو جائے ۔ پرفیسر ابو بکر عباد نے صدارتی خطاب میں ہر مقالے پر فرداً فرداً گفتگو کی اور خامیوں اور خوبیوں سے طلبہ کو آگاہ کیا اور انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اچھی زبان کے ساتھ خوبصورت تلفظ بھی سننے کو ملا ۔
اس اجلاس میں کل آٹھ مقالات پیش کیے گئے ۔ محمد سید رضا نے ’’ ن م راشد ایک روایت ساز نظم نگار ‘‘ محمد ناظم نے ’’ نشور واحدی کی غزل گوئی ‘‘ زرفشاں شیریں نے ’’ بلقیس ظفیر الحسن کا شعری مجموعہ گیلا دامن کی نظمیں : مسائل اور موضوعات ‘‘ عنب شمیم نے ’’ جدید اردو نظم کے امتیازی نقوش : ایک جائزہ ‘‘ محمد فرید نے ’’ بہار میں ترقی پسند افسانہ نگاروں کی ایک جھلک ‘‘ محمد فیصل خاں نے ’’ کیفی اعظمی کی فکری و فنی جہات (ترقی پسند تحریک کے حوالے سے ‘‘ محمد رضا نے ’’کلام میر میں لفظ مناسبت اور استعاراتی نظام ‘‘ اور عزہ معین نے ’’ حلقہ ارباب ذوق میں خواتین کی ادبی خدمات ‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کیا ۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر شاداب شمیم نے بحسن و خوبی انجام دیا ۔
جمعہ کے بعد ظہرا نہ ہوا پھر تخلیقی اجلاس منعقد ہوا ، جس کی صدارت ڈاکٹر ریاض عمر اور پروفیسر شہر یار نے کی۔ نظامت ڈاکٹر حمیرہ حیات نے کی ۔
صدارتی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ریاض عمر نے کہا کہ جس ہال میں یہ اجلاس جاری ہے اسی میں بہت ساری کہانیاں موجود ہیں بس کیچ کر نے کی ضرورت ہے اورفرداً فردا ً ساری کہانیوں پر اظہار خیال کیا ۔
اس تخلیقی اجلاس میں محمد خلیل نے خاکہ ’’ سالم علی سائنٹسٹ‘‘ نگار عظیم نے ’’ برے آدمی کی کہانی ‘‘ پرو یز شہریا ر نے ’’ لال چند‘‘ سفینہ نے ’’ او مائی گاڈ ‘‘ محمد عرفان خاں نے ’’ جال ‘‘ نثار احمد نے ’’روایت ‘‘ ناظمہ جبیں نے ’’ تصویر کا دوسرا رخ ‘‘ پیش کیا۔
آخر ی دن کی آخر ی پروگرام محفل قوالی پر مشتمل تھا جو انجینئرنگ فیکلٹی کے آڈیٹوریم میں پیش کی گئی۔ قوال سرفراز چشتی کو سننے کے لیے آڈیٹوریم میں طلبہ اور عوام میں کی بھیڑ موجود تھی ۔ پورے آڈیٹوریم میں بھیڑ کا عالم یہ تھا کہ تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی ۔قوالی اپنے وقت پر شروع ہوئی کہ دہلی سرکار کے وزیر برائے فن ،ثقافت و السنہ جناب سوربھ بھاردواج ، براڑی کے ایم ایل اور میتھلی اکیڈمی کے وائس چیر مین سنجیو جھا کی تشریف آوری ہوئی اور ہال استقبالیہ تالیوں سے گونج اٹھا ۔ ان دونوں ممبران اسمبلی کو اردو اکادمی کے سکریٹر ی محمد احسن عابد نے گلدستہ پیش کرکے استقبال کیا جبکہ قوال کا استقبال وزیر محترم اور ممبر اسمبلی نے کیا ۔ وزیر سوربھ بھاردواج نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اب اکادمیوں کے پروگرامس یونیورسٹیوں میں ہوں گے ۔ ابھی پانچ دن کا پروگرام گارڈن آف فائیو سینس میں ہورہا ہے اور تین دن کا پروگرام سینٹرل پارک کناٹ پلیس میں منعقد کیا جائے گا ۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ زبان ادب میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے دلی سرکار بڑھ چڑھ کر اسپانسر کر ررہی ہے ۔قوال کی ہر پیش کش پر لوگ خوب جھو مے ۔ اس طریقے سے یہ نئے پرانے چراغ کا پانچ روزہ ادبی اجتماع اختتام کو پہنچا ۔ادبی پروگروام میں بطور خاص پر وفیسر ندیم احمد ، ڈاکٹر جاوید حسن،ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی ،ڈاکٹر شہنواز فیاض ، ڈاکٹر نوشاد منظر ، ڈاکٹر امیر حمزہ، ڈاکٹر محمد ریحان،ڈاکٹر زاہد ندیم احسن ، ڈاکٹر راحین شمع ، ڈاکٹر خوشتر زریں ودیگر اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی ۔