Home نقدوتبصرہ ’ نیا ہندوستان پُرانا مسلمان ‘ : اثبات کا خاص نمبر ۷۵ برسوں کا آئینہ ! – شکیل رشید

’ نیا ہندوستان پُرانا مسلمان ‘ : اثبات کا خاص نمبر ۷۵ برسوں کا آئینہ ! – شکیل رشید

by قندیل

ایک مدیر کی حیثیت سے ، اشعر نجمی کا کمال ، یوں تو ’ اثبات ‘ کے عام شماروں میں بھی نظر آتا ہے ، لیکن خاص شماروں میں اُن کا کمال اپنی انتہا پر ہوتا ہے ۔ یہاں لفظ انتہا کا استعمال منفی معنوں میں نہیں ، مثبت معنوں میں ہے ۔ یہ ایک مدیر کی حیثیت سے انتخاب اور تحریر کا کمال ہے ۔ ’ نیا ہندوستان پُرانا مسلمان ‘ میں یہ کمال ، اب تک کے ’ اثبات ‘ کے تمام خاص نمبروں کے مقابلے ، صد فی صد ہے ۔ میں ، اس خاص نمبر کے ، جس کا ٹیگ لائن یا جس کی ضمنی سرخی ’ ہندوستانی مسلمانوں کے 75 سال ‘ ہیں ، مشمولات پر کم کم بات ہی کرسکوں گا ، کیونکہ یہ نمبر دو جِلدوں میں ہے ، اور ہر جلد تقریباً 800 صفحات پر مشتمل ہے ، یعنی مجموعی طور پر 1600 صفحات ہیں ! اتنے صفحات کو چند روز میں پڑھ پانا تو دُور سرسری طور پر دیکھ پانا بھی ممکن نہیں ہے ۔
بات ، اشعر نجمی کے اداریے ’ میں کون ہوں اے ہم نفساں ‘ سے شروع کرتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس اداریے کو پڑھ کر پہلے تو میں ڈر گیا ، ایک خوف کی کیفیت طاری ہوئی ، اور اُسی سوال نے مجھے آن گھیرا جس سوال نے اشعر نجمی سے یہ اداریہ لکھوایا تھا ،’ میں کون ہوں؟ تم کون ہو ؟ ‘ مدیر محترم لکھتے ہیں : ’’ میر تقی میرؔ کے ایک مصرعہ کے نصف جزو سے اپنی بات کا آغاز کرنا صرف زیبِ داستاں کے لیے نہیں بلکہ ’ پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے ‘ تک پہنچنے کی ایک جستجو ہے ۔ میرے نقطۂ نظر سے دیکھیے تو اس وقت پوری تہذیب ایسے ہی سوالوں پر آن کھڑی ہوئی ہے کہ میں کون ہوں؟ تم کون ہو ؟ مثلاً اس وقت مجھ سے کوئی پوچھے کہ بھائی تم کون ہو؟ میں کہوں گا : انسان ۔ لیکن کیا اتنا کافی ہوگا؟ ‘‘ اس سوال کے جواب میں وہ شناخت کی مختلف تہوں کو ادھیڑتے ہیں : ’’ کون سے مسلمان؟ کہاں کے مسلمان؟ سنّی یا شیعہ؟ دیوبندی یا بریلوی؟ عربی یا عجمی؟ افریقی یا یورپی؟ پاکستانی یا ہندوستانی؟ لیکن اس پر بھی میری مکمل شناخت واضح نہیں ہوتی ، اگلا سوال داغا جا سکتا ہے ؛ ’ آپ پہلے مسلمان ہیں یا ہندوستانی؟ ‘‘ اتنی شناختیں ! اشعر نجمی ان شناختوں کو جنس ، تاریخ ، جغرافیہ ، عمرانیات ، طبیعات ، نفسیات و فلسفہ سے جوڑتے ہوئے مذہب ، مسلک اور آخر میں ’ انتہا پسندی ‘ تک لے جاتے ہیں ! یہ سب پڑھ کر خوف محسوس ہوتا ہے ، کیونکہ ایک عام مسلمان جو ان 75 سالوں میں خود کو صرف مُسلمان ہی سمجھتا چلا آیا ہے ، وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ بھلا وہ کب ، کیسے اور کیوں انتہا پسند ہو گیا ؟ اشعر نجمی کے سوالوں کے بعد ، میں اپنے وجود سے یہ پوچھنا نہیں بھولا کہ تم کون ہو ؟ انتہا پسند یا ایک عام مسلمان؟ میں انتہا پسند نہیں بننا چاہتا ، لیکن اگر میں اور اس ملک کے مسلمان 75 برسوں کے دوران انتہا پسند بن گیے ہیں ، تو یہ واقعی میں ڈراؤنا ہے ۔ انتہاپسندی تباہی کی طرف لے جاتی ہے ، اور اشعر نجمی نے اپنے اداریے میں تباہی کا کچھ حال لکھا بھی ہے ۔ ’ شناخت کے حوالے سے ہندوستانی مسلمانوں کی شہریت پر سوالیہ نشان ، اور مسلمانوں کی دفاعی پوزیشن ۔ جنگ آزادی میں شرکت اور دستور ہند کی دہائی ، جس پر اب کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں ۔‘
کیوں ایسا ہوا ہے؟ یہ بھی ایک سوال ہے ۔ اشعر نجمی قصور وار اردو کی اُن کتابوں کو قرار دیتے ہیں جو ’ بے جا فخر و مُباہات سے پر ہیں ‘ ، جن میں ’ جواز جوئی کی کوشش ہی نظر آتی ہے ‘ اور ’ اسباب و علل کو بطور دفاعی اسلحہ استعمال کیا جاتا ہے ‘ ، نیز ’ مذہبی جماعتوں ، مسالک اور فرقوں کا محاسبہ ‘ نہیں کیا جا سکتا اور ’ کسی ایسے سیاسی لیڈر کے خلاف منھ نہیں ‘ کھولا جا سکتا ’ جو خود کو مذہب و ملت کا نمائندہ سمجھتا ہو ‘ ، کوئی ’ مسلمانوں کی تاریخ ، مُغلوں و سلاطین کے ظُلم و جبر ‘ کو ’ نمایاں نہیں کر سکتا ‘ ، ’ آپ حجاب کے سوال پر غیر مقبول رائے نہیں دے سکتے ‘ ، ’ آپ طلاق ثلاثہ پر گفتگو نہیں کر سکتے ، مسلم پرسنل لا پر سوال نہیں اٹھا سکتے جو اکیسویں صدی میں کسی بھی طرح سے مطابقت نہیں رکھتے ، حتیٰ کہ آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اُردو کے محاسبے کے علاوہ وقف بورڈ اور آل انڈیا حج کمیٹی کی بدعنوانیوں کی گرفت تک نہیں کر سکتے ۔‘
اشعر نجمی مسلمانوں کی مذکورہ ’ خامیوں ‘ کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ’’ ہم اب تک تذبذب کی سماجیات میں جی رہے ہیں ۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ مسلمان بھول گیے کہ وقت کے ساتھ انہیں بدلنا ہے ۔ اداریے میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد ، 1857 کے ہنگامے اور تقسیم ہند کے المیے کا ذکر ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ حالیؔ نے مسدس کے ذریعے اور علامہ اقبالؔ نے اپنے کلام سے احساس تفاخر اور عظمت و بڑائی کا ذکر کیا اور علامہ شبلی نعمانی نے ’ ہیروز آف اسلام ‘ پر کتابیں لکھ کر ’ ماضی کی عظمت کو اجاگر کرنے اور شاندار روایات کی یادیں تازہ کرنے ‘ کا کام کیا ۔ سوال یہ ہے کہ اب مسدس اور اقبالؔ اور شبلی کو کتنے ہندوستانی مسلمان پڑھتے ہیں ، یہ تو اب نصاب سے بھی غائب ہیں ، پھر ان کے اثرات کیوں برقرار ہیں ؟ مزید سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ ادیبوں کے کارناموں کو بس یہ الزام لگا کر بیک قلم جنبش رد کیا جا سکتا ہے کہ ’’ ماضی کی عظمت اور شان و شوکت کے تذکروں کا اثر یہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں جھوٹی انا اور بے جا فخر و مباہات کے احساسات پیدا ہوئے؟ ‘‘ اس سوال کا جواب اس خاص نمبر کے پڑھنے والے دیں گے ، لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ ’ اثبات ‘ کے اداریے سے کُلی اتفاق ہو نہ ہو اس اداریے نے مُسلمانوں کو وہ آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے ، جسے وہ دیکھنے کو تیار نہیں تھے ۔ یہ آئینہ دیکھ کر ڈر لگتا ہے ، لیکن آگے اشعر نجمی نے جو کچھ کہا ہے اُس سے امید بھی بندھتی ہے ۔ آر ایس ایس اور راشٹر واد کے پروپیگنڈے نیز ہندو راشٹر کے قیام کے نعرے کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں : ’’ حالاں کہ پانی سر سے اُونچا گزر چکا ہے لیکن اس کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے وجود کو برقرار رکھا ہے ، اگرچہ بابری مسجد کے انہدام اور گجرات کے فسادات نے مسلمانوں کو بے انتہا نا امید کر دیا ہے ، مگر ان کے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی جد و جہد کریں ۔ لیکن انہیں یہ کام بطور علیحدگی پسند مسلمان کے نہیں بلکہ مرکزی دھارے سے جڑے ہوئے ہندوستانی مسلمان کی حیثیت سے کرنا ہوگا ، چونکہ فاشزم جِسے نشانہ بناتا ہے ، اُسے پہلے اکیلا کر دیتا ہے ، پھر اس پر حملہ کرتا ہے ۔‘‘ اس اداریے کی روشنی میں مسلمانوں کو مرکزی دھارے میں رہتے ہوئے جد و جہد کرنی ہے اور فاشزم کے حملے سے بچنا ہے ۔
اِس خاص نمبر میں بہت کچھ ہے ، مسلمانوں کے 75 سالوں کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ اور تجزیہ ، ان کے استحصال کا حال اور مسلمانوں کے اداروں اور مسلم قائدین کی بدعنوانیاں اور بے ایمانیاں ۔ ادب جو 75 سالوں کے حوالے سے ہے ۔ پہلی جلد پانچ ابواب پر مشتمل ہے : ’ پُرانا ہندوستان پُرانا مسلمان ‘ اور اسی حوالے سے فکشن ، دوسرا باب ’ پُرانا مسلمان نئے عذاب ‘ اور اسی موضوع پر فکشن ، تیسرا باب ’ مزاج و معاشرت ‘ نیز فکشن ، چوتھا باب ’ آبادی کا شوشہ ‘ اور فکشن ، پانچواں باب ’ نیا ہندوستان نیا قانونِ شہریت ‘ اور فکشن ۔ دوسری جِلد آٹھ ابواب پر مشتمل ہے ، ان کے ساتھ فکشن اور کچھ نظمیں ہیں ۔ چھٹا باب ’ تعلیم اور تعلیمی ادارے ‘ ، ’ ساتوں باب ’ سیاست و قیادت ‘ ، آٹھوں باب ’ مسلم معیشت اور روزگار ‘ ، نواں باب ’ مسلم پرسنل لاء اور یکساں سول کوڈ ‘ ، دسواں باب ’ وقف بورڈ اور قومی میراث ‘ ، گیارہواں باب ’ مسلم عورتیں ‘ ، بارہواں باب ’ پسماندہ مسلمان ‘ ، تیرہواں باب ’ زبان و صحافت ‘ ، اور اس کے ساتھ ’ حاصلِ کلام ‘ ۔ ’ یہ خاص نمبر بہت اہم ہے لہذا لوگ اسے ضرور پڑھیں تاکہ وہ سب کچھ اس کے آئینے میں نظر آجائے جو نظروں سے پوشیدہ رہا ہے ۔ دو جلدوں کا یہ خاص نمبر 2000 روپے میں موبائل نمبر 9372247833 اور 9910482906 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

You may also like