مترجم: احمد حسین
سن اشاعت: 2024
صفحات: 164
” نوائے سروش” زندگی کے اسرار ورموز سے پردہ اٹھانے والی خلیل جبران کی ایک انوکھی تخلیق (The Prophet) کا سلیس اور عمدہ ترجمہ ہے۔ مترجم جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں عربی زبان و ادب کے ریسرچ اسکالر ہیں لیکن اردو اور انگریزی زبان وادب پر بھی عبور حاصل ہے،جس کی بہترین مثال” نوائے سروش” ہے۔
کتاب پر مرکز برائے عربی و افریقی مطالعات جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی کے صدر، پروفیسر مجیب الرحمن صاحب کی گراں قدر تقریظ ہے جس میں انہوں نے مصنف کے علمی و ادبی کمالات اور اس فن پارے کی قدر و اہمیت پر روشنی ڈالی ہے ساتھ ہی مترجم کی اس عمدہ کاوش کو ایک مثال قرار دیتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"احمد حسین نے اس ادبی شہہ پارے کو اردو میں منتقل کیا ہے۔ ایک ہونہار اور ذہین طالب علم کی کاوش کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مجھے خوشی محسوس ہورہی ہے۔ ان کی یہ کاوش نظم کی ترجمہ نگاری کی بہترین مثال ہے،اگر چہ ترجمہ نثر میں ہے لیکن یہ نظم کی چاشنی لئے ہوئے ہے جو بذات خود ایک حسن ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جبران کی تخلیقات کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا نہایت ہی دشوار کام ہے، لیکن احمد حسین کا ترجمہ پڑھنے کے بعد مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ اس ترجمے میں بھی وہ اثر اور قوت موجود ہے جو قاری کے دل پر گہرا اثر چھوڑ سکے”۔
کتاب کے آغاز میں مترجم نے بھی اپنے آٹھ صفحات کی تمہید میں خلیل جبران کا جامع تعارف پیش کیا ہے۔ النبی کے دوسرے تراجم کا ذکر اور نوائے سروش کو منظر عام پر لانے کی وجہ بھی بیان کی ہے۔
دنیائے علم وادب میں خلیل جبران محتاج تعارف نہیں ہیں۔ (یہ الگ بات کہ میری طرح بہت سے معصوم قاری ایک زمانے تک ان کے نام کی وجہ سے انہیں مسلمان بھی سمجھتے رہے ہوں گے) ایک شاعر، فلسفی اور دانشور کی حیثیت سے ان کی ایک منفرد شناخت ہے۔ ان کے اقوال زریں، دانائی اور حکمت سے بھرپور جملے ہم سب کی نگاہوں سے عموماً گزرتے ہیں۔ یہ کتاب بھی ایسی ہی دانائی و حکمت، نصیحت و موعظت کا ایک حسین گلدستہ ہے جو 29/ نظموں پر مشتمل ہے، گرچہ ان نظموں کے موضوعات مختلف ہیں لیکن سب میں ایک معنیاتی ربط و تسلسل ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ مصنف نے ڈرامائی انداز میں محبت، شادی، اولاد، جود وسخا، اکل وشرب، جد وجہد، خوشی اور غم، مکان، لباس، خرید و فروخت، جرم وسزا، قوانین، آزادی، منطق اور جذبات، درد، خود شناسی، تعلیم، دوستی، گفتگو، وقت، نیکی اور بدی، عبادت، لطف، حسن، مذہب اور موت کے متعلق اپنے فلسفیانہ اور حقیقت پسندانہ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مصنف واحد غائب راوی کی شکل میں ہے اور مرکزی کردار ایک مصطفیٰ نامی شخص ادا کررہا ہے جو سمندری سفر طے کرکے جہاز سے شہر "اور فالیس” کے ساحل پر اترتا ہے۔ اہل شہر جو ان سے بے انتہا عقیدت و محبت رکھتے ہیں سب ان کے استقبال کے لیے امنڈ پڑتے ہیں اور ایک معبد کے باہر وسیع میدان میں سب ان کے گرد جمع ہوتے ہیں اور پھر مختلف پیشوں سے وابستہ لوگوں کی طرف سے اسی نوعیت کے سوالات ان پوچھے جاتے ہیں اور مصطفیٰ بہت ہی عالمانہ، فلسفیانہ اور مدبرانہ انداز میں ان سب کا جواب دیتا ہے۔ تمام جوابات اتنے دلچسپ ہیں کہ انسان انہیں بار بار پڑھنا اور سننا چاہے۔ قارئین جب کتاب کا مطالعہ کریں گے تو انہیں اس بات کا اندازہ ہوگا۔ یہاں بطور مثال مختلف مقامات سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :
"المترا نے کہا: ہمیں محبت کے بارے میں بتائیں.
مصطفیٰ: محبت تمہارے سر پر تاج رکھتی ہے اور یہی تمہیں سولی پہ بھی چڑھاتی ہے. محبت اگر تمہیں حیات دوام بخشتی ہے تو وہ تمہارا عرصہ حیات تنگ بھی کرتی ہے. محبت ایک طرف درخت کی اوٹ میں اگی ہوئی گداز ٹہنیوں سے اٹھکھیلیاں کرتی ہے تو دوسری جانب وہ تمہارے شجر حیات کی طاقت ور جڑوں کو کمزور بھی کرتی ہے "۔
"ایک صاحب ثروت نے پوچھا: ہمیں سخاوت کے بارے میں کچھ نصیحت کریں۔
مصطفی: جو کچھ آج تمہارے پاس ہے لامحالہ ایک دن دوسرے کی طرف منتقل ہوجائے گا، لہٰذا آج ہی سے دینے کی عادت ڈالو، تاکہ عطا کرنے کی کیفیت اور سرور کو تم خود محسوس کرسکو، ایسا نہ ہوکہ یہ عمل تمہارے وارثوں کے حق میں لکھا جائے اور وہ اس خوشی کو محسوس کریں”۔
ایک ضعیف العمر شخص نے دریافت کیا : ہمیں کھانے پینے کے بارے میں کچھ نصیحت کیجیے ۔
مصطفٰی: جب کبھی تم کسی جانور کو ذبح کرو تو دل ہی دل میں اس سے کہو جس خالق کے حکم سے میں تمہیں ذبح کررہا ہوں میری گردن پر بھی اس خالق کے حکم سے چھڑی پھرے گی اور میں بھی ایک دن فنا کے گھاٹ اترنے والا ہوں۔ بلاشبہ جس ذات نے تمہیں آج میرے قابو میں دیا ہے وہی ذات کل مجھے مجھ سے قوی تر کے حوالے کردے گا "۔
اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے نہ جانے کیوں مقامات حریری کے مصنف، علامہ حریری کا تخلیق کردہ شاہکار کردار” ابوزید سروجی” بار بار یاد آتا رہا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ مصطفیٰ اور ابو زید سروجی ان دونوں بے مثال کرداروں میں مجھے کچھ چیزیں مشترک نظر آئیں۔
جبران کے اس شاہکار کے دنیا کی مختلف زبانوں کے ساتھ اردو زبان میں بھی کئی ترجمے ہو چکے ہیں۔ احمد حسین صاحب کی یہ” نوائے سروش” ان میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ یہ بات بغیر کسی تأمل کے کہی جاسکتی ہے کہ اس کتاب کے لیے شاید اس سے بہتر نام اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ اب شیکسپیئر کے الفاظ میں کوئی یہ نہ کہے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ نام میں بہت کچھ رکھا ہوتا ہے یہ نام رکھنے اور اس کے پس منظر پر غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں۔ النبی اور نوائے سروش میں بڑی گہری مناسبت ہے۔ غالب کے جس شعر سے یہ نام اخذ کیا گیا ہے میں سمجھتا ہوں یہ کتاب اس شعر کی سب سے اچھی تشریح ہے۔ دیگر تمام تراجم کا تقابلی موازنہ نہ کرکے صرف یہ دیکھا جائے کہ اس کتاب کے لیے کونسا نام سب سے موزوں ہے جو موضوع کا مکمل احاطہ کررہا ہے تو "نوائے سروش” سر فہرست آئے گا۔ سب سے پہلے تو کتاب کے نام کے اس حسین انتخاب پر مترجم کو داد ملنی چاہیے ۔ ہم دیں یا نہ دیں غالب تو ضرور داد سے نواز رہے ہوں گے اور زیر لب مسکراتے ہوئے اپنا یہ شعر گنگنا رہے ہوں گے :
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
کتاب میں حکمت و دانائی کی باتیں جس اسلوب اور جن الفاظ میں پیش کی گئی ہیں پڑھتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی یہ کوئی نوائے سروش ہے. متن جتنی دلچسپ ہے اس کا ترجمہ بھی اس سے کسی طرح کم نہیں ہے. عموماً ترجمے میں اصل متن کے فطری بہاؤ اور اس کے رنگ وآہنگ کو قائم رکھ پانا بڑا مشکل امر ہوتا ہے اور ایسے میں تو یہ مشکل اور بڑھ جاتی ہے جب وہ متن کسی نامور ادیب کا قیمتی فن پارہ ہو مگر مترجم نے اس مشکل کو اس مہارت سے حل کیا ہے کہ کتاب پڑھتے ہوئے کہیں ترجمے کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ موزوں لفظیات و تراکیب کا استعمال اور سلاست و روانی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جبران نے اسے اردو زبان میں ہی لکھا ہے۔ اس کی دلکشی کا یہ عالم ہے کہ ابھی کئی کتابیں راقم کے پاس تبصرے کے لیے ہیں مگر صدام حسین مضمر صاحب کے شعری مجموعے کے بعد جب میں نے اس کتاب پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے کے لیے اسے اٹھایا تو مکمل کرکے ہی دم لیا۔ اس کے موضوع اور اسلوب میں کوئی مقناطیسی کیفیت ہے جو قاری کو جکڑ لیتی ہے اور اس وقت تک نہیں چھوڑتی ہے جب تک خود کو پڑھوا اور منوا نہیں لیتی ہے۔
"کتاب کا چونکہ یہ پہلا ایڈیشن ہے شاید اس لیے اس میں کتابت/ٹائپنگ کی مجھے کچھ غلطیاں نظر آئیں۔” صرف اتنا کہہ دینا کافی تھا لیکن میں ان غلطیوں کی جانب اشارہ کردینا چاہتا ہوں وہ اس لیے کہ مترجم نے بڑی تاکید کے ساتھ یہ بات کہی تھی کہ کہیں کچھ خامی نظر آئے تو نشان دہی ضرور کیجیے گا تاکہ دوسرے ایڈیشن میں اس کی تصحیح کردی جائے. میں ذیل میں صفحات کے ساتھ ان سطور کی نشان دہی کئے دیتا ہوں جہاں کوئی لفظ چھوٹ گیا ہے یا زائد ہوگیا ہے۔ درج ذیل سطور پر نظرثانی کرنے پر آپ خود سمجھ جائیں گے :
صفحہ 9، سطر 2 اور 10
صفحہ 10 سطر 8 اور آخری سطر
صفحہ 18 سطر 12
صفحہ 19 سطر 8
صفحہ 20 سطر 15
صفحہ 23 سطر 7
صفحہ 33 سطر 3 اور 9
صفحہ 53 سطر 6
صفحہ 72 سطر 4
صفحہ 88 سطر 5
صفحہ 102 سطر 10
صفحہ 122 سطر 13 اور 18
صفحہ 149 سطر 17
صفحہ 152 سطر 16
یہ چند کتابت کی غلطیاں راہ پاگئی ہیں جس جانب اشارہ کیا گیا۔ ممکن ہے غلطیوں کی نشان دہی میں مجھ سے غلطی ہوگئی ہو اگر نہیں تو پھر امید ہے اگلے ایڈیشن میں یہ دور ہو جائیں گی. تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کتاب کا سر ورق نہایت ہی دیدہ زیب اور طباعت بہت عمدہ ہے۔ ایک اور چیز جواس کتاب میں مجھے بہت بھلی اور منفرد لگی وہ یہ کہ ہر عنوان کے ساتھ ایسا خوبصورت اسکیچ بنایا گیا ہے جس میں مکمل موضوع کا عکس نظر آتا ہے یعنی الفاظ کے ساتھ علامت کا بھی فنکارانہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اس لائق ہے کہ اس کا مطالعہ کیا جائے۔ ہر باذوق قاری کی میز پر اس کا ایک نسخہ ضرور ہونا چاہئے۔ یہ کتاب الہام پبلیکیشنز، لکشمی نگر، نئی دہلی سے آپ حاصل کرسکتے ہیں. یا اس کے لیے مترجم کے درج ذیل نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے:
99716 73891