( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
یہ عہد گوڈسے کا ہے ۔ عام لوگوں کے لیے ، اس عہد میں باپو مہاتما گاندھی کو یاد کرنا آسان نہیں ہے ۔ لیکن وہ جو ’ دل سے ‘ گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کی پُجارن کو معاف نہ کرنے کا اعلان کرتے ہیں ، لیکن ساتھ گوڈسے کے بھکتوں کا دیتے ہیں ، اور وہ جو ’ دل سے ‘ گوڈسے ہی کے پجاری ہیں ، اور ساری دنیا کو دکھانے کے لیے گاندھی جی کے نام کی مالا جپتے ہیں ، آج ۲، اکتوبر کو ’ گاندھی جینتی ‘ کے موقع پر آسانی کے ساتھ گاندھی جی کو یاد بھی کریں گے اور اُن کی سمادھی پر جاکر ، پھول نچھاور کر کے ، انہیں شردھانجلی بھی اَرپِت کریں گے ۔ کیسا تضاد ہے یہ کتھنی اور کرنی کا ! لیکن یہ مجبور ہیں کہ گوڈسے کو چاہنے کے باوجود یہ گاندھی جی کا نام لیں ۔ گاندھی کے نام کے بغیر ان کی دال نہیں گل سکتی ۔ دنیا آج بھی گاندھی کو جانتی ہے ، اور اگر گوڈسے کا نام لیا بھی جاتا ہے تو گاندھی جی کے قاتل کی حیثیت سے ۔ ایک کی دنیا قدر کرتی ہے ، احترام سے نام لیتی ہے ، اور دوسرے پر نفریں بھیجتی ہے ۔ یہ گوڈسے کون تھا ؟ اس نے گاندھی کو کیوں قتل کیا تھا ؟ یہ اہم سوالات ہیں جن کے جواب جاننا ضروری ہیں ، کیونکہ یہ ’ ہندوتوادی‘ یہ ’ یرقانی ٹولہ‘ گوڈسے کو ’ ہیرو ‘ اور گاندھی جی کو ’ ویلن ‘ بنانے کے لیے کوشاں ہے ، اور ایسے میں ان سوالوں کے جوابوں سے عدمِ واقفیت کا مطلب ’ یرقانیوں‘ کے پروپگنڈے کے زیراثر آنا اور ان کے جال میں پھنسنا ہوگا ۔ گوڈسے کا یہ ماننا تھا کہ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان میں ’ اقلیتوں ‘ یعنی ہندوؤں اور سکھوں کا جو قتل عام ہوا تھا اُسے روکا جا سکتا تھا ، اگر گاندھی اور اُس وقت کی حکومت اس کی کوشش کرتی ۔ عدالت میں گوڈسے کا بیان ہے کہ قتلِ عام کی مذمت کرنے یا اس پر احتجاج کرنے کی بجائے گاندھی جی برت رکھ رہے تھے ۔ گوڈسے جانتا تھا کہ گاندھی جی کا قتل کرکے وہ خود کو برباد کرلے گا اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگیں گے ، لیکن اس نے یہ بھی سوچا تھا کہ ایسا ہوا تب بھی گاندھی جی کا منظر سے ہٹ جانا ملک کے لیے بہتر ہوگا ، عملی ہوگا اور ملک بدلہ لینے کے قابل ہوگا ، اور اس کی مسلح افواج طاقت ور ہوں گی ۔ اس طرح پاکستان کو جواب دینا ممکن ہوگا ۔ گوڈسے کا ماننا تھا کہ گاندھی جی نے برت رکھ کر ، حکومت پردباؤ بنایا اور وہ فنڈ پاکستان کو سونپنے پر مجبور کیا جو کشمیر کی جنگ کے نتیجے میں منجمد کر دیا گیا تھا ۔ گوڈسے کا یہ ماننا تھا کہ گاندھی اپنی باتیں زور دے کر کانگریس سے منوا لیتے ہیں ، اس لیے ان کا منظر سے ہٹنا ملک کی سیاست کے لیے اچھا ہی ہوگا ، ہندوستان اپنے مفادات کی حفاظت کرسکے گا ۔ گوڈسے کا کہنا تھا کہ وہ گاندھی جی کے نظریۂ رواداری اور مذہبی بھائی چارے کو صحیح نہیں سمجھتا تھا ۔ اُس کے مطابق یہ عدم تشدد کا نظریہ ہی تھا جس نے پاکستان کو ہندوستان سے علیحدہ کر دیا تھا ، اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں برباد کر دی تھیں ، تشدد کا جواب تشدد ہی سے دینا درست ہے ۔ گوڈسے نواکھالی میں مسلم کش فسادات رُکوانے کے لیے گاندھی جی کے برت سے بھی ناراض تھا ۔ ان نظریات کو لے کر گوڈسے تو پھانسی پر چڑھ گیا ، لیکن اپنے پیچھے اپنے نظریات چھوڑ گیا ۔ اور آج بھی اُس کے نظریات کو ماننے والے گاندھی جی کو گوڈسے ہی کی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔ گوڈسے کی مورتیاں بن گئی ہیں ، شکن پوجا جیسی سادھوی کہلانے والیاں گاندھی جی کے قتل کا ڈرامہ رچتی اور ان کی تصویر پر گولیاں چلاتی ہیں ، سادھوی پرگیا جیسی ملزمائیں گاندھی کی ہجو کرتی اور گوڈسے کا گن گان کرتی ہیں ۔ یوں تو گوڈسے کے نام لیوا ہر دور میں رہے ہیں ، لیکن انہیں جو آزادی آج ملی ہے وہ کبھی نہیں ملی تھی ۔ گاندھی جی اہنسا کے ، عدمِ تشدد کے پیامبر تھے ، اور یہ تشدد کے پجاری ہیں ۔ ہر وہ عمل جو گاندھی جی کو عزیز تھا ، وہ اِنہیں ناپسند ہے ۔ آج گاندھی جینتی پر لوگ گاندھی جی کو یاد کرتے ہیں ، اور یاد کرنے والے گوڈسے کے بھکتوں کے مقابلے کہیں زیادہ ہیں ۔ ضروری ہے کہ گاندھی جی کے نظریۂ رواداری اور بھائی چارے کے پیام کو پھیلایا جائے ۔ گاندھی کے پیام کا پھیلنا گوڈسے کے نظریے کی شکست ہوگی ، اور اس کے عہد کا خاتمہ بھی ۔ راہل گاندھی نے سچ ہی کہا ہے کہ آج گوڈسے اور گاندھی کے نظریےکی لڑائی ہے ۔ اس لڑائی میں گوڈسے کے نظریہ کا غالب آ نا گاندھی کے ایک اور قتل کے مترادف ہوگا ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)