لیکچرار، شعبہ اردو،گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور
شاعری نثر سے مختلف ہے۔ شاعری کیفیت کو ،جذبے کو اور احساس کو گداز،مترنم اورپُراثر بناتی ہے جبکہ نثر میں یہ لطافتیں از خود ذہن پر مرتسم ہونے کی بجائے شعوری طور پر انھیں مشاہدے کے زور پر ذہن کے دوش پر سوار کرنا پڑتا ہے۔ دُنیا کی سب سے پہلی زبان میں جس تخلیق کار نے جو بھی لکھا ہو گا وہ شاعری ہوگی نثر نہ ہوگی۔ میں یہ تاثر دینے کی کوشش نہیں کر رہا کہ نثر شاعری سے کم تر چیز ہے اور شاعری ہی انسانی جذبات و احساسات کے اظہار کا اصل بیانیہ ہے۔
شاعری میں جذبے اور احساس کو مشاہدے کے زور پر تجربے کی واردات نصیب ہوتی ہے۔ شعرا کی زندگی کا جملہ نظام مشاہدے کی بازگشت پر منحصر ہوتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوا کہ شاعر نے جو کچھ لکھا اُسے بعینہ تجربے سے بھی گزارا ہو۔ شعرا کے کہے ہوئے جملہ کلام میں چالیس فیصدی کیفیات تجربے اور ساٹھ فیصدی مشاہداتی ہوتی ہیں ۔ مشاہدات و تجربات کے سنگم سے شاعری پھوٹتی ہے اور شعر کے تاثر کو پُر اثر اور لطیف ترین رمز سے شناسا کرتی ہے۔
نثار کی نسبت شاعر کے پاس اظہارِ جذبات کے لیے بہت سے موزوں ہتھیار ہوتے ہیں۔ علم بیان و بدیع کی ذیلی اصناف کا ایک نگار خانہ شاعر کو میسر ہے جس سے شاعر بر وقت پورا کام لیتا ہے جس سے اس کا کہا ہوا ہزاروں دلوں کی دھڑکن بن جاتا ہے۔ زبان الفاظ کا خزینہ ہے اور شاعر احساس کا گنج ہائے گراں مایہ ہے۔ دونوں کے باہم اتصال سے اظہار جنم لیتا ہے۔ اظہار کی ترسیل فن سے عبارت ہے جسے سیکھا جاتا ہے اور ریاضتِ پیہم سے اس میں فنائیت حاصل کی جاتی ہے۔
کلاسیکی شعرا کی عمر اسی فن کی اسیری میں گزر جاتی تھی۔ شاعر کا مطمع نظر الفاظ ہوتے تھے۔ شاعر الفاظ کے دروبست سے کائنات کے جملہ موضوعات کا احاطہ کر لیتا تھا۔ شاعر الفاظ کو شعر میں نگینے کی طرح مرصع کر لیتا تھا۔کیا وجہ ہے کہ ہزاروں برس قبل کے لکھے ہوئے اشعار آج کے معلوم ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ شاعر نے کیفیت کے بعینہ الفاظ کا انتخاب کیا اور شعری لوازمات سے اس کو مرصع کیا جس سے اس کی طبعی عمر میں ہزاروں برس کی وسعت در آئی۔
محمد قلی قطب شاہ سے لے کر مرزا داغ دہلوی تک بیان وبدیع کے جملہ شعری لوازمات کو شعرا نے اپنے کلام میں برتا ہے اور ایک سے ایک نیا انداز اختیار کیا ہے جس سے یہ شاعر استادِ زمانہ کہلائے اور ان کا کہا ہوا مرورقت کے ساتھ متاخرین کے لیے سند بن گیا ۔ داغ دہلوی سے ناصر کاظمی تک یہ سلسلہ تسلسل سے جاری ہے اور ناصر سے اکیسویں صدی کے شعرا یعنی شوکت فہمی، تہذیب حافی، شارق کیفی،پروفیسر فیس بریلوی تک بیان و بدیع سے دلچسپی کا عنصر فراواں دیکھا جا سکتا ہے۔
اس مقالہ میں ناصر کاظمی کی شعری تراکیب کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ناصر کاظمی نے کس طرح علم بدیع کی ذیلی صنف یعنی تراکیب کو اپنے کلام میں برتا ہے جس سے شعری حسیت اور فکر کی اُپج میں بلند قامت اضافہ ہوا ہے۔ ناصر کاظمی نے اُردو غزل کو جو وقار بخشا ہے وہ ان کی اردو غزل کو دین ہے۔ صدیوں بعد ایسا استاد شاعر پید اہوتا ہے جو زبان کے خم اور کجلاہی کو نک سکھ سے درست کرتا ہے۔ ناصر کاظمی کی غزلیات میں علم بیان و بدیع کے جملہ مظاہر کا التزام ملتا ہے۔ ناصر نے تشبہیات و استعارات سے پورا کام لیا ہے۔ ناصر نے محاورات کا ایک خزنیہ غزلیات کے دامن میں پنہاں کر دیا ہے۔ ناصر نے فنِ تلمیح کو عجب انداز میں برتا ہے۔ ناصر نے منظر نگاری کے لمس کو آنکھوں کی تمازت سے سُلگتا ہوا دکھایا ہے۔ ناصر نے تمثال نگاری اور لفظی ہیئت کی ابلاغی وسعت کو تابناکی عطا کی ہے۔ ناصر نے غزل کے مجموعی نظام کو اپنے انفرادی تشخص سے اُستوار کیا ہے۔
ناصر کاظمی نے جو کچھ سنا،سمجھا، سہا اور جھیلا وہ سب کچھ سادہ،آسان اور سہل ممتنع میں کہہ دیا۔سادگی،سلاست اور روانی کے معامے میں ناصر نے میر تقی میر کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔یہ اشعار دیکھیں اور سوچیں کہ ناصر نے کس طرح گنجلک اور گہری رمزیت سے مملو کیفیت کو سادہ،آسان اور رواں انداز میں بیان کیا ہے ۔
؎ اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود/محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی(۱)
؎ کیادن مجھے عشق نے دکھائے/اک بار جو آئے پھر نہ آئے(۲)
؎ دل ترے بعد سو گیا ورنہ/شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ(۳)
؎ تو کون ہے تیرا نام کیا ہے/کیا سچ ہے کہ تیرے ہو گئے ہم(۴)
؎ دیکھ محبت کا دستور/تو مجھ سے میں تجھ سے دور(۵)
ناصر کاظمی نے اُردو غزل کو نہ صرف موضوعات کے اعتبار سے تازگی اور جد ت عطا کی بلکہ بیان و بدیع یعنی تشبیہاستعارہ،کنایہ،مجاز مرسل، تلمیح،ترکیب ،محاورہ و روزمرہ اور دیگر شعری تلازموں سے اسے مرصع کیا ہے۔ ناصر کاظمی کی غزلیات میں شعری تراکیب کا ایک جہان نظر آتا ہے جس سے ناصر کی زبانِ اُردو سے دلچسپی اور اس کی صرف و نحو اور اوزوان وبحور سے شناسائی کا پتہ چلتا ہے۔
ترکیب بظاہر دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے جس کا مقصود شعری میں موجود کیفیت کی توضیح کا ابلاغ آسان،رواں اور پُر اثر کرنا ہوتا ہے۔ شاعر کے پاس زبان کے توسط سے بہت کچھ موجود ہوتا ہے جس سے وہ شعر میں کیفیت کو کلامیابی سے ڈھالنے یعنی مرقع کرنے کی کامیاب کوشش کرتا ہے۔ شاعر جذبے کی شدت کے پیشِ نظر تشبیہ،استعارہ،کنایہ، محاورہ، تلمیح، روزمرہ، ترکیب کا التزام کرتا ہے۔ یہ صانع بدایع اساتذہ کے کلام سے مستعار بھی لیے جاتے ہیں اور شاعر خود بھی انھیں تراشتا ہے ۔ شاعر کو الفاظ کے دروبست اور اس کی تعمیر وتشکیل و بُنت میں آزادی ہوتی ہے وہ الفاظ کو اپنے مطابق وضع کر سکتا ہے،اس کے خارجی روپ سروپ کو تبدیل کر سکتا ہے اور اس سے نیا معنی بھی اخذ کر سکتا ہے۔
ناصر کاظمی کے ہاں زبان کی ان باریکیوں سے کماحقہ واقفیت کا مظاہرہ ملتا ہے۔ ترکیب کا کام بھی تشبیہ ،استعارہ اور تلمیح ایسا ہوتا ہے۔ ترکیب سے شاعر نئے مفہوم تراشتا ہے اور شعر کی خارجی شکل و صورت کو مہمیز کرتا ہے جس سے خیال کی ترسیل نستباً آسان اور پُر اثر ہوتی ہے۔
ایک لفظ تنہا کوئی معنی دیتا ہے جب کہ اسی لفظ کو ایک اور لفظ سے متصل کر دیا جائے تو وہ ایک سے زیادہ معنی دینے لگ جاتا ہے۔مثال کے طور پر لفظ آسمان کو لے لیں۔ آسمان سے مراد ایک چھت تصور میں آتی ہے جو رب تعالیٰ نے ہمارے سر پر آویزں کر رکھی ہے۔ اب اگر اس لفظ کے ساتھ نیلا لفظ متصل کر دیں تو نیا معنی وضع ہو جائے گا۔ نیلا آسمان سے مزید کئی معنی نکل آئے ہیں۔ اسی طرح آسمان کے ساتھ تقدیر کا لفظ متصل کر دیں تو بات عقیدے تک جا پہنچتی ہے۔ تراکیب کا یہ عمل زبان کی ترسیل اور ابلاغ کی تحدید میں وسعت پیدا کرتا ہے۔ شعرا نے اپنے کلام میں جا بجا تراکیب سے کام لیا ہے۔ اس معاملے میں میر تقی میر، آتش، ناسخ، غالب، ذوق، اقبال اور ناصر کاظمی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
کلاسیکی غزل گو شعر انے فارسی تراکیب کو کلام میں ترجیح دی ہے جبکہ ناصر کاظمی کے ہاں اردو الفاظ سے اردو تراکیب وضع کرکے کلام میں برتنے کا رجحان ملتا ہے۔ کلاسیکی شعرا کے کلام میں آبشارِ زندگی، آئینہ دل، باغِ دل، چادرِ مہتاب، محرابِ ابرو، اُمیدِ نخل،تیرِ آہ، تیغِ ابرو، خدنگِ آہ، ناوکِ مثزہ،ناقۂ محمل وغیرہ تراکیب کا کثرت سے استعمال ملتا ہے۔اس حوالے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
؎ صورتِ کاغذِ آتش زدہ جلتا ہے نصیرؔ/یہ مری آہِ شرر بار سے جل کر کاغذ(۶)
؎ اے مصحفیؔ! آتا ہے حالت پہ تری رونا/آنکھوں سے تری ہے یوں لختِ جگر جاویں(۷)
؎ دیکھا یہ ہم نے کوچہؐ خوبانِ دہر میں /خونِ شہید خنجرِ مژگاں سبیل تھا(۸)
؎ جب شبِ غم فرقت میں اے ناسخؔ نظر آیا مجھے /میں نے جھنجھلا کر خدنگِ آہ مارا چاند کو(۹)
؎ کب تلک پھیرے اسؔ لب ہائے تفتہ پر زباں؟/تابِ عرضِ تشنگی اے ساقیِ کوثر نہیں(۱۰)
؎ مثلِ کلیم ہوا گر معرکہ آزما کوئی/اب بھی درختِ طور سے آتی ہے بانگِ لاتخفف(۱۱)
ناصر کاظمی کے ہاں تراکیب کا نظام تواتر سے ملتا ہے ۔ناصر نے فارسی تراکیب سے بھی کام لیا ہے اور جہاں مناسب سمجھا وہاں خود سے تراکیب کو وضع بھی کیا ہے جس سے زبانِ اردو کی وسعت میں صحت مند اضافہ ہوا ہے۔ ناصر کاظمی کی زندگی کا منظر نامہ غم ولم کی داستان ِ ہجر سے تشکیل پایا ہے۔ ناصر نے زندگی کے جملہ مظاہر کو تجربے کی آنکھ سے دیکھا اور قلب کی گہرائی سے محسوس کیا۔ ان کی شاعری مشاہداتی نہیں بلکہ سرتا پا تجربے کی واردات ہے۔ ناصر کے ہاں قسم قسم کے شعری تجربات ملتے ہیں جس سے ناصر کی زبان فہمی کا پتہ چلتا ہے۔ ناصر کی شعری تراکیب کے فن سے گہری رمزیت کا نمونہ دیکھئے:
؎ مرا دل خوگرِ طوفاں ہے ورنہ/یہ کشتی بارہا ساحل سے گزری(۱۲)
؎ طناب ِ خمیہؐ گُل تھام ناصرؔ/کوئی آندھی اُفق سے آرہی ہے(۱۳)
؎ اگرچہ دل تری منزل نہ بن سکا اے دوست/مگر چراغِ سرِ رہگذار بھی تو نہیں(۱۴)
؎ نہ غم ِ زندگی نہ دردِ فراق/دل میں یونہی سی ہے طلب کوئی(۱۵)
؎ یہ عالمِ وحشت ہے تو کچھ ہو ہی رہے گا/منزل نہ سہی سر کسی دیوار سے مارو(۱۶)
ناصر کاظمی نے شعری تراکیب کا استعمال غزلیات متنوع انداز میں کیا ہے۔ ناصر کے پہلی شعری مجموعے برگِ نَے میں شامل تمام تراکیب کو ذیل میں الف بائی ترتیب سے ترتیب دیا گیا ہے جس سے فنِ ترکیب کی تفہیم میں مدد ملے گی ۔یہ ایک نیا کام ہے جو اس سے پہلے ناصر کاظمی کے حوالے سے سامنے نہیں آیا ہے ۔ اس مقالہ کی طوالت کے پیشِ نظر شعری تراکیب کو ایک شعری مجموعے یعنی برگِ نَے کی تراکیب تک محدود رکھا گیا ہے تاکہ ناصر کاظمی کی غزلیات میں موجود شعری تراکیب کے نظام پر ایک مفصل اشاریہ سامنے آسکے۔ تراکیب کے اس اشاریے کو ترتیب دیتے ہوئے یہ التزام ملحوظ رکھا گیا ہے کہ جس شعر میں ترکیب استعمال ہوئی ہے اُس شعر سے متصل غزل کے مطلع کا پہلا مصرع لکھ دیا گیا ہے تاکہ قارئین حوالہ سے مسفید ہو سکیں ۔
الف ممدودہ
آبِ رواں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ہر ادا آبِ رواں کی لہر ہے)
آبِ سخن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(مدت ہوئی کہ سیرِ چمن کو ترس گئے)
آتشِ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(چمن در چمن وہ رمق اب کہاں)
آتشِ غم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دورِ فلک جب دُہراتا ہے موسمِ گُل کی راتوں کو)
آخرِ شب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
آرائشِ ہستی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے)
آشنائے بہاراں۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
آلامِ ہستی۔۔۔۔غزل(۔۔۔ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں)
آمدِ صبح ۔۔۔۔غزل۔۔۔(فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے)
آوارگانِ غربت ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئی)
آوازِ دَرا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آئینہ لے کے صبا پھر آئی)
آوازۂ زنجیرِ صبا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
آوازۂ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(قہر سے دیکھ نہ ہر آن مجھے)
آوازِ پائے یار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی)
آہوئے رمیدہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بے حجابانہ انجمن میں آ)
آئینِ جہاں۔۔۔۔غزل۔۔۔(مایوس نہ ہو اُداس راہی)
آئینہ ٔ آبِ رواں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
الف مقصورہ
ابرِ سرِ کوہسار۔۔۔۔غزل۔۔۔(ٹھہرا تھا وہ گلعذار کچھ دیر)
ابلقِ شب۔۔۔۔غزل۔۔۔(ختم ہوا تاروں کا راگ)
ابلقِ صبح ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
احساسِ زیاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
احساسِ غم۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
اعتبارِ خزاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئی)
افسونِ انتظار۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
افسانہ ٔ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
المِ حُسن آفریں۔۔۔۔غزل۔۔۔ (ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی)
اُمیدِ پُرششِ غم۔۔۔۔غزل۔۔۔(گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے)
انجم ِ شب ۔۔۔۔ (فردیات۔ برگِ ریز۔ ص 186)
اندیشۂ جاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
اُنگشتِ حنائی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(اولّیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو)
اوامر و نواہی۔۔۔۔غزل۔۔۔(مایوس نہ ہو اُداس راہی)
اوراقِ گُل ۔۔۔۔ (فردیات۔ برگِ ریز۔ ص 185)
اہلِ چمن۔۔۔۔غزل۔۔۔(نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی مِلے)
اہلِ چمن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
اہلِ دُنیا۔۔۔۔غزل۔۔۔(گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے)
اہلِ دل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاس میں جب کبھی آنسو نکلا)
اہلِ غم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کس کے جلوؤں کی دُھوپ برسی ہے)
اہلِ وفا۔۔۔۔غزل۔۔۔(مایوس نہ ہو اُداس راہی)
ب
بارِ چمن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے)
برگِ آوارہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظارا)
برگِ آوارہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
برگِ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں)
برنگِ نکہتِ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئی)
برہمئی صحبتِ شب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کم فرصتئی خوابِ طرب یاد رہے گی)
بزمِ انجم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے)
بزمِ سحر گہی ۔۔۔۔ (فردیات۔ برگِ ریز۔ ص 186)
بعنوانِ طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کم فرصتئی خوابِ طرب یاد رہے گی)
بعنوانِ سبزۂ بے کار ۔۔۔۔ (فردیات۔ ۔۔۔نہ پھول جھڑتے ہیں ہم پر ن برق گرتی ہے۔۔۔ ص 186)
بقدرِ تشنہ لبی۔۔۔۔غزل۔۔۔(گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے)
بوئے آوارہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظارا)
بوئے خوں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دن پھر آئے ہیں باغ میں گُل کے)
بوئے گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے)
بہائے ہُنر ۔۔۔۔ (فردیات۔ ۔۔۔ویراں پڑا ہے میکدہ حُسنِ خیال کا۔۔۔ ص 188)
بے کیف و بے نشاط۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
بے کیفئی روز و شب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کرتا اُسے بے قرار کچھ اور)
بے منتِ خضرِ راہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بے منتِ خضرِ راہ رہنا)
بیگانۂ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
پ
پردہ ٔخامشی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا)
پردۂ شب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
پردہ ٔگل۔۔۔۔غزل۔۔۔(حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی)
پُرششِ آبلہ پا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے)
پُرششِ وفا۔۔۔۔غزل۔۔۔(گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے)
پُرششِ غم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں)
پیکرِ ناز۔۔۔۔غزل۔۔۔(کیا دن مجھے عشق نے دکھائے)
پیکرِ ناز ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئی پیکرِ ناز)
پیمانِ وفا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا)
پیمانۂ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
ت
تابِ درد ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ترے خیال کی لَو سے جاگ اُٹھی ہے تنہائی)
تابِ غمِ ہجر ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دم گھٹنے لگا ہے وضعِ غم سے)
تارِ گُلو ۔۔۔۔ (فردیات۔ برگِ ریز۔ ص 186)
تاکِ خُنک ۔۔۔۔غزل۔۔۔(شبنم آلود پلک یاد آئی)
ترکِ دُنیا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی)
ترکِ محبت۔۔۔ ۔غزل۔۔۔ (ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی)
ترکِ ملاقات ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بیگانہ وار اُن سے ملاقات ہو تو ہو)
تلاشِ آب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظارا)
تلافئی ستمِ روزگار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں)
تکلیفِ غمِ فراق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کرتا اُسے بے قرار کچھ اور)
تقریبِ وصالِ یار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کرتا اُسے بے قرار کچھ اور)
توفیقِ اضطراب۔۔۔۔غزل۔۔۔ (ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی)
تیشۂ عشق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
تہِ ابرِ رواں ۔۔۔۔ (فردیات۔ ۔۔۔نہ پوچھو کس خرابے میں پڑے ہیں۔۔۔ ص 188)
ٹ،ث:سے متعلقہ تراکیب کا استعمال نہیں ہوا
ج
جاں بلب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاد آتا ہے روز و شب کوئی)
جانِ بہار۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق کی جیت ہوئی یا مات)
جانِ صبحِ وطن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بے حجابانہ انجمن میں آ)
جانِ وفا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
جرسِ کاروانِ صبحِ طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ترے خیال کی لَو سے جاگ اُٹھی ہے تنہائی)
جرسِ دل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
جرسِ شوق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
جرسِ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظارا)
جرس ِ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے)
جذبِ عشق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کبھی کبھی تو جذبِعشق مات کھا کے رہ گیا)
جشنِ شبِ طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دم گھٹنے لگا ہے وضعِ غم سے)
جشنِ رامش گری ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
جشنِ طرب۔۔۔۔غزل۔۔۔(شہر در شہر گھر جلائے گئے)
جشنِ جم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(شہر در شہر گھر جلائے گئے)
جلوۂ جاناں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(مدت ہوئی کہ سیرِ چمن کو ترس گئے)
جہانِ مرغ و ماہی۔۔۔۔غزل۔۔۔(مایوس نہ ہو اُداس راہی)
جوشِ جنوں۔۔۔ ۔غزل۔۔۔ (ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی)
چ
چراغِ تہ داماں۔۔۔۔غزل۔۔۔(حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی)
چراغِ سرِ رہگذار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں)
چراغِ شامِ آرزو ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کبھی کبھی تو جذبِ عشق مات کھا کے رہ گیا)
ح
حاصلِ عشق۔۔۔۔غزل۔۔۔(حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی)
حاصلِ موسیقی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
حاصلِ ہستی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے)
حالِ پریشاں۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
حالِ دل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا)
حُسنِ بہار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
حُسنِ پشیماں۔۔۔۔غزل۔۔۔(حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی)
حُسنِ خیال ۔۔۔۔ (فردیات۔ ۔۔۔ویراں پڑا ہے میکدہ حُسنِ خیال کا۔۔۔ ص 188)
خ
خارِ تمنا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے)
خلشِ درد ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئی پیکرِ ناز)
خلشِ ناگہاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(لبِ معجز بیاں نے چھین لیا)
خلقِ خدا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دُور اِس تیری خاکداں سے دُور)
خلقِ خدا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے)
خمِ ابَرو ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاس میں جب کبھی آنسو نکلا)
خندۂ زخمِ وفا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے)
خوابِ طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سفرِ منزلِ شب یاد نہیں)
خوابِ طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی)
خونِ دل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(شہر در شہر گھر جلائے گئے)
خوگرِ طوفاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(صدائے رفتگاں پھر دل سے گزری)
خوفِ بے مہرئی خزاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے)
خیالِ ترکِ تمنا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظارا)
خیالِ تلافی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(خیالِ ترکِ تمنا نہ کر سکے تو بھی)
خیالِ خاطرِ دوست۔۔۔۔غزل۔۔۔(پہنچے گور کنار ے ہم)
خیالِ حُسن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظارا)
د
داد طلب۔۔۔۔غزل۔۔۔(مایوس نہ ہو اُداس راہی)
داغِ محبت ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بیگانہ وار اُن سے ملاقات ہو تو ہو)
دامِ گرفتاری ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
دردِ فراق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاد آتا ہے روز و شب کوئی)
دردِ ہجر۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
درِ میخانۂ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
دشتِ فلک۔۔۔۔غزل۔۔۔(ختم ہوا تاروں کا راگ)
دُشمنِ اربابِ وفا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے)
دلِ بے تاب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ بھی کیا شامِ ملاقات آئی)
دلِ بے قرار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں)
دلِ بے قرار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کرتا اُسے بے قرار کچھ اور)
دلِ حیرت زدہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
دلِ فسردہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ترے خیال کی لَو سے جاگ اُٹھی ہے تنہائی)
دلِ ویراں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دن پھر آئے ہیں باغ میں گُل کے)
دلِ وحشی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(خموشی اُنگلیاں چٹخا رہی ہے)
دُنیائے جسم و جاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دُور اِس تیری خاکداں سے دُور)
دورِ خزاں۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
دورِ زماں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے)
دورِ صبحگاہی۔۔۔۔غزل(مایوس نہ ہو اُداس راہی)
دورِ فلک ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دورِ فلک جب دُہراتا ہے موسمِ گُل کی راتوں کو)
دیارِ طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظارا)
دیدۂ حیراں۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
دیدہؐ بینا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
دیدۂ خونبار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی)
دیوانۂ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
ڈ۔سے متعلقہ تراکیب کا استعمال نہیں ہوا۔
ذ
ذریعئہ اظہارِ غم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں)
ذوقِ آوارگئی دشت و بیاباں۔۔۔۔غزل۔۔۔(حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی)
ر
رسم و راہِ عہدِ کُہن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(مدت ہوئی کہ سیرِ چمن کو ترس گئے)
رشکِ ارم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دن ڈھلا رات پھر آئی سو رہو سو رہو)
رشتہ جاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سفرِ منزلِ شب یاد نہیں)
روحِ خیال و جانِ مضمون۔۔۔۔غزل۔۔۔(کیا دن مجھے عشق نے دکھائے)
رزم گاہِ جہاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دن ڈھلا رات پھر آئی سو رہو سو رہو)
روزِ جزا۔۔۔۔غزل۔۔۔(او میرے مصروف خدا)
رقصِ شبنم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں)
رودادِ غم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ شب یہ خیال و خواب تیرے)
روزنِ زندان۔۔۔۔غزل۔۔۔(چمن میں پھر رسن و طوق و دار کے دن ہیں)
رنگِ آسماں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے)
رمِ آہو ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نِت نئی سوچ میں لگے رہنا)
رونقِ کاشانۂ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
رہِ حیات ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ترے خیال کی لَو سے جاگ اُٹھی ہے تنہائی)
رہِ طلب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
رہروِ آبلہ پا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
ریگِ رواں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دورِ فلک جب دُہراتا ہے موسمِ گُل کی راتوں کو)
ز
زخمِ وجود ۔۔۔۔غزل۔۔۔(خیالِ ترکِ تمنا نہ کر سکے تو بھی)
زُلفِ شب رنگ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(جب سے دیکھا ہے ترے ہات کا چاند)
زنجیرِ در ۔۔۔برگِ نے ۔۔۔(فردیات۔ برگِ ریز۔ ص۔185)
ژ۔سے متعلقہ تراکیب کا استعمال نہیں ہوا
س
سازِ ہستی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
ساعتِ ایجاب و قبول ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
سایۂ دیوار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی)
سایہ زُلفِ بُتاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ بھی کیا شامِ ملاقات آئی)
سایہ گیسُو ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاس میں جب کبھی آنسو نکلا)
سایہ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا)
سبزئہ خود رَو ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاس میں جب کبھی آنسو نکلا)
سرِ ابرِ رواں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے)
سراغِ نشانِ پا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وہ اِس ادا سے جو ٓئے تو کیوں بھلا نہ لگے)
سرِ ایوان طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(اولّیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو)
سرائے دہر ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ہر ادا آبِ رواں کی لہر ہے)
سرِ بازار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(شہر در شہر گھر جلائے گئے)
سرِ راہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ترے خیال کی لَو سے جاگ اُٹھی ہے تنہائی)
سرِ شاخِ شعاعِ اُمید ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
سرِ شام ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
سرِ شام ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
شرِ شام ۔۔۔۔ (فردیات۔ ۔۔۔کوئی جھونکا جو سرِ شام آیا۔۔۔ ص 186)
سفرِ شوق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
سرخئی افسانۂ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
سر مستیئہ انتظار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کرتا اُسے بے قرار کچھ اور)
سفرِ منزلِ شب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سفرِ منزلِ شب یاد نہیں)
سفینۂ دل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(چمن میں پھر رسن و طوق و دار کے دن ہیں)
سرِ میخانۂ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
سکوتِ اہلِ نظر ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئی پیکرِ ناز)
سکوتِ تشنگئی درد ۔۔۔۔غزل۔۔۔(مدت ہوئی کہ سیرِ چمن کو ترس گئے)
سلسلہ تاکِ طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظارا)
سلسلہ جنباں۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
سنگِ منزل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نِت نئی سوچ میں لگے رہنا)
سنگِ منزل نما ۔۔۔۔غزل۔۔۔(قفس کو چمن سے سَوا جانتے ہیں)
سنگِ نشاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
سیرِ چراغاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سفرِ منزلِ شب یاد نہیں)
سیرِ فلک ۔۔۔۔غزل۔۔۔(شبنم آلود پلک یاد آئی)
سیرِ چمن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاس میں جب کبھی آنسو نکلا)
سیرِ چمن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(مدت ہوئی کہ سیرِ چمن کو ترس گئے)
سیلِ رواں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دورِ فلک جب دُہراتا ہے موسمِ گُل کی راتوں کو)
سینۂ نَے ۔۔۔۔ (فردیات۔ ۔۔۔سینۂ نَے میں صدا میری ہے۔۔۔ ص 188)
سودائے انتظار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ترے خیال کی لَو سے جاگ اُٹھی ہے تنہائی)
ش
شاخِ مراد۔۔۔۔غزل۔۔۔(کس کے جلوؤں کی دُھوپ برسی ہے)
شامِ جدائی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(اولّیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو)
شامِ غم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(تارے گنوائے یا سحر دکھلائے)
شامِ ملاقات ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ بھی کیا شامِ ملاقات آئی)
شاملِ کارواں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئی)
شایانِ التماس ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وپ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں)
شب چراغ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(لبِ معجز بیاں نے چھین لیا)
شب ِ خزاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظارا)
شبِ گلشن ۔۔۔۔ (فردیات۔ ۔۔۔اولّیں شبِ گلشن کس قدر سہانی تھی۔۔۔ ص 186)
شبِ غم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے)
شبِ فراق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ترے خیال کی لَو سے جاگ اُٹھی ہے تنہائی)
شبِ فراق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئی پیکرِ ناز)
شبِ فُرقت۔۔۔ ۔غزل۔۔۔ (ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی)
شبِ فُرقت ۔۔۔۔غزل۔۔۔(صدائے رفتگاں پھر دل سے گزری)
شبِ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(تارے گنوائے یا سحر دکھلائے)
شبِ ہجر ۔۔۔۔غزل۔۔۔(اولّیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو)
شبِ ہجر ۔۔۔۔غزل۔۔۔(چمن میں پھر رسن و طوق و دار کے دن ہیں)
شبِ ہجراں۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
شبنمِ زمزمہ پا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آئینہ لے کے صبا پھر آئی)
شجرِ سایہ دار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں)
شریکِ منزلِ جنوں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کبھی کبھی تو جذبِ عشق مات کھا کے رہ گیا)
شعلہ عشق۔۔۔۔غزل۔۔۔(حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی)
شوخئی یک جنبشِ لب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کم فرصتئی خوابِ طرب یاد رہے گی)
شوخئی بیاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے)
شورِ دریا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
شوقِ آزادی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی)
شہرِ رعنائی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ترے خیال کی لَو سے جاگ اُٹھی ہے تنہائی)
شہرِ شبنم و گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے)
شہرِ طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کرتا اُسے بے قرار کچھ اور)
شہرِ طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا)
شہرِ طلب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(خموشی اُنگلیاں چٹخا رہی ہے)
شہرِ طرب ۔۔۔۔ (فردیات۔ برگِ ریز۔ ص 186)
شہرِ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کون اس راہ سے گزرتا ہے)
شہرِ لاہور ۔۔۔۔غزل۔۔۔(اولّیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو)
شہپرِ عنقا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
ص
صبحِ جمال ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
صبحِ جمال ۔۔۔۔ (فردیات۔ برگِ ریز۔ ص 186)
صبحِ روشن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دن ڈھلا رات پھر آئی سو رہو سو رہو)
صبحِ رُخصت ۔۔۔۔غزل۔۔۔(جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں)
صبحِ طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
صبحِ نورَس ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بے حجابانہ انجمن میں آ)
صبحِ نورس ۔۔۔۔غزل۔۔۔(تارے گنوائے یا سحر دکھلائے)
صحبت تن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(مدت ہوئی کہ سیرِ چمن کو ترس گئے)
صحنِ مکتب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نِت نئی سوچ میں لگے رہنا)
صحرائے خیال ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
صدائے رفتگاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(صدائے رفتگاں پھر دل سے گزری)
صرفِ آہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بے منتِ خضرِ راہ رہنا)
صرفِ خزاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
صر یرِ آلامِ دوراں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(خموشی اُنگلیاں چٹخا رہی ہے)
صنم خانۂ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
ض۔سے متعلقہ تراکیب کا استعمال نہیں ہوا۔
ط
طاقِ میخانہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاس میں جب کبھی آنسو نکلا)
طاقتِ شکیبائی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ترے خیال کی لَو سے جاگ اُٹھی ہے تنہائی)
طائرِ نغمہ سرا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
طرزِ ادا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے)
طرزِ ادا ۔۔۔۔ (فردیات۔ ۔۔۔سینۂ نَے میں صدا میری ہے۔۔۔ ص 188)
طرزِ تغافل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بیگانہ وار اُن سے ملاقات ہو تو ہو)
طلسمِ کم نگاہی۔۔۔۔غزل۔۔۔(مایوس نہ ہو اُداس راہی)
طلوعِ شوق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
طنابِ خیمئہ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(خموشی اُنگلیاں چٹخا رہی ہے)
ظ۔سے متعلقہ تراکیب کااستعمال نہیں ہوا۔
ع
عالمِ بے خودی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا)
عالمِ خواب ۔۔۔۔ (فردیات۔ ۔۔۔عالمِ خواب میں دکھائے گئے۔۔۔ ص 186)
عالمِ وحشت ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ رات تمھاری ہے چمکتے رہو تارو)
عذابِ جاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے)
عتابِ اہلِ جہاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وہ اِس ادا سے جو ٓئے تو کیوں بھلا نہ لگے)
عطرِ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
عُقدہ ٔ دل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(خیالِ ترکِ تمنا نہ کر سکے تو بھی)
عکسِ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاس میں جب کبھی آنسو نکلا)
عہدِ آوارگی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا)
عہدِ وفا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کم فرصتئی خوابِ طرب یاد رہے گی)
غ
غبارِ بوئے سمن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(مدت ہوئی کہ سیرِ چمن کو ترس گئے)
غزالِ آوارہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظارا)
غمِ دوراں۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
غمِ دوراں۔۔۔۔غزل۔۔۔(پہنچے گور کنار ے ہم)
غمِ دُنیا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سفرِ منزلِ شب یاد نہیں)
غمِ دُنیا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے)
غمِ رفتگاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئی)
غمِ زندگی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاد آتا ہے روز و شب کوئی)
غمِ صد کارواں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے)
غمِ فُرقت ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ رات تمھاری ہے چمکتے رہو تارو)
غمِ لامکاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئی)
غمِ لیل و نہار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں)
ف
فراقِ جسم و جاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے)
فرصتِ بے خودی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(رنگ برسات نے بھرے کچھ تو)
فرصتِ سیر و تماشائے بہاراں۔۔۔۔غزل۔۔۔(حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی)
فرصتِ موسمِ نشاط ۔۔۔۔غزل۔۔۔(چمن میں پھر رسن و طوق و دار کے دن ہیں)
فرصتِ ہستی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی)
فریبِ آسماں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کرتا اُسے بے قرار کچھ اور)
فصلِ بہار۔۔۔۔غزل۔۔۔(رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ)
فصلِ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ شب یہ خیال و خواب تیرے)
فصلِ مراد ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نِت نئی سوچ میں لگے رہنا)
فکرِ تعمیرِ آشیاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے)
فکرِ دُنیا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(تارے گنوائے یا سحر دکھلائے)
فکرِ واماندگاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئی)
ق
قافلئہ بہار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کرتا اُسے بے قرار کچھ اور)
قدرِ متاعِ وفا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(مدت ہوئی کہ سیرِ چمن کو ترس گئے)
قصۂ شوق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا)
قصۂ فُرقت ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وہ اِس ادا سے جو آئے تو کیوں بھلا نہ لگے)
قفسِ غنچہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
قیدِ مکاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
ک
کاشانہ ٔ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
کشمکشِ صبر طلب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کم فرصتئی خوابِ طرب یاد رہے گی)
کم فرصتئی خوابِ طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کم فرصتئی خوابِ طرب یاد رہے گی)
کُنجِ اماں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
کُنجِ قفس ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دورِ فلک جب دُہراتا ہے موسمِ گُل کی راتوں کو)
کیفیتِ طوفانِ بہار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے)
گ
گردشِ وقت ۔۔۔۔غزل۔۔۔(اولّیں چاند نے کیا بات سجھائی مجھ کو)
گردشِ وقت ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دن ڈھلا رات پھر آئی سو رہو سو رہو)
گردِ راہ ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بے منتِ خضرِ راہ رہنا)
گرمِ سفر ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
گُزر گاہِ خیال ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سفرِ منزلِ شب یاد نہیں)
گرفتارِ بلا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
گُلِ تر ۔۔۔۔غزل۔۔۔(جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں)
گُلِ شب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
گُلِ عارض ۔۔۔۔غزل۔۔۔(شبنم آلود پلک یاد آئی)
گلستانِ شب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بے حجابانہ انجمن میں آ)
گوشہ ٔ فراغت ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دُور اِس تیری خاکداں سے دُور)
ل
لبِ جُو ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاد آتا ہے روز و شب کوئی)
لبِ جُو ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاس میں جب کبھی آنسو نکلا)
لبِ گویا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
لبِ معجز بیاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(لبِ معجز بیاں نے چھین لیا)
لطفِ وصل۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
لمحہ ٔ عیش۔۔۔۔غزل۔۔۔(خیالِ ترکِ تمنا نہ کر سکے تو بھی)
م
ماتمِ درماں۔۔۔ ۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
مائلِ رَم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(شبنم آلود پلک یاد آئی)
مجمعِ عام ۔۔۔۔غزل۔۔۔(شہر در شہر گھر جلائے گئے)
مجبورِ فُغاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
محتاجِ حُسن۔۔۔۔غزل۔۔۔(حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی)
محرومِ خواب۔۔۔۔غزل۔۔۔(محرومِ خواب دیدہ حیراں نہ تھا کبھی)
محفلِ سُخن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بے حجابانہ انجمن میں آ)
محفلِ سُخن ۔۔۔۔ (فردیات۔ ۔۔۔ڈھونڈیں گے لوگ مجھ کو ہر محفلِ سخن میں۔۔۔ ص 188)
محوِ تماشا۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
محوِ فُغاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے)
محوِ یاس ۔۔۔۔غزل۔۔۔(رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے)
مژۂ خوں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(لبِ معجز بیاں نے چھین لیا)
مقامِ شوق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کبھی کبھی تو جذبِ عشق مات کھا کے رہ گیا)
ملکِ سُخن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
منت کشِ آواز ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
منتظرِ طلوعِ فردا۔۔۔۔غزل۔۔۔(مایوس نہ ہو اُداس راہی)
معیادِ غم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی مِلے)
معمورۂ غم ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
موجۂ ہوائے طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے)
موسمِ بہار ۔۔۔۔ (فردیات۔ ۔۔۔روئے ہم موسمِ بہار کے بعد۔۔۔ ص 188)
موسمِ طرب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یاد آتا ہے روز و شب کوئی)
موسمِ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دورِ فلک جب دُہراتا ہے موسمِ گُل کی راتوں کو)
مئے اشکبار ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ٹھہرا تھا وہ گلعذار کچھ دیر)
میرِ کاررواں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دُور اِس تیری خاکداں سے دُور)
ن
نالۂ اہلِ وفا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
نشاطِ بے خودی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(ٹھہرا تھا وہ گلعذار کچھ دیر)
نازِ بیگانگی ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا)
نازِ کجکلاہی۔۔۔۔غزل۔۔۔(مایوس نہ ہو اُداس راہی)
نذرانۂ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(وَا ہوا پھر درِ میخانۂ گُل)
نشۂ خوابِ گراں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے)
نصیبِ عشق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں)
نکہتِ گُل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا)
نگاہِ تغافل ۔۔۔۔غزل۔۔۔(نصیبِ عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں)
نگاہِ شوق ۔۔۔۔غزل۔۔۔(صدائے رفتگاں پھر دل سے گزری)
نگاہِ ہ یاس۔۔۔۔غزل۔۔۔(ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں)
نغمہ ٔ آبِ صفا ۔۔۔۔غزل۔۔۔(سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن)
نغمہ ٔ نَے ۔۔۔۔غزل۔۔۔(قفس کو چمن سے سَوا جانتے ہیں)
نو بہارِ چمن ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بے حجابانہ انجمن میں آ)
و
وجہِ تسکیں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے)
وسعتِ صحرائے جنوں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے)
وعدہ شب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا)
وضعِ غم۔۔۔۔غزل۔۔۔(دم گھٹنے لگا ہے وضعِ غم سے)
ویرانۂ خزاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(دُور اِس تیری خاکداں سے دُور)
ہ
ہجر نصیب ۔۔۔۔غزل۔۔۔(یہ بھی کیا شامِ ملاقات آئی)
ہجومِ یاس ۔۔۔۔غزل۔۔۔(چمن میں پھر رسن و طوق و دار کے دن ہیں)
ہوائے صبح ۔۔۔۔غزل۔۔۔(صدائے رفتگاں پھر دل سے گزری)
ی؍ے
یادِ رفتگاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے)
یارانِ رفتگاں ۔۔۔۔غزل۔۔۔(بیگانہ وار اُن سے ملاقات ہو تو ہو)
حوالہ جات:
1. ناصر کاظمی،دیوانِ ناصر کاظمی،(لاہور: القا پبلی کیشنز،2017)،ص34
2. ناصر کاظمی،دیوانِ ناصر کاظمی،(لاہور: القا پبلی کیشنز،2017)،ص38
3. ناصر کاظمی،دیوانِ ناصر کاظمی،ص42
4. ایضاً،ص121
5. ایضاً،ص155
6. شاہ نصیر دہلوی، دیوانِ نصیر، جلد،اول، (لاہور:مجلس ترقی ادب،1971)ص374
7. غلام ہمدانی مصحفی،شیخ،دیوان مصحفی،جلد،چہارم،(لاہور:مجلس ترقی ادب،1983)ص306
8. محمد ابراہیم ذوق،دیوان ِ ذوق، جلد،اول،(لاہور:مجلس ترقی ادب،1985)ص199
9. امام بخش ناسخ،شیخ، کلیات ناسخ، جلد،دوم،(لاہور:مجلس ترقی ادب،1989)ص،205
10. اسد اللہ خاں،غالب،مرزا،دیوانِ غالب، (لاہور: مجلس ترقی ادب،1992)ص71
11. محمد اقبال،علامہ،کلیات ِ اقبال،(لاہور: اقبال اکادمی،پاکستان،2008)ص373
12. ناصر کاظمی،دیوانِ ناصر کاظمی،(لاہور: القا پبلی کیشنز،2017)،ص37
13. ناصر کاظمی،دیوانِ ناصر کاظمی،ص68
14. ایضاً،131
15. ایضاً،151
16. ایضاً،ص158