ادبی حلقوں میں اِس سوال پر کم ہی غور کیا گیا ہے ، اور شاید آئندہ بھی کم ہی غور کیا جائے ، کہ ماضی کے معروف ادیبوں ، نقادوں ، شاعروں وغیرہ کی ’ ریڈیائی تحریروں ‘ ( بشمول گفتگو ، مباحثے اور ادیبوں کے انٹرویو ، جو کسی زمانے میں ریڈیو پر نشر ہوئے تھے ) کا کیا حشر ہوگا یا کیا حشر ہوا ہوگا ؟ اور کیا اُنہیں جمع کر کے کتابی صورت میں محفوظ نہیں کیا جانا چاہیے ، تاکہ آج کے ادبی حلقے اور ادب سے دلچسپی رکھنے والی نئی نسل اُن سے استفادہ کر سکے؟ یقیناً چند ادیب ہیں جن کی ’ ریڈیائی تحریریں ‘ مرتب کی گئی ہیں ، لیکن ایک بہت بڑی تعداد ایسے ادیبوں کی ہے ، جن کی تحریروں کو مرتب کرنا تو دور ابھی جمع تک نہیں کیا گیا ہے ۔ سچ کہیں تو اردو والوں نے اس جانب توجہ دی ہی نہیں ہے ! لیکن اس میں اردو والوں کا کوئی بڑا قصور ہے بھی نہیں ، زیادہ تر نہ ریڈیو کے میڈیم سے واقف ہیں ، اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ ریڈیائی تحریریں کیسے حاصل کی جا سکتی ہیں ، اور نہ جاننا چاہتے ہیں ۔ کون سَر کھپائے ! ہاں ، اِس میدان میں ، ایک شخص کا نام ضرور لیا جا سکتا ہے ، بلکہ نام لیا جانا چاہیے ، جو مسلسل سرگرم ہے ، اور وہ نام ڈاکٹر محمد شکیل اختر کا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب ریڈیو پروڈیوسر ، ماس کمیونیکیشن ریسرچ سینٹر ، جامعہ ملّیہ اسلامیہ ہیں ۔ وہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس سے ایک طویل عرصے تک منسلک رہے اور اس دوران خوب کام کیے ۔ ڈاکٹر صاحب کئی کتابوں کے مصنف ہیں ، ان کی ایک نئی کتاب ’ نشریاتِ سرور : آل احمد سُرور کی ریڈیائی تحریریں ‘ کے نام سے منظر عام پر آئی ہے ، جس کے بیک کور پر پروفیسر شافع قدوائی کی ، اِن کے تعارف میں ایک مختصر تحریر دی گئی ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ صحافت علی الخصوص نشریاتی صحافت کو تحقیقی ارتکاز اور معروضی مطالعہ کا ہدف کم ہی بنایا گیا ہے ۔ ریڈیو کی تاریخ پر سرسری اور حوالوں سے بڑی حد تک بے نیاز تحریریں تو موجود ہیں مگر آل انڈیا ریڈیو کے مختلف پروگراموں کے مبسوط جائزہ اور اس ضمن میں اردو کے سربرآوردہ ادیبوں کی گراں قدر خدمات کا مرکوز اور ستائش بے جا سے عاری ادبی ڈسکورس برگ و بار نہیں لا سکا ہے ۔ مقامِ مسرت ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کی باوقار اردو سروس سے ایک طویل عرصہ تک وابستہ رہنے اور پھر ماس کمیونیکیشن ریسرچ سینٹر ، جامعہ ملّیہ اسلامیہ سے منسلک ہو جانے والے معروف قلم کار ڈاکٹر شکیل اختر نے اس تحقیقی خلا کو پُر کرنے کی تُندہی سے کوشش کی اور نشریاتی صحافت کے مطالعہ کو متعین حوالوں اور تعلیقات سے ہم آہنگ کرکے ایک نئے اور خیال انگیز تحقیقی بیانیہ کو وضع کرنے کی قابلِ قدر سعی کی ہے ۔ ان کی تازہ ترین مرتبہ کتاب ’ نشریاتِ سرور ‘ اس اجمال کی تفصیل پر دال ہے ۔‘‘ ڈاکٹر محمد شکیل اختر کی صحافت بالخصوص نشریاتی صحافت پر یہ دسویں کتاب ہے ، اس سے قبل اُن کی اس موضوع پر جو نو کتابیں شائع ہوئی ہیں ، ان میں سے ایک کتاب ’ روبرو : ریڈیو انٹرویوز کا مجموعہ ‘ ( 2012) پر میں نے ایک مختصر تعارف و تبصرہ لکھا تھا ۔ لاجواب کتاب ہے ، اس سے مجھے انٹرویو کی تکنیک کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا تھا ۔
’ نشریاتِ سُرور ‘ کے ’ مقدمہ ‘ میں ، ڈاکٹر صاحب نے ریڈیو کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی ہے ، اور سُرور صاحب کی ریڈیائی تحریریوں کا بھی بھرپور جائزہ لیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ ۱۹۴۲ء کے بعد سُرور کی ریڈیائی تحریروں میں کافی تنوع پایا جاتا ہے ۔ وہ ادبی موضوعات کے علاوہ سیاسی ، سماجی اور تعلیمی موضوعات پر بھی ٹاکس قلمبند کرتے ہیں ۔ لیکن آج تک اُن پر تحقیقی کام کرنے والے طلبہ اور اساتذہ نے اس جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی ۔ اکثر میں یہ سوچتا تھا کہ جو شخص نصف صدی سے زائد عرصے تک اردو نشریات کے لب و رخسار کو سنوارتا رہا ہو ، اس کے پاس ریڈیائی تحریروں کا خاصا ذخیرہ ہونا چاہیے ۔ یہی فکر اس کتاب کو ترتیب دینے کی وجہ بنی ۔ ان کی ریڈیائی تحریروں کی بازیافت میں کئی برس لگ گیے ۔ ریڈیو ٹاکس تو مِل بھی گیے لیکن فیچر ، انٹرویو ، مباحثے کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ۔‘‘ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ سُرور صاحب اور رشید احمد صدیقی کا ریڈیو سے رشتہ ، دہلی میں آل انڈیا ریڈیو کے قیام ( ۱۹۳۶ء ) کے فوراً بعد ، قائم ہو گیا تھا ۔ اُن دنوں دہلی میں ، معروف طنز و مزاح نگار پطرس بخاری اردو نشریات کے انچارج تھے ۔ سُرور صاحؓب ۱۹۳۶ء سے ریڈیو پر بلائے جانے لگے تھے ۔ رشید احمد صدیقی کی مشہور کتاب ’ خنداں ‘ ان کے ریڈیو ٹاکس پر مشتمل ہے ، اسی طرح سُرور صاحب کی کتاب ’ تنقیدی اشارے ‘ میں ان کے ریڈیو ٹاکس اور فیچر ہیں ۔ سُرور صاحب کا ریڈیائی سلسلہ ۱۹۳۶ء سے ۲۰۰۰ء تک جاری رہا ، اس دوران وہ تسلسل سے ، دہلی ، لکھنئو اور ریڈیو کشمیر سرینگر کے لیے ، ٹاکس اور فیچر لکھتے رہے اور ادبی مباحث میں شرکت کرتے رہے ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’ تلاشِ بسیار کے بعد ۳۸ ٹاکس ، ۳ فیچر ، ۳ انٹرویو اور ۳ مباحثوں کی بازیافت ہو سکی ۔‘‘ اس کا مطلب یہ کہ سُرور صاحب کے ٹاکس ، فیچر ، مباحثوں اور انٹرویو کی ایک اچھی خاصی تعداد کی بازیافت ابھی ہونا ہے ۔
کتاب کا پہلا باب ’ ٹاکس ‘ ہے ، اور جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے ، اس باب میں سُرور صاحب کے ۳۸ ٹاکس شامل ہیں ۔ ڈاکٹر محمد شکیل اختر نے سُرور صاحب کی تحریرکردہ ٹاکس کا اپنے ’ مقدمہ ‘ میں بھرپور جائزہ لیا ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ ۳۸ ٹاکس میں سُرور نے تقریباً ۸۰ ادیبوں ، شاعروں ، مفکروں ، دانشوروں اور سیاسی و سماجی رہنماؤں کا ذکر کیا ہے ۔ اُن کے خیالات و افکار کے ذریعہ انہوں نے اپنی باتوں کی توثیق کی ہے … آل احمد سُرور کی ریڈیائی اور غیر ریڈیائی تحریروں میں مشرقی شعریات کے حوالے خال خال ہی نظر آتے ہیں ۔ وہ فکری اعتبار سے مشرقی ادبیات سے زیادہ مغربی ادبیات سے قریب نظر آتے ہیں ۔ اردو ادب کی تمام اصناف پر اُن کی گہری نظر تھی ، یہی وجہ ہے کہ نہ صرف اُن کی ریڈیائی تحریروں میں اس کے حوالے نہیں ملتے ہیں ۔ لیکن سب سے زیادہ اور بامعنی حوالے غالبؔ اور اقبالؔ کے شعروں اور مصرعوں کے ملتے ہیں جن سے ان کی تحریروں میں شگفتگی اور وقار پیدا ہو جاتا ہے ۔ منطقی استدلال کی ایک فضا ہموار ہوتی نظر آتی ہے ، جس سے ان کی نثر میں شگفتگی بڑھ جاتی ہے ۔‘‘ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ انگریزی ادب کے وسیع مطالعہ کے سبب سُرور صاحب کی تحریروں میں مغربی شعراء ، ادباء ، فلسفی ، ناقدین اور مصلیحین کے حوالے روانی اور تسلسل کے ساتھ ملتے ہیں ، اور انہیں لفظوں کے مترادفات اور قول محال کا استعمال بھی خوب آتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ۳۸ ٹاکس میں سے کچھ کے اقتباسات دے کر اپنے کہے کی دلیلیں بھی دی ہیں ۔ جو ٹاکس شامل ہیں اُن میں اکثر ادبی ہیں ، اردو شاعری پر ، ناولوں پر ، دیباچہ نگاری اور ادبی شخصیات پر ۔ رشید احمد صدیقی پر تین بہترین ٹاکس ہیں ، اور مزید ٹاکس میں بھی ان کا ذکر ہے ، اس سے ان کی صدیقی صاحب سے قربت اور محبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ غالبؔ اور اقبالؔ پر بھی خوب لکھا ہے ۔ غالبؔ پر لکھی تحریر میں سے ایک مختصر سا اقتباس ملاحظہ کریں : ’’ ’ یادگار ‘ ( حالیؔ کی ’ یادگارِ غالبؔ ‘ ) میں غالبؔ کے حالات بہت زیادہ تفصیل سے نہیں دیے گیے ۔ حالیؔ کا مقصد دراصل غالبؔ کی ایک جیتی جاگتی تصویر پیش کرنا تھا ۔ دوسرے حالیؔ کی ’ پاک بیں ‘ طبیعت کو رہ رہ کر یہ خیال ستاتا تھا کہ غالبؔ کی زندگی میں قوم کے لیے کوئی افادی پہلو نہیں ہے – دراصل افادی پہلو کا حالیؔ ذرا محدود تصور رکھتے تھے – غالبؔ کی زندگی سے وہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا جو ’ راہِ نجات ‘ یا ’ بہشتی زیور ‘ سے پہنچ سکتا ہے ۔ لیکن غالبؔ کی زندگی ان دونوں کتابوں سے زیادہ دلچسپ ہے ۔‘‘ اس باب میں کئی مزاحیہ ٹاکس بھی شامل ہیں ، جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سُرور صاحب شگفتہ مزاحیہ تحریریں لکھنے پر آتے تو اس صنف میں بھی نام کماتے ۔
کتاب کا دوسرا باب ’ ریڈیو فیچر ‘ پر مشتمل ہے ۔ کُل تین فیچر شامل ہیں ، ایک بعنوان ’ اقبالؔ کا پیغام ‘ ، دوسرا غالبؔ پر بعنوان ’ تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا ‘ اور تیسرا مجازؔ پر خوب پہچان لو مجازؔ ہوں میں ‘۔ تیسرا باب ’ ریڈیو انٹرویو ‘ ہے ، اس باب میں آل احمد سُرور سے شمیم حنفی ، محمود ہاشمی اور عتیق احمد صدیقی کے لیے ہوئے تین انٹرویو شامل ہیں ۔ ان انٹرویو میں سُرور صاحؓب نے جہاں اپنے رجحانات اور ادبی نظریات پر بات کی ہے وہیں ان میں ادبی تحریکات پر بھی بات ہے ۔ چوتھا باب ’ ریڈیو مباحثہ ‘ ہے ، یہ باب اُن تین ادبی مباحثوں کی اسکرپٹ پر مشتمل ہے جن میں سُرور صاحب نے شرکت کی تھی ۔ ان مباحثوں کے دیگر شرکاء مولانا نیاز فتح پوری ، نورالحسن ہاشمی ، آنند نرائن ملا ، حیات اللہ انصاری ، ساغر نظامی ، پروفیسر ایم مجیب ، پروفیسر خواجہ احمد فاروقی ، پروفیسر احمد صدیق اور مجنوں گورکھپوری تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب میں حواشی کا اہتمام کیا ہے ، جس سے اس کتاب کے مندرجات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’ اس مجموعے کی افادیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ اختصار اور جامعیت کی ایک اچھی مثال ہے ۔ اس میں اسپوکن ورڈ میں گفتگو کا بھرپور احساس ہوتا ہے ۔ یہ کتاب مختلف اعلیٰ مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے بھی سود مند ہے اور وہ طلبہ جو اردو کے ذریعہ ماس میڈیا کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں انہیں بھی اس کتاب سے ریڈیو فہمی میں مدد مل سکتی ہے ۔‘‘
کتاب کا انتساب کیا گیا ہے ’ خؒلوص و محبت کے پیکر ڈاکٹر دبیر احمد ، صدر شعبۂ اردو ، مولانا آزاد کالج ، کولکاتا کے نام ، نہاں ہے تیری محبت میں رنگ محبوبی ۔‘ 376 صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت 580 روپیے ہے ۔ اسے ’ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، نئی دہلی ‘ نے شائع کیا ہے ۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر 9821170438 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔