Home ستاروں کےدرمیاں ایک درخشندہ ستارہ روپوش ہو گیا-محمد روح الامین 

ایک درخشندہ ستارہ روپوش ہو گیا-محمد روح الامین 

by قندیل

دنیائے صحافت کا ایک درخشندہ ستارہ روپوش ہو گیا یعنی مشہور مصنف و قلمکار حضرت مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر آج مورخہ 13 صفر المظفر 1444ھ بہ مطابق 11 ستمبر 2022ء بہ روز یکشنبہ اللّٰہ کو پیارے ہوگئے۔ نماز جنازہ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کے احاطے کے اندر ہزاروں کے مجمع میں ادا کی گئی اور مزارِ انوری میں مدفون ہوئے۔ مرحوم ایک مشہور و معروف مضمون نگار، کالم نگار، خاکہ نگار، مقرر، مصنف اور عالم دین تھے۔ وہ معروف صحافی مولانا سید ازہر شاہ قیصر کے فرزند اور مشہور محدث علامہ سید انور شاہ کشمیری کے پوتے تھے۔ بندہ نے گزشتہ سال مرحوم سے متعلق ویکیپیڈیا مضمون لکھا تھا، مرحوم سے بھی پڑھنے کی درخواست کی تھی کہ کہیں غلط معلومات رقم ہو گئے ہوں تو اصلاح کر لی جائے؛ کیوں کہ بسا اوقات لوگ بس نقل کر دیتے ہیں اور جہاں سے نقل کیا ہوتا ہے، خود وہاں غلط معلومات لکھے ہوتے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا مرحوم کے فرزندِ اکبر حضرت مولانا مفتی عبید انور شاہ قیصر قاسمی، استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ کشمیری دیوبند نے بھی خاصی رہنمائی فرمائی تھی۔ اب بندہ انھیں معلومات کی بنیاد پر یہ مضمون قارئین کے حوالے کرتا ہے۔

ولادت و خاندان
مولانا مرحوم کی پیدائش 21 ربیع الاول 1382ھ بہ مطابق 25 اگست 1962ء کو دیوبند میں ہوئی، ان کے والد علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری کے فرزندِ اکبر سید محمد ازہر شاہ قیصر اور ان کے چچا سید محمد انظر شاہ مسعودی تھے۔ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند کے موجودہ مہتمم اور دارالعلوم وقف دیوبند کے شیخ الحدیث سید محمد خضر احمد شاہ مسعودی دامت برکاتہ ان کے چچا زاد بھائی ہیں۔

تعلیم و تربیت
مولانا مرحوم نے اپنی تعلیم کی ابتدا دار العلوم دیوبند سے کی، ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے اسلامیہ ہائی اسکول، دیوبند میں داخلہ لے لیا اور دسویں کا امتحان دیے بغیر 1976ء میں دوبارہ دار العلوم دیوبند میں داخلہ لے کر 1981ء (بہ مطابق 1401ھ) میں درس نظامی کی تعلیم سے فارغ التحصیل ہوئے،
انھوں نے صحیح بخاری؛ شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خان بلند شہری سے پڑھی، اسکولی تعلیم کے دوران میں 1973ء تا 1975ء انھوں نے ادیب، ادیبِ ماہر اور ادیبِ کامل کی ڈگری حاصل کی اور جامعہ دینیات سے 1976ء تا 1978ء عالمِ دینیات، ماہرِ دینیات اور فاضلِ دینیات کی سند حاصل کی۔ پھر 1989ء تا 1990ء کے دوران ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی، آگرہ (آگرہ یونیورسٹی) سے ایم اے اردو کیا۔

تدریس و دیگر مشاغل
1987ء کو مولانا مرحوم نے دار العلوم وقف دیوبند میں ملازمت اختیار کی اور 1989ء سے تاوفات وہیں پر تدریسی خدمات انجام دے رہے۔ مولانا مرحوم ایک بہترین مضمون نگار تھے، جنوری 1973ء کو 13 سال کی عمر ہی میں ان کی مضمون نگاری کی ابتدا ہو چکی تھی، 1979ء تا 1985ء پندرہ روزہ اشاعت حق، دیوبند کے نائب مدیر اور 1985ء تا 1996ء اس کے مدیرِ اعلیٰ رہے۔ 1983ء میں اپنے والد مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصر کی سرپرستی میں ماہنامہ طیب، دیوبند کے سب ایڈیٹر (معاون مدیر) ہوئے؛ بالآخر 1987ء میں جب ماہنامہ طیب بند ہونے لگا تو اپنے سابقہ پندرہ روزہ اشاعت پر توجہ دی، وہ بھی 1983ء میں بند ہو گیا، ایک عرصے تک ماہنامہ ندائے دار العلوم کی مجلسِ ادارت کے رکن رہے۔ اس کے علاوہ تقریباً چالیس سال سے ملک بھر کے پچاسوں ماہانہ، پندرہ روزہ اور ہفت روزہ رسائل و جرائد اور روزناموں میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ رسائل و جرائد میں ماہنامہ ندائے دار العلوم دیوبند، ماہنامہ طیب دیوبند، ماہنامہ محدث عصر دیوبند، ماہنامہ ترجمان دیوبند، ماہنامہ دار العلوم دیوبند، ماہنامہ اتباع سنت دیوبند، ماہنامہ اذان بلال آگرہ، ماہنامہ رگ سنگ کانپور، ماہنامہ صدائے حق گنگوہ، ماہنامہ حسن تدبیر دہلی، ماہنامہ الرشید ساہیوال پاکستان، ماہنامہ النصیحہ چارسدہ پاکستان اور ماہنامہ المرشد چکوال پاکستان؛ پندرہ روزہ رسائل میں پندرہ روزہ دیوبند ٹائمز دیوبند، پندرہ روزہ یثرب دیوبند، پندرہ روزہ اشاعت حق دیوبند اور پندرہ روزہ فکر انقلاب دہلی؛ ہفت روزہ رسائل میں ہفت روزہ راشٹریہ سہارا نئی دہلی، ہفت روزہ نئی دنیا دہلی، ہفت روزہ قومی آواز دہلی، ہفت روزہ ہمارا فیصلہ دہلی، ہفت روزہ چوتھی دنیا دہلی اور ہفت روزہ عقائد، سہارنپور؛ نیز روزناموں میں قومی آواز دہلی، عوام دہلی، مشرقی آواز دہلی، راشٹریہ سہارا دہلی، صحافت دہلی، ہمارا سماج دہلی اور انقلاب میرٹھ شامل ہیں۔

مولانا مرحوم ایک کالم نگار بھی تھے۔ روزنامہ ہندوستان ایکسپریس، دہلی میں مسلسل تین سال اور روزنامہ ہمارا سماج، دہلی میں تقریباً دو سال تک کالم نگار رہے۔ مولانا مرحوم کو خاکہ نگاری سے بھی خاصہ لگاؤ تھا، ان کے قلم سے عالم اسلام کی گزشتہ و موجودہ کم و بیش سو لوگوں کے خاکوں پر مشتمل کتابیں آ چکی ہیں، جو تصانیف کے عنوان کے تحت درج ہیں۔ ان کی خاکہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے اردو و عربی زبان کے مشہور ادیب و انشا پرداز پروفیسر محسن عثمانی ندوی رقم طراز ہیں:
”بیسویں صدی کے نصف آخر میں بہت سے اچھے نمونے اور مجموعے خاکہ نگاری کے سامنے آئے ہیں، انھیں اچھی کتابوں میں نسیم اختر شاہ قیصر کی خاکہ نگاری کے نمونوں کو بھی رکھا جاسکتا ہے، اس سے پہلے مصنف کتاب کے دوسرے مجموعے ”میرے عہد کے لوگ“ اور ”جانے پہچانے لوگ“ شائع ہو کر خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں، ہر مضمون نظر کو خیرہ کرتا ہے؛ لیکن اس میں جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری نہیں ہے، مصنف کا انداز بیان ہر جگہ شاداب اور نو دمیدہ گلاب کی طرح شگفتہ ہے، کہیں کہیں بعض جملے اتنے اچھے ملتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ نسیمِ سحر کا تازہ جھونکا آگیا، اور کبھی کبھی لگا تار عبارتیں ایسی حسین ملتی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ شہابِ ثاقب کی بارش ہورہی ہے، جو شخص بھی ان کی تحریر کا مطالعہ کرے گا محسوس کرے گا کہ اس تعریف و توصیف میں سچائی ہے۔“

آل انڈیا ریڈیو دہلی کی اردو مجلس اور اردو سروس سے کافی ریڈیائی نشریات ہوئیں، حرفِ تابندہ اور خطبات شاہی نامی دو کتابیں؛ ان کی ریڈیائی تقاریر ہی کا مَظہَر ہیں۔

مولانا مرحوم نے دیوبند میں زیر تعلیم طلبہ و مقامی افراد کی تحریری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور انھیں صیقل کرنے کے لیے دیوبند ہی میں ’’مرکز نوائے قلم‘‘ کے نام سے ایک مرکز بھی قائم کیا، جہاں سے تربیت لے کر بہت سے طلبہ میدان صحافت میں اتر چکے ہیں، دار العلوم وقف دیوبند نے شعبۂ صحافت قائم کیا تو انھیں ہی اس کا ذمے دار بنایا گیا۔

تصانیف
مولانا کی بائیس کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، جن میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں: حرفِ تابندہ، خطبات شاہی، مقبول تقریریں، سیرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، واقعات کے آئینے میں، میرے عہد کے لوگ، جانے پہچانے لوگ، خوشبو جیسے لوگ، اپنے لوگ، کیا ہوئے یہ لوگ، میرے عہد کا دار العلوم، دو گوہرِ آب دار، امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری: زندگی کے چند روشن اوراق، رئیس القلم مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصر – زندگی کے چند روشن اوراق، فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ مسعودی – زندگی کے چند روشن اوراق، جانشینِ امام العصر شیخ انظر: تاثرات و مشاہدات، اکابر کا اختصاصی پہلو، وہ قومیں جن پر عذاب آیا، اسلام اور ہمارے اعمال، اعمال صالحہ، اسلامی زندگی، اوراق شناسی۔

اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے، پسماندگان و لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہمیں بھی مرحوم کی سی خدمات کے لیے قبول فرمائے۔ آمین

You may also like

Leave a Comment