عام طورپر ناظم مشاعرہ اس شاعر کو کہتے ہیں جو اپنی شاعری سے زیادہ لچھے دار گفتگو کے لیے جانا جائے ، مگر ہمارے یہاں ایسے بھی ناظم مشاعرہ گزرے ہیں جنھوں نے اس فن کو اپنے علم اور مشاہدات سے بام عروج تک پہنچایا۔یہ لوگ اپنی شاعری کے ساتھ ساتھ نظامت کے فن پر بھی ملکہ رکھتے تھے اور اپنے الفاظ کی گھن گرج سے مشاعرے میں عجیب سماں پیدا کردیتے تھے۔ ماضی قریب کے ایسے لوگوں میں پہلا نام ملک زادہ منظور احمد کا ہے اور دوسرا انور جلال پوری کا۔ یہ دونوں ہی خوش فکر اور خوش الحان شعراءدنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ اس صف کے دوباحیات لوگوں میں ایک نام برادرمکرم منصور عثمانی کا ہے اور دوسرا نوجوان شاعر معین شاداب کا۔ میں معین شاداب کو بچپن سے جانتا ہوں اور وہ میرے ہی سامنے بڑے ہوئے ہیں ۔ یعنی میں نے بذات خود انھیں بڑا ہوتے ہوئے دیکھا۔ یہ بڑائی صرف عمر کی نہیں ہے بلکہ ان کے قد اور فن کی بھی ہے۔انھوں نے اپنی محنت ، شعور اور تجربے کی روشنی میں یہ سفر طے کیا ہے۔انھوں نے آگے بڑھنے کے لیے کبھی بیساکھیوں کا سہارا نہیں لیابلکہ اپنی خداداد صلاحیتوں کے سہارے کامیابی کی منزلیں طے کی ہیں۔ ان کی بنیادی شناخت صحافت ہے ، کیونکہ اسی کے ذریعہ علمی و ادبی حلقوں میں ان کی رسائی ہوئی۔ پھر وہ شاعری کی طرف آئے اور یہاں بھی انھوں نے رنگ جمایا۔ مگر کوئی شاعر جو ایک چوتھائی صدی سے اس دشت کی سیاحی کررہا ہو، اس کے مجموعہ کلام سے پہلے کوئی نثری کتاب سامنے آجائے تو تعجب ضرور ہوتا ہے۔
معین شاداب نے حال ہی میں اپنے مضامین کا ایک دیدہ زیب مجموعہ شائع کیا ہے ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انھیں اپنی شاعری سے زیادہ اپنی نثر پر اعتماد ہے۔
معین شاداب کی بنیادی تربیت چونکہ صحافتی ماحول میں ہوئی ہے ، اس لیے انھوں نے شاعری کا جہاں آباد کرنے کے باوجود نثر کا دامن نہیں چھوڑا۔عام طورپر شاعروں کا ہاتھ نثر کے معاملے میں خاصا تنگ ہوتا ہے ۔ اسی لیے وہ اس سے گریزاں بھی نظر آتے ہیں۔ میری نظر میں دوایسی مثالیں ضرور ہیں ، جس میں شاعر نے نثر کا ایسا کمال دکھایا ہے کہ ان کی شاعری پیچھے چھوٹ گئی ہے۔ جن لوگوں نے جون ایلیا کے پہلے مجموعہ کلام ’شاید‘ میں ان کی آپ بیتی ’نیازمندانہ ‘ کا مطالعہ کیا ہے یا پھر جو لوگ ملک زادہ منظور احمد کی آپ بیتی ’رقص شرر‘ سے استفادہ کرچکے ہیں وہ اس بات کی گواہی دیں گے ۔ ان دونوں کی نثر پڑھ کر یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ شاعر زیادہ بڑے تھے یا پھر نثر نگار؟اس قسم کی مثالیں اور بھی ہیں، لیکن یہاں مجھے معین شاداب کی تازہ نثری کتاب ’افکارواظہار‘ پر گفتگو کرنی ہے ، لہٰذا میں اپنے موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔اگر کوئی شاعر اپنی شاعری کے حصار سے نکل کر نثر نگاری کی طرف قدم بڑھاتا ہے تو میں اسے زیادہ اہمیت دیتا ہوں اور آج کا یہ مضمون اسی کا اظہار ہے۔
معین شاداب نے پچھلے دنوں جن لمحات میں اپنی کتاب "اظہار وافکار” میرے سپرد کی تو میں حد درجہ مصروف تھا۔یہ سوچ کر ایک طرف رکھ دی کہ اطمینان سے پڑھوں گا ، تاوقتیکہ انھوں نے ایک روز یاددہانی کراتے پوچھ ہی لیا کہ ”آپ نے کتاب دیکھی؟“ ان کے اصرار پر جب میں نے کتاب پر نظرڈالی تو میری خوشی دوبالا ہوگئی ۔ نثر بیزاری کے اس دور میں اگر کوئی مصروف شاعر اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یہ یقیناً بڑی بات ہے۔ اردو میں نثر کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی طرف لکھنے والوں کی توجہ واجبی سی ہے، کیونکہ نثر لکھنے میں جو محنت ، مشقت اور دیدہ ریزی کرنی پڑتی ہے وہ شاعری میں نہیں کرنی پڑتی۔ آپ ایک غزل کو دس مشاعروں میں سناکر اس کا یکساں معاوضہ اور داد وصول کرسکتے ہیں جبکہ نثر کا معاملہ یہ ہے کہ آپ اسے کہیں دوہرا نہیں سکتے۔ آپ کو ہربار ایک نیا شہ پارہ تخلیق کرنا پڑتا ہے۔ اسی محنت سے بچنے کے لیے عام طورپر لوگ شاعری کا رخ کرتے ہیں ، جو نثر کی بہ نسبت آسان اور منافع بخش کاروبار ہے۔ ایسے میں کوئی شاعر اگر محنت اور عرق ریزی کی راہ کا انتخاب کرتا ہے تو اس کی پذیرائی کی جانی چاہئے۔یہ چند سطریں اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔
معین شاداب نے اپنی کتاب ’افکار واظہار ‘ میں کچھ نئے اور کچھ پرانے شاعروں کے فن اور ان کی شخصیت سے ہمیں روشناس کرایا ہے۔ ان کی دیانت داری کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے صرف نامور لوگوں پر قلم نہیں اٹھایا بلکہ ایسی لوگوں پر بھی لکھا ہے جنھیں عرف عام میں غیرمعروف کہا جاتا ہے ۔عام طور پر اس قسم کی کتابیں یا تو اپنے نمبر بڑھانے کے لیے شائع کی جاتی ہیں یا پھر تعلقات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے۔ مگر اس کتاب کے پہلے صفحے سے ہی مصنف کی ایمانداری اور دیانتداری کا احساس ہونے لگتا ہے۔انھوں نے جس شاعر پر بھی قلم اٹھایا ہے اس کے بارے میں پہلے وافرمعلومات حاصل کی ہے ۔ اس کتاب کا دوسرا بڑا پہلو یہ ہے کہ اس میں خودنمائی کہیں نہیں ہے بلکہ معین شاداب عاجزی اور انکساری کے ساتھ اپنی بات کہتے ہیں۔ ان کی یہ کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نثر بھی ان کی شاعری کی طرح متاثر کن ہے۔ وہ الفاظ کا استعمال بہت کفایت کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ان کی تحریر کی روانی یہ بتاتی ہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے قلم کار ہیں۔ ان کی تحریر کا کھرا پن بھی قاری کو متاثر کرتا ہے۔ جن شاعروں پر انھوں نے قلم اٹھایا ہے ان میں جہاں آنندنرائن ملا، گوہر عثمانی ، شاہد احسن، عرفان صدیقی، منوررانا،معراج فیض آبادی اوراقبال اشہرجیسے مشہور ومعروف شعراءہیں تو وہیں اس فہرست میں ثروت میرٹھی، جنوں سہس پوری ، قمر شاہجہاں پوری ،ضیاءشادانی ، زاہد ٹانڈوی، وسیم نادر، صدف برنی اور یٰسین ذکی جیسے کم جانے پہچانے شاعر بھی ہیں۔
کتاب کا دیباچہ ممتاز فکشن نگار سیدمحمداشرف نے لکھا ہے۔وہ لکھتے ہیں: ”اس کتاب میں جس کی تحریریں پچھلے تین دہوں کی ریاضت کا نتیجہ ہیں ، کچھ معروف اور بقیہ غیر معروف شاعروں کی شاعری کا بیان ہے اور اس بے تکلف بیان میں صداقت، بے ساختگی، شگفتگی اور اچھی نثر کا آہنگ آپس میں مل کر اس طرح یکجان ہوگئے ہیں کہ ایک مضمون شروع کرلیجئے تو جی چاہتا ہے کہ اگلا مضمون بھی پڑھ لیں اور پھر اگلا۔“
کتاب ہر قسم کے عیوب سے پاک ہے ۔خاص طورپر پروف کی اغلاط سے۔ طباعت بھی عمدہ ہے ۔ مصنف نے رواروی یا عجلت میں کوئی کام نہیں کیا ہے بلکہ کتاب کو ہرزاویہ سے نکھارنے کی کوشش کی ہے ۔ میری خواہش ہے کہ وہ نثر کے میدان میں مزید قسمت آزمائیں کیونکہ اس میدان کو علم وادب کے لوگوں نے خالی چھوڑرکھا ہے۔ وہ ان شاءاللہ اس راہ سے کامیاب وکامران گزریں گے۔ میری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔