میں نے ایسے لوگوں کی تلاش و جستجو میں کافی سر مارا جن کی شخصیت صحافت کے دو اہم شعبوں مضمون نگاری اور خطاطی کا سنگم ہو لیکن میں ناکام رہا۔ میں جب بھی ذہن پر زور ڈالتا تو یادداشت کے پردے پر صرف ایک ہی نام ابھرتا اور وہ نام ہے جناب جلال الدین اسلم کا۔ موصوف کی ذات میں ان دونوں اوصاف کی آمیزش اس طرح ہے کہ آپ لاکھ چاہیں دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ان دونوں اوصاف کا کوئی تقابل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم ترازو کے ایک پلڑے میں ان کی صحافت کو رکھیں اور دوسرے میں خطاطی کو تو دونوں برابر نظر آئیں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ نے دونوں کو پیشے کے طور پر اختیار کیا اور دونوں میں آپ درجہ کمال کو پہنچے۔ صحافتی دنیا میں آپ کو ایک باوقار مقام حاصل ہے اور اردو دنیا آپ کو ایک قابل احترام صحافی کی حیثیت سے جانتی پہچانتی ہے۔ جلال الدین اسلم کی شخصیت میں جہاں یہ دونوں خوبیاں نمایاں ہیں وہیں ایک اور خوبی نمایاں ہے اور وہ ہے ان کی انسان دوستی۔ وہ ایک بہت اچھے انسان ہیں جو دوسروں کی مدد میں پیش پیش رہتے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو اوروں کے کام تو آتے ہیں لیکن کام کا کوئی صلہ نہیں چاہتے۔ دہلی ایک بہت بڑا شہر ہے۔ یہاں ایک سے ایک خطاط اور کاتب موجود ہے۔ کمپیوٹر کی آمد سے خطاطی اور کتابت کے دور کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے اور اب اس فن کے ماہرین خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ دہلی میں صحافیوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ ایک وقت تھا جب پورے ملک سے لاتعداد اردو اخبارات شائع ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب دوسری زبانوں کے اخباروں کی تعداد میں تخفیف کے ساتھ ساتھ اردو اخباروں کی تعداد میں بھی کمی آتی جا رہی ہے۔ تاہم دہلی سے اب بھی متعدد اخبارات نکلتے ہیں اور بے شمار صحافی سرگرم ہیں۔ لیکن صحافیوں کی بھیڑ میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو دہلی کے باہر بھی اپنی شناخت رکھتے ہوں یا جن کے مضامین اور کالموں کو دلچسپی سے پڑھا جاتا ہو۔ جلال الدین اسلم ان صحافیوں میں الگ، منفرد اور ممتاز مقام رکھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی اخبارات و رسائل کی نذر کر دی۔ صحافی کی حیثیت سے بھی اور خطاط کی حیثیت سے بھی۔ انھوں نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ دہلی سے شائع ہونے والے روزنامہ ”قومی آواز“ میں گزارا یعنی پاو صدی سے زائد۔ قومی آواز میں صحافیوں اور کاتبوں کے تقرر میں بھی ان کا گراں قدر رول رہا ہے۔ وہ یوں تو قومی آواز کے ہیڈ آرٹسٹ تھے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ صحافت کے میدان میں بھی سرگرم تھے اور وہاں بھی اپنے جوہر دکھاتے رہے۔ وہ مختلف اخبارات میں اپنی فنکاری کے جلوے دکھاتے اور بعض اوقات ان کی خطاطی کے نمونوں کی شہرت دہلی اور ملک کی حدودکے پار بھی پہنچ جاتی۔ لیکن میں یہاں ان کی خطاطی پر نہیں بلکہ ان کی صحافت پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی ادارت میں نکلنے والے اخبارات اور وہ اخبارات جہاں انھوں نے بحیثیت صحافی کام کیا اور جن اخباروں میں ان کے کالم پابندی سے شائع ہوتے رہے، وہ ان کی معیاری صحافت کے گواہ ہیں۔ جن لوگوں نے ان کے جاری کردہ اخبارات ”اخبار اردو“ اور ”تعمیر ہند“ کا مطالعہ کیا ہوگا وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ بڑے بڑے پیشہ ور صحافیوں اور مدیروں سے بھی بڑے صحافی ہیں۔ ہفت روزہ ”اخبار اردو“ ایک منفرد اخبار تھا جو روزنامہ سائز پر نکلتا تھا۔ اس میں جہاں ان کی ادارتی خصوصیات نمایاں تھیں وہیں اس کی کتابت اور خطاطی میں بھی ان کا دخل نمایاں تھا۔ اسی طرح ”تعمیر ہند“ میں بھی وہ اپنی صحافتی صلاحیتوں کا استعمال کرتے اور خطاطی کے اپنے فن کا بھی۔
وہ پابندی کے ساتھ مضمون نویسی کیا کرتے۔ اپنے اخبار کے لیے لکھنا تو ناگزیر تھا لیکن جب وہ صرف خطاط کی حیثیت سے کام کرتے رہے تب بھی مضامین لکھتے رہے ہیں۔ خواہ روزنامہ قومی آواز کی ملازمت کے دوران کا وقفہ ہو یا پھر دوسرے اخبارات و رسائل سے ان کی وابستگی کا دورانیہ ہو۔ انھوں نے اپنی زندگی میں سیکڑوں مضامین لکھے جو ملک کے مختلف اخبارات کی زینت بنے۔ ادھر حالیہ دنوں تک ان کی کالم نویسی کا سلسلہ جاری تھا۔ اب بھی وقتاً فوقتاً ان کی کوئی تحریر اخبارات کے دفاتر میں پہنچ جاتی ہے۔ دراصل انھوں نے جن اخباروں میں اور جن صحافیوں کے ساتھ کام کیا وہ سب بڑے اخبار اور بڑے صحافی تھے۔ ان دفاتر میں انھوں نے صحافت کے گُر سیکھے جو آگے چل کر ان کے کام آئے۔ انھوں نے لاتعداد اخباروں میں بحیثیت صحافی اپنی خدمات انجام دیں۔ جن میں جماعت اسلامی کا اخبار ”دعوت“، ملک کے معروف سیاسی رہنما پیلو مودی کا اخبار ”مارچ آف دی نیشن“، روزنامہ ”قومی آواز“، ”جدید خبر“ اور رسائل میں رامپور سے نکلنے والا ”ماہنامہ نور“، ”مشاہدہ“ و ”محراب“ قابل ذکر ہیں۔ جبکہ جن اخباروں کے لیے انھوں نے مستقل کالم نگاری کی ان میں ”انقلاب“، ”راشٹریہ سہارا“، ”اخبار مشرق“ اور ”روزنامہ خبریں“ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
یہ ان کی خوش قسمتی رہی کہ انھیں بڑی شخصیات کی صحبت نصیب ہوئی۔ انھوں نے ان کے ساتھ کام کیا اور ان سے صحافت کے رموز و اوقاف سیکھے۔ اپنے عہد کے ایک عظیم صحافی مولانا محمد عثمان فارقلیط بھی ان کے استاد رہے ہیں۔ وہ اپنے مضامین پر ان سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ اسی طرح مائل خیرآبادی بھی ان کے استاد بلکہ باضابطہ استاد تھے۔ ان کے علاوہ محمد مسلم، عشرت علی صدیقی، محفوظ الرحمن، سلامت علی مہدی اور موہن چراغی وغیرہ کے ساتھ بھی انھوں نے کام کیا۔ یہ وہ نام ہیں جو اردو صحافت کے آفتاب و ماہتاب مانے جاتے ہیں اور پوری اردو دنیا ان کی قدر کرتی ہے۔ ایسی شخصیات کے پہلو میں بیٹھ کر آپ نے صحافت سیکھی اور قلم کی حرمت کو جانا۔ جبکہ کچھ ایسی شخصیات بھی ان کی زندگی میں آئیں جن کے فکری نقوش ان کے مزاج پر مرتب ہوئے۔ ان میں مولانا ابوللیث ندوی قابل ذکر ہیں۔ جبکہ عہد حاضر کے صحافیوں میں سہ روزہ دعوت کے سابق مدیر پرواز رحمانی سے آپ کے دیرینہ دوستانہ مراسم ہیں۔ ذرا سوچیے کہ جس شخص نے ایسی بلند پایہ شخصیات کی صحبت پائی ہو اس کی اپنی شخصیت میں نکھار کیوں نہ آئے۔میدان صحافت سے الگ ہٹ کر بھی اپنے اپنے شعبوں میں ملک کی اہم شخصیات سے ان کے مراسم رہے ہیں۔
انھوں نے اپنی پوری زندگی اردو صحافت کے نام کر دی۔ جس کے عوض انھیں عزت و احترام ملا، وقار و اعتبار ملا اور ایک باعزت مقام حاصل ہوا۔ لیکن انھوں نے کبھی اپنے اس مقام پر فخر نہیں کیا۔ ہمیشہ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزاری۔ خاکساری و انکساری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ کبھی بھی اپنی خوبیوں، صلاحیتوں اور کامیابیوں و کامرانیوں کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا۔ ان کی انسان دوستی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ انھوں نے دوسروں کے نام سے بھی مضامین لکھے۔ لیکن اس کا ذکر وہ کسی سے نہیں کرتے۔ صرف ان کے مخصوص حلقے کے لوگوں کو ہی اس بات کا علم ہے۔ قارئین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے اردو صحافی بھی پائے جاتے ہیں جو خود کو اخبار کا ایڈیٹر کہتے ہیں لیکن ان کے اندر ایک جملہ بھی لکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں کی دلجوئی کے لیے بھی آپ نے مضامین لکھے ہیں۔
بہرحال قارئین کے ہاتھوں میں ان کے مضامین کا مجموعہ ”نقد و نظر“ ہے۔ یہ وہ مضامین ہیں جو حالیہ عشروں میں لکھے گئے ہیں۔ زیر نظر مجموعہ میں مختلف موضوعات پر بہترین مضامین شامل ہیں۔ انھوں نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ان میں سیاسی، سماجی، مذہبی، تعلیمی، اصلاحی، شخصی اور تبصراتی سبھی طرح کے شامل ہیں۔ قارئین اس بات کو محسوس کیے بغیر نہیں رہیں گے کہ جلال الدین اسلم کے مضامین میں دو خصوصیات نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔ ایک ملی فکر اور دوسری زبان و بیان کا معیار۔ آجکل کے بیشتر صحافیوں کے یہاں نہ کوئی فکر ہے اور نہ ہی انھیں زبان آتی ہے۔ اسلم صاحب اپنے مضامین کے آئینے میں پکے سچے مسلمان نظر آتے ہیں۔ ان کی زبان انتہائی صاف ستھری اور شستہ و شگفتہ ہے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی ہے۔ ان کا انداز بیان بڑا پرکشش اور جاذب نظر ہے۔ ان کے برجستہ جملے اور منفرد انداز تحریر قاری کو مسحور کر دیتے ہیں اور وہ پورامضمون پڑھنے کے لیے بے چین ہو جاتا ہے۔
ان کے کالموں کے عناوین بھی اچھوتے ہوتے ہیں جن سے زبان و بیان پر ان کی قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کے اندر شعری ذوق بھی ہے جس کا اظہار عنوانات سے ہوتا ہے۔ انھوں نے بہت سے کالموں کا عنوان کسی مصرع سے باندھا ہے۔ جیسے کہ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے، مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں، اردو ہے جس کا نام، مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا، وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر وغیرہ وغیرہ۔ جس طرح روزنامہ قومی آواز کے اداریے کے اوپر ایک شعر ہوتا اور وہ بتا دیتا کہ اداریے میں کیا کچھ لکھا گیا ہوگا۔ اسی طرح ان کے مصرعے بتا دیتے ہیں کہ کالم میں کیا کچھ لکھا گیا ہوگا۔ اسلم صاحب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ایسے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں جن کو استعمال کرنے کا خیال بہت کم لوگوں کو آتا ہے یا جو ان الفاظ کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن وہ ایسے برجستہ انداز میں کم مستعمل الفاظ کا استعمال کرتے ہیں کہ قاری کہہ اٹھتا ہے کہ ہاں یہاں بالکل یہی لفظ فٹ ہو رہا تھا۔ انھوں نے مختلف شخصیات پر بھی کالم لکھے اور ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔ نمونے کے طور پر یہ نام ملاحظہ فرمائیں: مولانا محمد علی جوہر، علامہ عنایت اللہ مشرقی، قاضی عدیل عباسی، حاجی بدرالدین انصاری، مولانا قمر الزماں اصلاحی، مولانا نظام الدین اصلاحی اور ریاض قدوائی وغیرہ۔
صحافت کے بارے میں ان کا اپنا ایک نظریہ ہے جس کا اظہار وہ اکثر و بیشتر کرتے رہے ہیں۔ یہ اظہار تحریری شکل میں بھی ہوتا ہے اور زبانی بھی۔ مثال کے طور پر ان کا کہنا ہے کہ:
”صحافت کا مزاج ہمیشہ باغیانہ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے دور غلامی میں بلوغت حاصل ہوئی“۔
کہنے کو تو یہ محض ایک جملہ ہے لیکن اتنا جامع اور بھرپور ہے کہ اس کی تشریح کے لیے پورا مضمون چاہیے۔ اسی طرح وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ:
”غالب کا اپنے اجداد کے پیشے پر فخر بجا لیکن انھیں کیا معلوم ہو چکا تھا کہ تلوار اب اپنی قدر کھو چکی ہے۔ لوہا بہت تیزی سے اپنی شکلیں بدل رہا ہے۔ لیکن سماج میں ابھی قلم کی عزت و حرمت باقی ہے۔ چنانچہ غالب نے تلوار کے بجائے قلم اٹھا لیا۔ اس جدید اسلحہ سے غالب نے وہی کام لیا جو ان کے بزرگوں نے تلوار سے لیا تھا۔ غالب کا یہ فیصلہ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ تھا“۔
”صحافت آنے والے دنوں کی تاریخ کا پہلا مسودہ ہے۔ آج کی تحریر کل کی تاریخ ہوگی اور اس تحریر کی بنیاد پر ہی آنے والے مورخین لکھیں گے۔ آج کے جدید معاشرے میں قلم، آواز اور تصویر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے“۔
ان کی تحریر کے کچھ اور نمونے جن میں ان کی فکر جھلکتی نظر آرہی ہے:
”کتنے ایسے لوگ ہیں جو زمین پر مشہور ہیں مگر آسمان پر گمنام ہے اور کتنے ایسے ہیں جو زمین پر گمنام ہیں مگر آسمان پر مشہور ہیں۔ بے شک عزت تقویٰ سے ہے طاقت سے نہیں“۔
”کیا یہ حقیقت نہیں کہ کچھ لوگ حق پر لکھتے ہیں مگر ان کی تحریر میں حق پیچھے رہ جاتا ہے اور ان کی شخصیت آگے آجاتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات تو یہ ہوتا ہے کہ بیچارے حق کا دور دور تک سراغ نہیں ملتا۔ ہر طرف لکھنے والے کی شخصیت ہی جلوہ گر ہوتی ہے کہیں اچھلتی کودتی ہوئی، کہیں چھپنے کی کوشش میں مزید نمایاں ہو جاتی ہے، کہیں چپکی ہوئی ہوتی ہے۔ اصل مسئلہ نیت کا ہے اور یہی حق ہے“۔
”لکھنا محض وسیلہ روزگار نہیں، یہ اپنی قوم سے وابستگی کا وہ حلف ہے جسے صاحبِ ضمیر اٹھاتے ہیں۔ لکھنا وہ سہ پہلو منشور ہے جس میں چھن کر قلم کی روشنی میں رنگوں کی تہہ مرتب ہو جاتی ہے“۔
”سیاست میں انتخاب جیتنے کے لیے سب جائز ہے۔ جھوٹ بولنا تو ایک اضافی خوبی ہے۔ لیکن نفرت و تعصب کا بیج بو کر جس نے جہاں بھی سیاست کا کھیل کھیلا ہے اس کا پھل وہ ضرور کھاتا ہے“۔
جلال الدین اسلم کی تحریر کے مزید ایسے نمونے پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں ان کی فکر نمایاں ہے اور یہ بھی بہت واضح ہے کہ دنیا، اہل دنیا،اور مال و متاع دنیا کے بارے میں ان کا نظریہ کیا ہے۔ بعض تحریروں میں دانشورانہ رنگ ہے، بعض میں محققانہ اور بعض میں خاکسارانہ۔ لیکن میں ان کی تحریر کے مزید نمونے پیش کرنے سے گریز کرتا ہوں تاکہ قارئین خود اس کتاب کا مطالعہ کریں اور ان کے مضامین اور کالموں سے لطف اندوز ہوں۔
جناب جلال الدین اسلم صرف ایک صحافی ہی نہیں بلکہ مصنف اور آپ بیتی نگار بھی ہیں۔ اس کے ثبوت میں ان کی خود نوشت ”آپ بیتی“، ”میرا گاؤں مرے لوگ“، ”رمضان قرآن اور ہم“ اور ”بچھاوت کمیشن اور کاتبوں کو صحافی کاد رجہ“ پیش کیا جا سکتا ہے۔ میں اس کتاب کی اشاعت پر جلال الدین اسلم کو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اسے خوب پذیرائی حاصل ہو۔