معروف ادبی شخصیات نے مرحوم کی افسانوی وادبی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا
پٹنہ: شفیع جاوید ایک غیر معمولی صلاحیت کے افسانہ نگار تھے۔ زبان و بیان پر مکمل قدرت تھی۔ وہ تاریخ و تہذیب سے مکالمہ کرتے ہوئے وقت کا ایک نادر تصور پیش کرتے تھے۔ وہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے شور و شر سے الگ اپنے رنگ پہ چلے۔ ان کی تحریر میں ایک صوفیانہ گہرائی اور ارتکاز ملتا ہے۔ ذاتی زندگی میں وہ نستعلیق اور بلند و بالا شخصیت کے مالک تھے۔ دوسروں کو عزت دینا اور انسانی جہات سے توجہ قائم رکھنا ان کا خاص انداز تھا۔ گذشتہ چھے دہائی میں بہار نے اردو افسانے کے اُفق پر جو سب سے طاقت ور ستارہ روشن کیا، وہ ان کی وفات سے مندمل ہوگیا مگر ان کی یادیں اور ان کی تحریریں ہمیں یاد آتی رہیں گی اور ان پر غور و فکر اور احتساب کا عمل چلتا رہے گا۔
بزمِ صدف انٹرنیشنل اور بہار اردو اکادمی کی مشترکہ کوششوں سے اتوار کی سہ پہر بہار اردو اکادمی کے ہال میں شفیع جاوید کی یاد میں ایک مخصوص تعزیتی نشست ہوئی۔ جس میں عمائدینِ عظیم آباد جمع ہوئے اور انھوں نے مذکورہ خیالات کا اظہار کیا۔ ممتاز افسانہ نگار اور شفیع جاوید کے سب سے پرانے دوستوں میں سے ایک جناب شفیع مشہدی نے اپنی یادیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری دوستی کے ۳۵/برس مکمل ہوگئے۔ اب مجھے کوئی تم کہنے والا موجود نہیں۔ اب شفیع جاوید کی یادیں ہی ہماری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ شفیع جاوید کہانی کہتے کہتے خود کہانی ہوگئے۔ میرا غم یہ ہے کہ میں نے اپنا سب سے پرانا رفیق کھو دیا ہے۔معتبر نقاد اور شاعر پروفیسر علیم اللہ حالی نے بتایا کہ شفیع جاوید نے اردو نثر کے وقار کو بلند کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی خدمات سے انھوں نے ایک ایسی صورت پیدا کی جب نثر شاعری پر اپنی فوقیت ظاہر کرسکتی ہو۔ اسی وجہ سے ان کے افسانوں نے اپنا بلند قد پایا۔ ان کے ارتحال سے میں نے اپنا بہت ہی پیارا دوست کھویا ہے۔ ان کا اندازِ تخاطب، ان کی سرگوشیاں اور محبوبانہ کیفیت؛ سب میری یادوں کا حصہ ہیں۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد نے شفیع جاوید کی شخصیت اور ان کے خطِ تحریر کی نفاست کے حوالے سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ وہ کس قدر معیاری اور بلند و بالا شخصیت کے حامل تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بہار کی اردو تحریک اور اس کے جو نتائج برآمد ہوئے، اس میں راج بھون کی ایک کوٹھری میں بیٹھ کر شفیع جاوید بھی اپنے حصے کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ممتاز شاعر خورشید اکبر نے اپنے تاثرات کے اظہار میں کہا کہ وہ ایک غیر معمولی افسانہ نگار تھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ پڑھتے سب کچھ تھے مگر وہ اپنے انداز کا لکھتے تھے۔ بظاہر سہل انداز ہوتا مگر وہ اسلوب میں پیچ در پیچ کیفیات سمو دیتے تھے، اسی لیے ان کے افسانے ایک ہی ساتھ آسان اور مشکل تھے۔ وہ افسانے کے کئی نئے پرانے رنگوں کو ملا کر ایک نیا افسانہ کچھ اس طرح سے گڑھتے تھے جیسے یہ انھی کے لیے مخصوص ہو۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں وہ ملاقاتوں کے دوران مشاہدے اور تجربے کے بارے میں ہدایتیں دیتے تھے۔ ڈاکٹر ریحان غنی نے بتایا کہ آخری دور میں وہ مخصوص صوفیانہ انداز کی شخصیت میں بدل چکے تھے۔ انسان اور خدا کے رشتوں کی باریکیوں میں وہ ہمہ تن فکر میں شامل ہوتے۔ اپنی ڈائریوں میں اس سلسلے سے چھوٹی بڑی سینکڑوں تحریریں انھوں نے درج کر رکھی تھیں۔ وہ معاملات میں کھرے اور نہایت محبت دار آدمی تھے۔ اپنے چھوٹوں اور دوسروں کو بہت کچھ دینا چاہتے تھے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ انھیں لوگوں نے ٹھیک طور پر سمجھا بھی نہیں تھا۔ ڈاکٹر سید فضلِ رب نے اپنے پانچ دہائیوں پر مشتمل تعلقات کی تفصیل پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سایہ دار اور پھل دار درخت تھے۔ ان کے پاس جو بھی گیا، وہ مستفیض ہوا۔ دوسروں کا اور بالخصوص عزیزوں کا ایسا خیال رکھنے والا آدمی ہم نے نہیں دیکھا۔ مشتاق احمد نوری نے اپنی الگ الگ دور کی مختلف تحریروں کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے شفیع جاوید کی شخصیت پہ مختلف رنگوں کی وضاحت کی۔ انھوں نے ان کی دفتری زندگی، سبک دوشی کے بعد کی زندگی او رحالیہ برسوں میں انھوں نے اپنے کو جس انداز سے بدل لیا تھا، اس کے فرق کو بتانے کی کوشش کی۔اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائرکٹر امتیاز احمد کریمی نے بتایا کہ میں انھیں انسانیت اور اعلا قدروں کا پیکر سمجھتا ہوں۔ ایسی شرافت اور نیکی ہم نے کم دیکھی ہے۔ وہ جب ہمیں دعائیں دینے لگتے تو میری پلکیں بھیگ جاتی تھیں۔ میری گزارش پر وہ گذشتہ ۷۲/اکتوبر کو اردو ڈائرکٹوریٹ کے مخصوص پروگرام میں وہ صدارت کے لیے تشریف لائے۔ یہ ان کی زندگی کا آخری پروگرام ثابت ہوا۔ امتیاز احمد کریمی نے اردو ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے ان کے افسانوں کی کلیات اور ان کی دیگر تحریروں کو شایع کرنے کا اعلان کیا۔ ان کتابوں کی تفصیلات صفدر امام قادری نے تقریب میں بتائیں جن کی اشاعت کا انتظام کیا جانا باقی ہے۔
معروف شاعر شمیم قاسمی نے شفیع جاوید کے افسانوں کی اسلوبیاتی تازگی اور رکھ رکھاؤ، بیان کی نفاست جیسے اوصاف کی داد دی۔ ڈاکٹر اظہار خضر نے واضح کیا کہ ان کے افسانوں میں سماجی، سیاسی اور تہذیبی بصیرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور انھوں نے اپنا مخصوص انداز وضع کیا تھا۔ ڈاکٹر شاہد جمیل نے اپنی تقریر میں بتایا کہ وہ محتاط لکھنے والے آدمی تھے، ان کی نفاست اور خوش سلیقگی کا کوئی جواب نہیں تھا۔ معروف صحافی ریاض عظیم آبادی نے بتایا کہ شفیع جاوید میں نفاست ہی نہیں تھی بلکہ وہ بے حد ملنسار آدمی تھے۔ سید فیاض حالی نے یہ بتایا کہ شفیع جاوید کے قد کا ہمیں ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں، آنے والے وقت میں ہی ہم ان کا صحیح طور پر جائزہ لے سکیں گے۔
معروف ناول نگار عبدالصمد نے اپنی تقریر میں انھیں اپنے عہد کا آخری بڑا افسانہ نگار قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ایسی شگفتہ اور خوب صورت زبان لکھنے والا کوئی دوسرا افسانہ نگار نہیں۔ عبدالصمد نے کہا کہ ہماری نسل کے لکھنے والوں نے ان سے زبان اور افسانے کا ہنر سیکھا۔ وہ اپنی تحریروں سے ہماری خاموش تربیت کرتے تھے۔ وہ نئے لوگوں کی تحریروں کو نہ صرف یہ کہ پڑھتے تھے بلکہ اپنے تاثرات کا بھی واضح بیان کرتے تھے۔ انگریزی زبان کے نقاد ڈاکٹر سید افروز اشرفی نے اپنی گفتگو اپنے والد پروفیسر وہاب اشرفی اور شفیع جاوید کے باہمی تعلقات سے شروع کی اور یہ بتایا کہ میں نے شفیع جاوید کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ پایا کہ وقت کا ایسا ستھرا تصور اردو کے شاید ہی کسی افسانہ نگار میں دیکھنے کو ملے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے افسانے پڑھیے تو ایسا محسوس ہوگا کہ تاریخ اور تہذیب سے ہمارا مکالمہ چل رہا ہے۔ افروز اشرفی کا کہنا تھا کہ ماضی اور بالخصوص وقت کو اپنی تحریر میں اظہار کا ایسا حسن دینے والا کوئی دوسرا افسانہ نگار ہماری زبان میں نہیں۔ اس بیان میں ان کے یہاں ایک طرف طنز ہے تو دوسری طرف حزن کی ایک کیفیت بھی ہے۔ تعزیتی نشست کے آغاز میں محترمہ شبنم نے شفیع جاوید کی شخصیت اور ان کی زندگی کے آخری دور پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ میرے لیے غیر ہوکر بھی اپنوں جیسے لگتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی کو سنہرے گیت کی طرح شفیع جاوید جی رہے تھے۔
اس پروگرام کے منتظم صفدر امام قادری نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ انھوں نے شفیع جاوید سے اپنے دیرینہ تعلقات اور خاص طور پر موت سے پہلے کی اس بیمار رات کا تذکرہ کیا اور یہ بات کہی کہ ادبی برادری کے وہ شاید آخری آدمی تھے جن کی شفیع جاوید سے ملاقات رہی اور اسپتال میں خیر و عافیت اور اشارے کنایے کے چند بول سننے اور دیکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے بتایا کہ گذشتہ کئی برسوں سے شفیع جاوید کی تخلیقات کی ترتیبِ نو اور بکھری تحریروں کو جمع کرنے کا سلسلہ چل رہا تھا۔ ان کے تقریباً ایک سو افسانوں پر مشتمل کلیات ’حکایتِ ناتمام‘ کے عنوان سے تیار ہوچکی ہے۔ جس کی شفیع جاوید نے اپنی قلم سے اصلاح بھی کر لی تھی۔ شفیع جاوید کے سلسلے سے شخصیت اور کارناموں پر جو مضامین لکھے گئے، ان کی ایک جلد بہ عنوان ’شفیع جاوید اپنی تلاش میں‘ بھی پایہئ تکمیل تک پہنچ چکی ہے۔ اخباروں میں ان کے شایع شدہ کالم اور ان کے ادبی مضامین، خاکے اور متفرق خطوط بھی علاحدہ جلدمیں جمع کرلیے گئے ہیں۔ شفیع جاوید کے نام آئے مشاہیر کے خطوط بھی ایک مکمل جلد میں جمع ہوچکے ہیں۔ ان کی ڈائریوں اور متفرق تخلیقات کی ترتیب و اشاعت کا کام ابھی چل رہا تھا اور گذشتہ ۶۱/اکتوبر ۹۱۰۲ء کو بزمِ صدف کے پروگرام میں شفیع جاوید کی موجودگی میں یہ اعلان ہوا تھا کہ آیندہ سال مارچ تک ان کے سلسلے کی تین چار جلدیں منظرِ عام پر آئیں گی اور ان کی شخصیت اور کارناموں پر ایک مکمل سے می نار منعقد کیا جائے گا۔ صفدر امام قادری نے اس بات کو جبرِ مشیت سے منسوب کیا کہ خدا کو شفیع جاوید کی زندگی میں یہ منظور نہیں تھا مگر انھوں نے کہا کہ آیندہ مارچ تک ہم یہ سب کام اشاعت کی منزلوں سے گزار کر منظرِ عام پر لے آئیں گے۔ انھوں نے اردو ڈائرکٹوریٹ کے ڈائرکٹر امتیاز احمد کریمی کی پیش قدمی اور فراخ دلانہ اعلان کا خیر مقدم کیا اور یہ واضح کیا کہ انھیں تیار شدہ جلدیں اشاعت کے لیے پیش کردی جائیں گی اور انھیں شایع کردیں گے۔ انھوں نے ان ریسرچ اسکالرس کا تذکرہ کیا جنھوں نے اس دوران شفیع جاوید کی تخلیقات جمع کرنے اور ان کی ترتیب و تدوین میں علمی مشقت اٹھانے سے گریز نہیں کی۔ صفدر امام قادری کے شکریے کے ساتھ یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔