Home تجزیہ نام کی سیاست،ذات کی سیاست،مذہب کی سیاست اور اب کام کی سیاست

نام کی سیاست،ذات کی سیاست،مذہب کی سیاست اور اب کام کی سیاست

by قندیل

 

تحریر: مسعود جاوید

ہندوستان ١٩٤٧ میں آزاد ہوا۔ اس ملک کو انگریزوں کی استعماریت سے آزاد کرانے میں ہر طبقے ،بلا تفریق مذہب ملت ذات برادری عورت مرد، کا کم و بیش رول تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس گاندھی جی کی قیادت میں آزادی کی جدو جہد کی تحریکوں میں سب سے اہم پارٹی تھی۔ اس پارٹی کے چوٹی کے قائدین گاندھی نہرو پٹیل اور آزاد کے نام بہت نمایاں اور زبان زد عام تھے۔ تقسیم ملک کے المیہ کے دوران ان قائدین کی ہندو مسلم یک جہتی قائم رکھنے کی جدو جہد نے لوگوں کے دل و دماغ پر اچھے نقوش چھوڑا اور اس طرح ١٩٤٧ -٦٤ کے دور کو سنہرا دور اور نہرو کو نۓ ہندوستان کا معمار کہا جاتا ہے۔
نام کی سیاست : اس میں شک نہیں کہ مابعد آزادی کے شروعاتی دور کے چیلنجوں اور مشکلات کے باوجود نہرو دور کی کئ حصولیابیاں قابل فخر و ستائش ہیں ۔ نہرو کے بعد لال بہادر شاستری جو ١٩ ماہ بعد ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس کے بعد اندرا گاندھی گرچہ گاندھی کا لاحقہ ان کے شوہر ایک پارسی مذہب کے فیروز گاندھی سے شادی کی وجہ جوڑا گیا ہے لیکن ملک اور بیرون ملک بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ اندرا گاندھی کا مہاتما گاندھی سے خاندانی نسبت ہے۔ بہر حال کا‌نگریس، گاندھی، نہرو پٹیل اور آزاد کے نام کا سکہ ایسا چلا کہ دوسری کوئی متحرک سیاسی پارٹی ابھرنے کی جرأت نہیں کر سکی۔ ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ آر ایس ایس کے نظریات پر مبنی ہونے کی وجہ سے عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اور اس طرح کانگریس ،اپنی کارکردگی پر کم اور آباء و اجداد کے نام پر زیادہ، سالہاسال اقتدار میں آتی رہی۔ یہاں تک کہ بغیر کسی چیلنج کے اقتدار میں رہنے کے زعم نے اندرا گاندھی کو مطلق العنانیت کی راہ پر ڈال دیا اور اسی مطلق العنانیت کی سے مغلوب انہوں نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد ملک میں اس سیاہ قانون کے خلاف بغاوت اور اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔

ذات کی سیاست : ١٩٧٩ – ١٩٩٠ اس دور میں ملک نے ذات برادری کی سیاست دیکھا۔۔ دستور ہند میں دی گئی درج فہرست قبائل و طبقات کے لئے خصوصی مراعات اور ریزرویشن کے حامی اور مخالفین کے ما بین خونی تصادم۔ اور اس کے نتیجے میں ذات برادری کی بنیاد پر سیاست اور سماج میں بالخصوص انتخابات کے دوران ذات کی بنیاد پر لام بندی polarization.

مذہب کی سیاست : ١٩٩٠ سے ہندوستان میں ایک مخصوص طبقے نے متشدد مذہبی سیاست کی از سر نو شروعات کی۔ رتھ یاترا کے ذریعے ہندو مسلم منافرت کا زہر گاؤں گاؤں پروسا گیا اور بابری مسجد شہید کی گئی۔ اس کے بعد سے اب تک بتفاوت شدت یہ عمل جاری ہے بالخصوص انتخابات کے زمانے میں مذہبی منافرت اور لام بندی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن جیتنے کے اجزاء ترکیبی ingredients کا سب سے اہم جزء مذہبی منافرت ہی ہے۔ الیکشن کا دن ایک قومی تہوار کے طور خوشی خوشی منانے اور اپنےدستوری حق کے استعمال کے بارے میں سوچنے کی بجائے ماحول اس قدر زہر آلود بنا دیا جاتا ہے کہ ہر شخص اس عرصے میں سہما ہوا محتاط نقل و حرکت پر مجبور ہوتا ہے۔

کام کی سیاست : دہلی میں اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم کے دوران ماحول بگاڑنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی۔ بی جے پی کی تقریر و تحریر کا محور ہندو مسلم منافرت آخر تک رہا، شاہین باغ، پاکستان، دہشت گردی، ہندوؤں کو شاہین باغ والوں سے خوفزدہ کرنا وغیرہ فرقہ وارانہ نعروں نے دہلی کے عام لوگوں کو بی جے پی سے متنفر کر دیا۔
اس کے مقابل عام آدمی پارٹی نے ہر اس جملے سے احتراز کیا جس سے فرقہ پرستی کا تاثر ملے۔ بی جے پی اور میڈیا والوں کے ذریعے ورغلانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود کیجریوال اور عام آدمی پارٹی کے لیڈرز ہندو مسلم سے متعلق حساس موضوعات پر کسی طرح کی بیان بازی سے باز رہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ ایک ریاستی الیکشن ہے ہمیں اس ریاست سے متعلق موضوعات پر گفتگو کرنی چاہئے۔ ہم نے پچھلے پانچ سالوں میں اسکول، محلہ کلینک، بجلی پانی سڑک بس سروس سی سی ٹی وی کیمرے وغیرہ جیسے کام کۓ ہیں جن سے عوام بالخصوص متوسط و ادنی طبقے کے لوگ بخوبی مستفید ہو رہے ہیں ۔ اگر ہماری پارٹی کی حکومت نے کام کیا ہے تو کام کی بنیاد پر ہمیں ووٹ دیں تاکہ وہ کام حسب معمول جاری رہ سکیں اور اگر آپ نے ایک بار پھر موقع دیا تو ہم مزید کام کر کے دہلی کو ایک اچھا ویلفیئر اسٹیٹ بنا سکیں گے۔ جو کام آنے والے پانچ سالوں میں ہمیں کرنا ہے وہ محض انتخابی منشور کے کھوکھلے وعدے نہیں ہوں گے اسی لئے ہم مینی فیسٹو کی بجائے آپ کو گارنٹی کارڈ دے رہے ہیں۔

میرے خیال میں یہ عین وقت ہے کہ ہر شہری اپنی اپنی ریاستوں میں اس طرز پر "کام کی سیاست” کی بنیاد رکھے۔ "کام کی سیاست” کی پارٹی تشکیل دے یا موجودہ پارٹی اور حکومت کو کام کی سیاست کی کسوٹی پر پرکھے۔ ہندو مسلم ، مسلم، یادو، دلت، اگاڑی پچھڑی بیک ورڈ فارورڈ اقلیت اور اکثریت کی سیاست کو بائ بائ کہ کر نۓ دور کا آغاز کرے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment