Home اسلامیات نمازوں میں تعدیلِ ارکان کا اہتمام کیوں ضروری ہے؟-ڈاکٹر محمد واسع ظفر

نمازوں میں تعدیلِ ارکان کا اہتمام کیوں ضروری ہے؟-ڈاکٹر محمد واسع ظفر

by قندیل

نماز اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جو مقررہ رکعات و طریقے سے ہر مومن پر شب و روز میں پانچ بار وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔ اس کی صحت و قبولیت کے لئے اس کی ظاہری و باطنی کیفیت میں توازن، خشوع و خضوع، اور ادائیگی کے طریقے کا صحیح ہونا ضروری ہے۔ ان میں سے ہی ایک اہم جزو تعدیل ارکان ہے۔ لفظ ’’تعدیل‘‘ عربی میں ’’عدل‘‘ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں برابر اور درست کرنا، سیدھا کرنا، اعتدال و توازن قائم کرنا، معتدل بنانا، متوسط حد میں لانا وغیرہ۔ ’’ارکان‘‘ جمع ہے ’’رُکن‘‘ کی جس کے معنی ہیں کسی چیز، معاملہ یا تنظیم وغیرہ کا جزو لازم یا اہم حصہ ، لہٰذا جب یہ لفظ نماز کے لئے بولا جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے نماز کے وہ بنیادی اجزاء جو اس کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں جیسے قیام، رکوع، سجود ، قعود وغیرہ۔ اس طرح تعدیل ارکان کا مطلب ہے نماز کے ارکان کو درست و مسنون طریقے سے سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرنا، ساتھ ہی ہر رکن کے درمیان اعتدال اور ترتیب کو قائم رکھنا۔ تاہم فقہاء کی اصطلاح میں تعدیل ارکان کا اطلاق بالخصوص رکوع، قومہ یعنی رکوع سے واپس کھڑے ہونے کی حالت، سجدہ، اور جلسہ استراحت یعنی دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی حالت میں اطمینان اور سکون کو ملحوظ رکھنے پر کیا جاتا ہے جس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ان سب مواقع کی تسبیحات و مسنون دعائیں مکمل طور پر پڑھی جائیں۔
جب ارکان اس طرح سکون و اطمینان اور اذکار و مسنون دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ ادا کئے جائیں تو نماز کے اندر حسن اور خشوع پیدا ہوتا ہے، نماز قبولیت کے قریب پہنچ جاتی ہے اور اللہ سے بندے کے تعلق کو مضبوط کرتی ہے۔ اس کے برعکس اگر نماز تعدیل ارکان کے اہتمام کے بغیر عجلت کے ساتھ پڑھی جائے جیسا کہ آج کل مسلمانوں کی اکثریت کا رویہ ہے تو نماز مکمل نہیں ہوتی اور قابل قبول بھی نہیں رہتی بلکہ واجب الاعادہ ہوجاتی ہے۔ ایسے میں نماز کے جو دنیوی اور اخروی ثمرات ہیں، انسان ان سے بھی یقینی طور پر محروم ہوجاتا ہے اور اسے جسمانی ورزش اور اٹھک بیٹھک کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتاحالاں کہ وہ خود کو پابند نمازی سمجھ رہا ہوتا ہے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ شریعت میں صرف نماز کی فرضیت پر زور نہیں دیا گیا بلکہ اسے قائم کرنے اور اس کے ظاہری و باطنی آداب کی رعایت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو ٹھہر ٹھہرکر اور اطمینان کے ساتھ نماز ادا کرنے کی تلقین کی ۔ ایک صحابی کو آپؐ نے جلدی جلدی نماز پڑھتے دیکھا تو انہیں دوبارہ بلکہ سہ بارہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک دفعہ مسجد میں تشریف لے گئے تو ایک اور شخص بھی مسجد میںداخل ہوا اور اس نے نماز ادا کی، پھر اس نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا۔ آپؐ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: ’’ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ‘‘ یعنی ’’واپس جا اور پھر سے نماز پڑھ کیوں کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ چنانچہ اس نے دوبارہ نماز پڑھی اور واپس آکر پھر آپؐ کو سلام کیا۔ آپؐ نے پھر یہی فرمایا: ’’واپس جا کر پھر سے نماز پڑھ کیوں کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔‘‘ تین بار اسی طرح ہوا۔ بالآخر اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میں تو اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا، اس لئے آپؐ مجھے اس کی تعلیم دیجئے۔تو آپؐ نے فرمایا: ’’إِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلَاۃِ فَکَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَیَسَّرَ مَعَکَ مِنَ الْقُرآنِ، ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ افْعَلْ ذٰلِکَ فِي صَلَاتِکَ کُلِّھَا‘‘ ’’ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو (پہلے) تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہو پھر قرآن مجید سے جو کچھ تجھے میسر ہوسکے پڑھو، اس کے بعد رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع میںخوب اطمینان حاصل کرلو، پھر سر اٹھا کر سیدھے کھڑے ہوجاؤ، اس کے بعد سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدے میں خوب اطمینان حاصل کرلو، پھر سر اٹھاکر اطمینان سے بیٹھ جاؤ، اس کے بعد (دوسرا) سجدہ کرو تا آنکہ سجدے میں تجھے اطمینان نصیب ہوجائے، پھر اسی طرح اپنی ساری نماز میں کرو۔‘‘ (صحیح بخاریؒ، حدیث نمبر ۷۹۳)
محدثین نے اس حدیث کو ’’حدیث مُسِییِٔ الصَّلَاۃ‘‘ کا نام دیا ہے یعنی وہ حدیث جس میں نماز میں کوتاہی کرنے والے کا ذکر ہے اور وہ صحابی جن کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا، خلاد بن رافعؓ تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو بار بار نماز پڑھنے کا حکم اس لئے دیا کیوں کہ وہ رکوع و سجود ، قومہ،اور جلسہ وغیرہ ٹھیک طور پر ادا نہیں کررہے تھے۔ اس روایت سے یہ بالکل ظاہر ہے کہ جو نماز اس طرح کی عجلت کے ساتھ پڑھی جائے وہ قابل اعادہ ہوتی ہے۔ اگر حضرت خلاد کی نماز قابل قبول ہوتی تو آپؐ ان کو بار بار نماز کے اعادہ کا حکم نہیں دیتے۔ قبول ہونا تو دور آپؐ نے ایسے شخص کی نماز کے سلسلے میں جو رکوع، سجود وغیرہ اطمینان سے ادا نہیں کرتا یہ ارشاد فرمایا: ’’لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ إِلٰی صَلَاۃِ رَجُلٍ لَا یُقِیْمُ صُلْبَہُ بَیْنَ رُکُوعِہِ وَ سُجُوْدِہِ‘‘ یعنی اللہ اس شخص کی نماز کی طرف دیکھتا تک نہیں جو رکوع و سجود کے درمیان اپنی پشت سیدھی نہیں کرتا۔ (مسند احمدؒ، حدیث نمبر ۱۰۸۱۲، بروایت حضرت ابوہریرہؓ)۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ نبی کریمﷺ نے یہ فرمایا کہ جب کوئی شخص اچھی طرح وضو نہیں کرتااور رکوع، سجود ، اور قرأت کو مکمل نہیں کرتا تو وہ نماز آسمان پر جانے سے روک دی جاتی ہے اور پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر اس نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد للہیثمیؒ، حدیث نمبر ۲۷۳۴)
دوسری روایت میں ہے کہ رکوع و سجود مکمل ادا نہیں کرنے والے کو آپؐ نے بدترین چور قرار دیا ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ـ ’’لوگوں میں سب سے برا چور وہ ہے جو اپنی نمازسے چوری کرتا ہے۔‘‘ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ وہ اپنی نماز سے چوری کیسے کرتا ہے؟ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’لَا یُتِمُّ رُکُوعَھَا، وَلَا سُجُوْدَھَا‘‘ یعنی ’’وہ اس کے رکوع اور اس کے سجود کو مکمل ادا نہیں کرتا۔‘‘ (صحیح ابن حبانؒ، حدیث نمبر ۱۸۸۸، بروایت حضرت ابوہریرہؓ )۔ رکوع و سجود کے مکمل ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ان میں کم از کم تین بار تسبیحات اطمینان سے پڑھی جائیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی رکوع کرے اور وہ رکوع میں ’’سبحان ربی العظیم‘‘ تین مرتبہ کہے تو اس کا رکوع مکمل ہوگیا اور یہ ادنیٰ درجہ ہے اور جب وہ سجدہ کرے اور اپنے سجدے میں تین بار ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ کہے تو اس کا سجدہ مکمل ہوگیا اور یہ ادنیٰ درجہ ہے۔‘‘ (سنن ترمذیؒ، حدیث نمبر ۲۶۱)۔
اس روایت کو امام ترمذیؒ کے علاوہ امام ابوداؤدؒ اور امام ابن ماجہؒ نے بھی اپنی اپنی سنن میں نقل کیا ہے (دیکھیں علی الترتیب حدیث نمبر ۸۸۶ اور ۸۹۰) لیکن اس روایت کی سند متصل نہیں اور ایک راوی اسحاق بن یزید بھی مجہول ہے۔ اس کے باوجود متعدد طرق اور رسول اللہ ﷺ کی بعض فعلی احادیث کی بنا پر جن میں تین بار تسبیحات کہنے کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے عملاً ملتا ہے، شیخ البانیؒ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور اسی پر تمام اہل علم کا عمل بھی ہے۔ علماء اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ رکوع و سجود میں تین بار سے کم تسبیحات نہ پڑھی جائیں بلکہ تسبیحات کی اسی مقدار کو وہ ادنیٰ درجہ کی سنت اور اس سے کم پڑھنے کو مکروہ قرار دیتے ہیں۔ علامہ عبداللہ بن مبارکؒ امام کے لئے پانچ بار تسبیحات کا پڑھنا مستحب قرار دیتے تھے تاکہ جو لوگ ا س کے پیچھے ہوں وہ بآسانی تین دفعہ پڑھ لیں کیوں کہ مقتدی حضرات عام طور پر انتقال ارکان امام کے بعد ہی کرتے ہیں اور یہی مسنون طریقہ بھی ہے۔ یہی رائے علامہ اسحاق بن راہویہؒ کی بھی ہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر ائمہ مساجد بھی تعدیل ارکان کے اہتمام سے غافل پائے جاتے ہیں۔ ان کے پیچھے رکوع و سجود میں تین بار تسبیحات کا پڑھنا بھی مشکل ہوتا ہے، کبھی دو، تو کبھی ایک پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ وہ تیزی سے دوسرے رکن میں منتقل ہوجاتے ہیں اور اطمینان و سکون سے نماز پڑھنے والے مقتدی کو اس کا موقع ہی نہیں دیتے۔ احقر نے ائمہ کے اندر چار درجے کے اعتدال کا مشاہدہ کیا ہے؛ جہری نمازوں کی پہلی دو رکعتوںکے الگ، سری نمازوں کی پہلی دو رکعتوں کے لئے الگ، جہری و سری دونوں نمازوں کی آخری رکعتوں کے الگ، اور انفرادی نمازوں کے لئے الگ یعنی اسی ترتیب سے تعدیل ارکان کے اہتمام میں کمی ہوتی جاتی ہے اور ادائیگی میں رفتار بڑھتی جاتی ہے جب کہ یہ تمام رکعتوں میںخواہ اجتماعی ہوں یا انفرادی،اول درجے کے برابر ہونی چاہیے۔ بالکل یہی معاملہ قرأت کی ترتیل میں بھی پایا جاتا ہے جس کا تمام رکعتوں میں یکساں لحاظ رکھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی امام کو قومہ اور جلسے کی تسبیحات و دعاکا اہتمام بھی کرنا چاہیے تاکہ مقتدی کو ان سے درست طریقے سے نماز ادا کرنے کی سیکھ ملے۔ نیز جلدی جلدی انتقال ارکان کی وجہ سے عمر رسیدہ لوگوں کو اٹھنے بیٹھنے میںجو تکلیف ہوتی ہے وہ بھی رفع ہو۔ اگر نماز کے طویل ہونے کا خدشہ ہو تو قرأت کی مقدار کو کم کرنا چاہیے، یہی نبی کریم ﷺ کی تعلیم ہے۔ ایک صحابیؓ نے رسول اللہ ﷺ سے حضرت معاذ بن جبلؓ کی طویل نماز کی شکایت کی جب انہوں نے عشاء کی نماز میں سورۃ البقرۃ یا سورۃ النساء کی تلاوت کی تھی تو آپؐ نے انہیں سمجھایا اور یہی کہا کہ تو نے {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلٰی}، {وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا}، اور {وَالَّیْلِ إِذَا یَغْشٰی} کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھ لی کیوں کہ تیرے پیچھے بوڑھے، کمزور، اور حاجت مند سبھی طرح کے لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ (صحیح بخاریؒ، حدیث نمبر ۷۰۵)
اس روایت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ نماز میں تخفیف قرأت میں ہے نہ کہ تعدیل ارکان میں اور کامل نماز وہی ہے جو تعدیل ارکان کی رعایت کے ساتھ ادا کی جائے ۔ خود رسول اکرم ﷺ کی نماز مختصر ہوتی تھی لیکن کامل ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے: ’’مَا صَلَّیْتُ وَرَائَ إِمَامٍ قَطُّ أَخَفَّ صَلَاۃً، وَلَا أَتَمَّ صَلَاۃً مِنْ رَسُولِ اللہِ ﷺ‘‘ ’’میں نے کسی امام کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مختصر اور کامل نماز نہیں پڑھی۔‘‘ ( صحیح مسلمؒ، حدیث نمبر ۱۰۵۴)۔ حضرت انسؓ سے ہی روایت ہے کہ آپؐ جب سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر کھڑے ہوتے تواتنا طویل قیام کرتے کہ ہم سمجھتے شاید آپ کو وہم ہوگیا (یعنی آپؐ بھول گئے)، اسی طرح جب آپؐ دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھتے تو ہم (دل میں ) کہتے کہ شاید آپؐ کو وہم ہوگیا۔ (سنن ابی داؤد،ؒ حدیث نمبر ۸۵۳)۔ اسی سلسلے میں حضرت براء بن عازبؓ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں: ’’کَانَ رُکُوعُ النَّبِيِّ ﷺ وَ سُجُودُہُ، وَ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ، مَا خَلَا الْقِیَامَ وَالْقُعُودَ، قَرِیبًا مِنَ السَّوَائِ‘‘ ’’نبی کریم ﷺ کے رکوع و سجود، دونوں سجدوں کے درمیان کا وقفہ اور جب آپؐ رکوع سے اپنا سر اٹھاتے (یعنی قومہ)، یہ سب تقریباً برابر ہوتے تھے، سوا ئے قیام اور قعود کے۔(صحیح بخاریؒ، حدیث نمبر ۷۹۲، ۸۰۱)۔
ان روایتوں سے یہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ نبی کریم ﷺ قومہ اور جلسہ کافی اطمینان سے کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود آپؐ کی نماز مختصر ہوتی تھی تو ظاہر ہے کہ آپ کی طرف سے تخفیف قرأت میں ہی ہوتی تھی۔ صاحب مظاہر حق نے بھی لکھا ہے کہ آپؐ کی قرأت ہلکی ہوتی تھی اور رکوع سجود نیز تعدیل ارکان وغیرہ میں کمی نہیں ہوتی تھی۔(مظاہر حق جدید، دارالاشاعت، کراچی ، ۲۰۰۹؁ء، جلد ۱،صفحہ۷۱۹) ۔ روایتوں میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ رکوع، سجود ، قومہ اور جلسہ میں آپؐ رائج اذکار کے علاوہ کئی طرح کی دعائیں بھی پڑھتے تھے۔ مثلاً ایک روایت میں ہے کہ رکوع سے سر اٹھاتے وقت آپؐ یہ کہتے تھے :’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ، اللّٰھُمَّ رَبَّنَا! لَکَ الْحَمْدُ، مِلْئُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْئُٔ الْأَرْضِ، وَمِلْئُٔ مَاشِْٔتَ مِنْ شَيْئٍ بَعْدُ‘‘(ترجمہ): ’’اللہ نے سن لی جس نے اس کی تعریف کی، اے اللہ ہمارے رب ! تیرے ہی لئے تعریف و توصیف ہے آسمانوں بھر، زمین بھر ، اور ان کے بعد جو چیز تو چاہے اس کی وسعت بھر۔ ‘‘ (صحیح مسلمؒ، حدیث نمبر ۱۰۶۷، بروایت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ)۔ دوسری روایتوں میں چند دعائیہ الفاظ کا اضافہ بھی ہے، احقر نے اختصار کے مدنظر اسے نقل کیا ہے۔ اسی طرح آپؐ دونوں سجدوں کے درمیان یعنی جلسہ میں یہ دعا پڑھتے تھے:’’اللّٰھُمَ اغْفِرْلِي وَارْحَمْنِي وَاجْبُرْنِي وَاھْدِنِي وَارْزُقْنِي‘‘(ترجمہ): ’’یا اللہ! مجھ کو بخش دے، اور رحم کر مجھ پر، اور پورا کر میرے نقصان کو، اور ہدایت دے مجھے، اور رزق عطا کر مجھ کو۔‘‘ (سنن ترمذیؒ ، حدیث نمبر ۲۸۴، بروایت ابن عباسؓ)۔
اسی طرح سجود و قعود کی دعائیں بھی وارد ہوئی ہیں جنہیں کتب احادیث و سنن میں دیکھا جاسکتا ہے لیکن ان دعاؤں کو بغیر کسی واضح دلیل کے نفل نمازوں کے ساتھ مخصوص بتایا جاتا ہے جب کہ امام ترمذیؒ نے رکوع و سجود کی دعاؤں کے ساتھ قومہ کی مذکورہ بالا دعا کو حضرت علیؓ کی روایت سے نقل کیا ہے جس کے شروع میں ہی إِذَا قَامَ إِلَی الصَّلٰوۃِ الْمَکْتُوْبَۃِ کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ فرض نمازوں میں بھی ان دعاؤں کا اہتمام کرتے تھے۔ (سنن ترمذیؒ ، حدیث نمبر ۳۴۲۳)۔ لیکن ہمارے دیار میں نماز کے اندر یعنی رکوع ، سجود، قومہ، جلسہ، قعدہ کی دعاؤں کا اہتمام مفقود ہے اور نماز کے باہر یعنی سلام پھیرنے کے بعد دعاؤں کے اہتمام پر خوب زور ہے حالاں کہ جو دعا نماز کے اندر کی جائے وہ قبولیت کے زیادہ قریب ہے بہ نسبت اس دعا کے جو نماز کے باہر کی جائے۔ فرائض میں رائج نہ ہونے کی وجہ سے نفل نمازوں میں بھی یہ مسنون دعائیں متروک ہی ہیں کیوں کہ نہ کوئی ان کا تذکرہ کرتا ہے، نہ ہی عام لوگ ان کے بارے میںجانتے ہیں، الا ماشاء اللہ۔ فقط تسبیحات و دعا کے اقل درجے کو کافی سمجھا جاتا ہے، وہ بھی اتنی تیزی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ! آدمی اگر ان مسنون دعاؤں کا اہتمام کرلے جو رکوع، قومہ، سجدہ، اور جلسہ کے لئے مخصوص ہیں، تو اس کی نماز از خود اعتدال پر آجائے گی ۔ نیز اتباع سنت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ نماز مسنون طریقے پر اسی اطمینان اور سکون کے ساتھ ادا کی جائے جیسے نبی کریم ﷺ ادا کرتے تھے جب ہی وہ نماز عبادت کا مقام حاصل کرے گی اور قبولیت کے قریب جائے گی۔ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کو جو آپؐ سے دین سیکھنے آئی تھی، ان کی واپسی کے وقت آپؐ نے یہ ہدایت فرمائی تھی: ’’صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي‘‘ ’’اسی طرح نماز ادا کرنا جس طرح تم نے مجھے نماز ادا کرتے دیکھا ہے۔‘‘ (صحیح بخاریؒ، حدیث نمبر ۶۳۱، بروایت مالک بن حویرثؓ)۔
اس لئے صحابہ کرامؓ نماز میں تعدیل ارکان کا خاص خیال رکھتے تھے، لوگوں کی اس کی تاکید کرتے اور اس کا اہتمام نہیں کرنے والوں کی سخت تنبیہ کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ کے بارے میں یہ روایت ہے کہ وہ رکوع و سجود تو پوری طرح ادا کرتے تھے لیکن نماز کو مختصر رکھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہؒ، حدیث نمبر ۴۷۰۳)۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ نے ایک شخص کو تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ آدمی نماز کو مختصر رکھے گا اور رکوع و سجود کو پوری طرح ادا کرے گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہؒ، حدیث نمبر ۴۷۰۲)۔ انہوںنے ایک شخص کو دیکھا کہ نہ رکوع پوری طرح ادا کرتا ہے اور نہ سجدہ، تو اس سے فرمایا کہ تم نے نماز ہی نہیں پڑھی اور اگر تم (اسی حالت میں) مرگئے تو تمہاری موت اس فطرت (سنت) پر نہیں ہوگی جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو پیدا کیا تھا۔ (صحیح بخاریؒ، حدیث نمبر ۷۹۱)۔غور کیجئے تو کتنی سخت بات ہے کہ تعدیل ارکان کا اہتمام نہیں کرنے والوں کے بارے میں انہوں نے سوء خاتمہ کا اندیشہ جتایاکیوں کہ جس کی موت نبی کریم ﷺ کی فطرت پر نہیں ہوگی تو اس کا خاتمہ بالخیر نہیں کہا جاسکتا۔ اللہم احفظنا منہ!
تعدیل ارکان کے سلسلے میں ائمہ مجتہدین نے بھی سخت مو قف اپنایا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام محمدؒ تعدیل ارکان کو واجب قرار دیتے ہیںیعنی ان حضرات کے نزدیک رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ اور قعدہ میں اطمینان لازم ہے۔ اگر کوئی شخص عمداً اس قدر تیزی سے نماز ادا کرتا ہے کہ کسی رکن میں اطمینان حاصل نہ ہو تو نماز واجب الاعادہ ہوگی یعنی اسے پھر سے ادا کرنا واجب ہوگا۔ سہواً تعدیل ارکان چھوٹ جانے پر سجدہ سہو واجب ہوگا۔ امام مالکؒ، امام یوسفؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ تعدیل ارکان کو فرض قرار دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جلدبازی میں اس طرح نماز ادا کرتا ہے کہ تعدیل ارکان کی رعایت نہیں کرتا خواہ یہ سہواً ہو یا عمداً تو اس کی نماز سرے سے ادا ہی نہیں ہوتی یعنی باطل ہوجاتی ہے۔ ایسی صورت میں ان حضرات کے نزدیک نماز کا اعادہ کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ اس طرح فقہاء کے درمیان واجب اور فرض کا اصولی و اصطلاحی اختلاف تو ضرور ہے لیکن تعدیل ارکان کی اہمیت پر سب متفق ہیںاور اسے نماز کی صحت کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں ، اور ترک پر اعادہ کا حکم لگاتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ تعدیل ارکان نماز کی قبولیت کے لئے نہایت اہم شرعی تقاضا ہے اور اس کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اتباع نبویؐ کے جذبہ سے اپنی نمازوں میں تعدیل ارکان کی پابندی کرے تاکہ اس کی نمازیں درجہ قبولیت کو پہنچیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جو عبادتوں سے اصل مقصود ہے۔ دینی مدارس کے اساتذہ کرام، ائمہ مساجد اور خطباء کرام کو چاہیے کہ اپنے مخاطبین کو اس مسئلہ کی تعلیم دیں اور خود بھی اس کے تقاضوں پر کاربند رہ کر عملی نمونہ پیش کریں۔ ائمہ کرام کو تو اس سلسلے میں اور بھی احتیاط لازم ہے کیوں کہ وہ خود کے علاوہ مقتدیوں کی نماز کے بھی ضامن ہوتے ہیں ۔ بچوں کو بالخصوص ابتدا سے ہی اطمینان و سکون کے ساتھ نماز ادا کرنے کی تربیت دینی چاہیے ورنہ عادت بگڑ جانے کے بعد اصلاح ایک مشکل امر بن جاتا ہے کیوں کہ خود انسان کو یہ احساس نہیں رہ جاتا کہ اس سے کوئی کوتاہی ہورہی ہے۔ اللہ پاک قارئین کے ساتھ خاکسار کو بھی مذکورہ بالاہدایات پر عمل کی توفیق عنایت کرے۔آمین!

You may also like