نئی دہلی:دہلی یونیورسٹی کی آرٹس فیکلٹی کے زیراہتمام فیکلٹی کے ہال نمبر۲۲ میں آرٹس فیکلٹی کی سابق ڈین اورسابق صدرشعبہ اردوپروفیسر نجمہ رحمانی کی وفات کے بعد تعزیتی اجلاس کاآج انعقادکیاگیا۔اس تعزیتی اجلاس میں آرٹس فیکلٹی کے تمام شعبوں کے صدور،اساتذہ،طلباوطالبات اورریسرچ اسکالرزنے شرکت کی ۔اس تعزیتی پروگرام کی نظامت فیکلٹی کے ڈین پروفیسرامیتابھ چکرورتی نے کی۔اس موقع پرپروفیسرنجمہ رحمانی کی یاد میں پورااسٹیج خالی رکھاگیا۔تمام اساتذہ اورمقررین صف سامعین میں نظرآئے ۔اسٹیج پرصرف پروفیسرنجمہ رحمانی کی تصویررکھی گئی تھی،جس پرسامعین اورمقررین گلہائے عقیدت نچھاورکرتے رہے۔
تعزیتی نشست میں اظہارخیال کرتے ہوئے فیکلٹی کے ڈین پروفیسرامیتابھ چکرورتی نے کہاکہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کی تعلیم کا طریقہ اور انصاف پسندی کی ذہنیت آپ کو متاثر کرتی ہے،ان میں ایک بہت اہم نام پروفیسرنجمہ رحمانی کاہے ۔اس ہال میں کون ہے ،جو ان کے جانے کے غم سے نڈھال نہیں ہے ۔پروفیسرنجمہ رحمانی کی مقبولیت کی دلیل ہے کہ آرٹس فیکلٹی کایہ ہال بھراہواہے اورہرکوئی اظہارخیال کرناچاہتاہے۔ان سے اپنے دیرینہ تعلقات کااظہارکرناچاہتاہے ۔پروفیسررحمانی زندگی سے لبریزشخصیت کانام ہے،جن کی یادیں ہم نہیں فراموش نہیں کرسکیں گے ۔
شعبہ اردوکے صدرمعروف ناقد پروفیسرابوبکرعبادنے اس موقع پرکہاکہ پروفیسرنجمہ رحمانی میں ایک موثرشخصیت کی ساری خوبیاں موجودتھیں، وہ اپنے اور اپنے طلبا و طالبات کے لیے پوری زندگی جدوجہد کرتی رہیں ، جب وہ صدر شعبہ بنیں تو شعبے میں خاصی مثبت تبدیلیاں نظر آئیں، انھوں نے شعبہ کے لیے بہت سے مثبت اوردوررس نتائج رکھنے والے کام کیے، پروفیسررحمانی کو کسی چیز کی کمی نہیں رہی، انھیں ان کے گھر والے ان کے دوست سب بہت اچھے ملے، کسی سے ڈرتی نہیں تھیں، نجمہ رحمانی نے کبھی اپنے دوست نہیں بدلے نہ دشمن بدلے، کسی سے فریب نہیں کیا، کسی کی پیٹھ پر چھرا نہیں بھونکا، کسی کو دھوکہ نہیں دیا، نجمہ کی طرح میں نے کسی کو فعال و متحرک نہیں دیکھا۔
ذاکرحسین دلی کالج (شبینہ)کے استاذپروفیسرمظہر احمد نے کہا کہ پروفیسرنجمہ رحمانی سے میرے چالیس برس پرانے تعلقات تھے، چالیس برس پرانے تو دشمن بھی عزیز ہوتے ہیں، وہ تو میری دوست تھی، ہمیں کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم کبھی الگ ہوں گے، نجمہ اور اس کے قہقہے آج بھی ہمارے دلوں میں گونج رہے ہیں، نجمہ کے قہقہے دراصل ہم سب اور خود اس کی زندگی کے گواہ تھے، نجمہ اپنے طلبا کو انصاف دلانے کے لیے اور ان کی اصلاح کے لیے عملی زندگی گزارتی تھی، چالیس سال کی کہانیاں اتنی ہیں کہ میں سناتاجاوں، تب بھی ختم نہیں ہوں گی، نجمہ نے شعبہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا جو معیار قائم کیا، اس تک پہنچ پانا بہت مشکل کام ہے، جاتے جاتے وہ ہماری نیند بھی لے گئی۔
جرمن اینڈرومانس اسٹڈیزکی صدروجیاوینکٹ رمن نے کہا وہ متحرک وفعال تھیں، دوستوں کو وقت دیتی تھیں اور وہ اپنے شعبہ کے علاوہ دہلی یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن میں بھی عہدے پر رہیں اور ممبر بھی رہیں، ان کا دل اور ان کا گھر ہر وقت مستفید ہونے والوں کے لیے کھلا رہتا تھا، وہ مستحکم اور پائیدار حوصلوں کی خاتون تھیں۔وہ اپنے اصولوں سے کبھی سرموانحراف نہیں کرتی تھیں ۔ان کے ساتھ کام کرنے کابرسوں تک ہمیں موقع ملا۔جاتے جاتے وہ سب کورلاگئیں ۔
پروفیسرنجمہ رحمانی کے بڑے بھائی اورمعروف ملی وسماجی شخصیت ڈاکٹرتسلیم رحمانی نے کہا کہ 58 سالہ واقعات تسلسل کے ساتھ میرے سامنے صف بہ صف آرہے ہیں، پہلی بارمیں نے اسے تب دیکھا تھا ،جب میں تین برس کا تھا اور وہ پیدا ہوئی تھی، اس نے اپنے آپ کو بار آور بیج بناکر سنگلاخ زمین میں خود کو دفن کردیا، اس نے ہمیشہ خود کو ثابت کیا ہے، اس پیڑ سے ہر ایک کوسایہ ملتارہا، وہ ہمیشہ دھوپ کے حصار میں رہی، لیکن ہمیشہ دوسروں کو دھوپ سے بچاتی رہی۔ہماری اور ہمارے گھر کی شناخت کا اٹوٹ بندھن ہے آج نجمہ رحمانی، وہ مخلص تھی، وہ جس کی بھی دوست تھی سب کے لیے مخلص تھی۔
شعبہ ہندی کے استاذاورمعروف دانش ورپروفیسراپوروانند نے کہا کہ رحمانی کے جانے کا اندیشہ تو تھا، لیکن اس خبر کو سن کر پریشان ہوگیا۔. 2020 کے مسلم مخالف دہلی فسادات کے وقت ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، فساد زدگان کو کھانا پہنچانے والوں میں سب سے بڑا نام پروفیسرنجمہ رحمانی کا ہے، جس وقت سب ڈر جاتے ہیں اس وقت ایک عورت اپنے گھر کا دروازہ کھول کردوسروں کو پناہ دیتی تھی اوروہ نجمہ رحمانی تھیں ، کووڈ کے زمانے میں بھی اس نے ہاسٹل میں رہ جانے والے طلبا وطالبات کے کھانے کا انتظام کرتی تھیں۔
لاء فیکلٹی کے ڈاکٹرنریندر نے کہا کہ وہ ہمیشہ ناانصافی کے خلاف کھڑی رہتی تھیں،حاشیے پرکھڑے لوگوں اوراقلیتوں کے لیے ہمیشہ فکرمند رہتی تھیں۔میں جب بھی ان سے بات کرتاتھا وہ ہمیشہ مجھے کسی نہ کسی فکرمیں غلطاں نظرآتی تھیں۔
ذاکرحسین دلی کالج کی استاذپروفیسرشاہینہ تبسم نے کہا کہ پروفیسرنجمہ رحمانی اپنے مقدر میں جدوجہد لکھوا کر آئی تھیں، وہ ہماری قوم اور ہماری بچیوں کے لیے مشعل راہ تھیں، نجمہ رحمانی ہزاروں کے مجمع میں غلط کو غلط کہہ سکتی تھیں اور اس کی اصلاح کا جذبہ بھی رکھتی تھیں۔پروفیسر راجیو گپتا نے کہا کہ نجمہ جی کو میں نے پہلی بار ٹی ٹی اے میں دیکھاتھا، ان کے حوصلے کو بھی وہیں دیکھا، جو لوگ سماج میں بہتر اور مثبت تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں، شاید اوپر بھی ان کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے وہ ہم سے جلدی رخصت ہوجاتے ہیں ۔
شعبہ ہندی کی صدرپروفیسر سدھا سنگھ نے کہا کہ نجمہ ہمارے درمیان نہیں ہے، دل کو یہ یقین دلانا بہت مشکل کام ہے۔ایک عورت کو خود کو ثابت کرنے میں ہی دہائیاں گزر جاتی ہیں،اس کے باوجود اس نے خود کوبہت سے محاذوں پرکامیاب ثابت کیا، میں پسماندگان کو پرسہ دیتی ہوں۔
پروفیسرنجمہ رحمانی کے چھوٹے بھائی ندیم رحمانی نے کہا کہ میں آج یہاں ان کے بھائی کی حیثیت سے نہیں آخری طالب علم کی حیثیت سے کھڑا ہوں، انھوں نے گزشتہ دیڑھ برس میں میرا پورا نظریہ بدل کر رکھ دیا، انھوں نے مجھے سکھایا کہ حاشیے پر کھڑے لوگوں کو مین اسٹریم میں لانا کیوں ضروری ہے۔مظلوموں اوردبے کچلے لوگوں کے لیے آوازبلندکرناکیوں ضروری ہے ۔
شعبہ موسیقی کے ڈاکٹراوجیش نے کہا کہ انھیں موسیقی سیکھنے کا بہت شوق تھا، وہ میرے گھر آتی تھیں اور موسیقی سیکھتی تھیں، وہ تمام تر خصوصیات کے ساتھ بحیثیت انسان بہت اہم تھیں، ان کا انسانی چہرہ بہت صاف اور شفاف تھا، میری فیملی صدمے میں ہے، میرا ہی گھر وہ آخری گھر ہے، جہاں وہ آخری بار آئی تھیں۔ایسی شخصیت کا جانا ان کے خاندان سے زیادہ سماج کے لیے نقصان دہ ہے۔
شعبہ کیمسٹری کے پروفیسرشری کانت ککریتی نے کہا کہ ان سے اکثر دانش ورانہ باتیں ہوتی تھیں، مجھے نہیں لگتا کہ انھوں نے کبھی اپنی ذات کا خیال رکھا لیکن یقینی طور پر دوسروں کا بھرپور خیال رکھا۔وہ جہاں رہتی تھیں،وہاں اوروہاں کے لوگوں کی فکرمیں رہتی تھیں۔انسانی فلاح وبہبودکے لیے کیے گئے ان کے کاموں کواورانھیں ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔
اس تعزیتی اجلاس میں لا فیکلٹی سائنس فیکلٹی اور آرٹس فیکلٹی کے تمام شعبوں بالخصوص شعبہ سنسکرت،شعبہ ہندی ،شعبہ عربی ،شعبہ فارسی ،شعبہ انگریزی ،شعبہ جرمن کے اساتذہ ،طلبااورریسرچ اسکالرزکے ساتھ شعبہ اردوکے اساتذہ میں پروفیسرارجمندآرا،پروفیسر مشتاق عالم قادری،شعبہ کے سابق استاذپروفیسرارتضی کریم ،دہلی یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن کی صدور پروفیسرنندتانرائن اورپروفیسرشاشوتی مجمدار،ڈاکٹراحمدامتیاز،ڈاکٹر علی احمدادریسی،ڈاکٹرشمیم احمد، ڈاکٹر فرحت کمال،ڈاکٹرزاہدندیم احسن،راکیش کمار،شعبہ کے طلباوطالبات اورریسرچ اسکالرز وغیرہ نے بالخصوص شرکت کی۔