Home مباحثہ نائب امیر شریعت کی بحیثیت امیر شریعت امیدواری پر میرے تحفظات ـ مسعود جاوید

نائب امیر شریعت کی بحیثیت امیر شریعت امیدواری پر میرے تحفظات ـ مسعود جاوید

by قندیل

تعلیمی میدان میں رہنے والوں میں عموماً تنظیمی، سیاسی اور ملکی وغیر ملکی امور کے بارے میں خاطر خواہ معلومات اور تجربات کا فقدان ہوتا ہے۔
عموماً ملی تنظیموں کے بعض متعصب حلقوں میں منصب کی اہلیت امیدوار کی عصبیت کا درجہ حرارت ہوتا ہے۔ چوٹی کے ذمے داروں میں نہ سہی ان کے حواریین کے نزدیک علمی اور تنظیمی صلاحیتوں کے مقابل یہ معیار زیادہ معنی رکھتا ہے۔ (عمومیت کے ساتھ نہیں پھر بھی ) ایسا لگتا ہے کہ جمعیت علما میں کلیدی منصب بلکہ نیچے کے عہدے کے امیدواروں میں بھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں یہ امارت یا جماعت کے لیے سافٹ کارنر تو نہیں رکھتا۔ اسی طرح امارت والے یہ پسند نہیں کرتے کہ امیدوار جمعیت سے قربت رکھنے والا ہو۔
ہم مسلمانوں بالخصوص ملی اداروں کا المیہ یہ ہے کہ یہ دنیا میں ریسرچ کے نتیجے میں کسی منصب کے لیے جو علمی صلاحیت، تربیت ٹریننگ، اور سابقہ تجربات کے پیمانے مقرر کیے  گئے ہیں اس کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے۔ کسی بھی فارغ مدرسہ کو کوئی بھی منصب سونپ دیتے ہیں بشرطیکہ وہ کہ وہ "حضرت” کا منظور نظر رہا ہو۔ اس کی لیاقت کے مد نظر تنظیمی ہیکل میں وہ کس منصب کا اہل ہے عموماً اس پہلو کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ملکی و غیر ملکی امور اور کرنٹ افیئرز پر بعض اوقات وہ مضحکہ خیز بیان دے کر ادارے کی سبکی کا باعث ہوتا ہے۔
امارت شرعیہ کوئی مدرسہ نہیں ہے۔
امارت شرعیہ بہار جھارکھنڈ اڈیشہ مختلف پہلوؤں والا ایک اہم ملی ادارہ ہے جس کا دائرہ کار دینی فقہی سیاسی تعلیمی اور سماجی ہے۔ دینی اور فقہی امور کے تحت ان ریاستوں کی مسلم عوام کی اہم خدمت متعدد اضلاع میں پھیلے دارالقضاء کے ذریعے انجام دیتی ہے۔ نکاح، طلاق خلع فسخ ، ترکہ تقسیم وراثت، ہبہ وقف اور متعدد خانگی تنازعات کے حل اور فریقین کے درمیان مصالحت وغیرہ کے ذریعے مسلمانوں کو عدالتوں کے چکر لگانے اور وکلاء کی فیس بھرنے سے راحت پہنچاتی ہے۔ جائز ناجائز حلال حرام کی وضاحت دارالافتاء کرتی ہے۔ رؤیت ہلال کمیٹی اپنی خدمت انجام دیتی ہے۔
انتخابی سیاست میں ملوث ہوۓ بغیر سیاسی رہنمائی کی کوشش کرتی ہے۔ ریاستی انتظامیہ اور پولیس کے ہاتھوں بعض اوقات زیادتی ہوتی ہے یکطرفہ گرفتاری ہوتی ہے اس وقت وزیر اعلیٰ اور متعلقہ دفاتر سے رابطہ کر کے توجہ مبذول کراتی ہے۔ مقابلہ جاتی امتحانات رحمانی 30 اور دیگر عصری اسکول، دینیات کے ساتھ، کا قیام جو حال میں عمل میں آنا شروع ہوا۔ چیریٹیبل ہاسپیٹل، اور بیواؤں اور ضرورت مندوں کے ماہانہ وظیفے ، گرچہ ابھی تک چھوٹے پیمانے پر ہے، جاری ہوتے ہیں اور سیلاب سے متاثرین کے لیے ریلیف راحت رسانی کا کام ۔
ایسے ملٹی ٹاسک تنظیم کے لیے کسی مدرسہ، جامعہ یا دارالعلوم کے کسی استاذ کو یا کسی اور مسٹر کو جس کے پاس کام کا کوئی تجربہ نہیں اسے امیر شریعت کا منصب سونپنا کہاں تک معقول ہوگا !
مولانا محمد ولی رحمانی رحمہ اللہ ہوں یا مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں کی تربیت مولانا منت اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے کی تھی۔ طویل عرصہ تک ان کی زیرنگرانی یہ دونوں حضرات نے کام کیا تھا۔ دین و دنیا کے امور کے نشیب و فراز سے واقفیت حاصل کی تھی۔
ایسے ہی کسی دین و دنیا سے واقف کار کو امارت کا منصب سونپنا معقول ہوگا۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment