یہ حقیقت ہے کہ افراد اور قوموں کی ترقی کی عمارت علم کی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے۔ فرد و ملت دنیا کے کسی بھی حصے میں بس رہے ہوں اگر وہ علوم سے نا آشنا ہیں یا علوم متداولہ میں انھیں دسترس نہیں ہے تو وہ دنیا کے معاملات میں دخل انداز ہونے کے اہل نہیں ہیں، اور نا ہی اہل دنیا ایسی قوم و ملت سے کوئی مطلب رکھتے ہیں۔ لہذا علوم سے نا آشنا و نا واقف قوموں کی کوئی وقعت اور کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔
جب ہم تاریخ کے صفحات کو پلٹ کر اسلام کے دورِ آغاز کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے اہل عرب کو آئندہ دنیا میں حکمرانی کا جو نسخۂ کیمیا بتایا تھا وہ علم ہی تھا، اقرأ کے لفظ سے آغاز کرنے والی قوم نے یک بیک ساری دنیا کو اپنے زیر نگیں کر لیاتھا، دنیا کی بڑی بڑی سپر پاور ان حدی خوانوں کے سامنے سر نگوں ہو گئی تھیں اور دنیا کی زمام اقتدار مسلمانوں کے قدموں میں آ گئی تھی اور یہ سب علم کا کرشمہ تھا۔
لہذا تعلیم کی غیر معمولی تاثیر کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ تعلیم وہ ہتھیار ہے جس سے قوموں میں شعور، قوت فکر و عمل اور دنیا پر حکمرانی کی اہلیت پیدا ہوتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس جہالت قوموں کو غلام بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دنیا کی کوئی طاقت کسی سرزمیں پر قابض ہوتی ہے اور وہاں دیر تک حکمرانی کرنا چاہتی ہے تو وہ وہاں کے باشندوں کا رشتہ تعلیم سے منقطع کر دیتی ہے۔ اگر ہم ہندوستان میں انگریزوں کے عہد کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ کس طرح ہندوستانی عوام کو تعلیم سے دور رکھا گیا تھا تاکہ حکومت کے خلاف کسی مزاحمت کا خیال تک ان کے ذہن میں نا آسکے اور بعینہ آزادی کے بعد وہی اسٹریٹجی مسلمانوں کے ساتھ اپنائی جارہی ہے۔ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو بے وقعت بنانے اور یہاں کی سیاست اور انتظام میں بلاواسطہ ان کے لئے دروازے بند کرنے کے لئے یہاں کی اکثریتی جماعت نے وہی منصوبہ مسلمانوں کے اوپر آزمایا اور افسوس کہ وہ اپنے اس منصوبے میں بہت کامیاب رہے۔ متعدد رپورٹس بتاتی ہیں کہ مسلمان آج تعلیمی اور معاشی اعتبار سے ہندوستان میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں۔
2004 میں جسٹس راجندر سچر کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور اس کمیٹی کی رپورٹ نے یہ صاف صاف لکھا کہ مسلمان مجموعی طور پر نہ صرف تعلیم میں بلکہ سماجی اور اقتصادی ہر سطح پر کسی بھی ہندوستانی سماج سے نہایت ہی پیچھے ہیں، یہاں تک کہ دلتوں کی حالت مسلمانوں سے بہتر ہے۔ سچر کمیٹی نے اس معمہ کو بھی واشگاف کر دیا جو عام طور پر مشہور ہے کہ مسلمان اپنے بچے مدارس میں بھیجتے ہیں، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے محض 4% طلباء مدارس کا رخ کرتے ہیں۔ ہندوستان کی مجموعی شرح خواندگی حالیہ مردم شماری کے مطابق 65 فی صد ہے ۔ مسلمانوں میں یہ شرح 59 فی صد ہے جب کہ ہندو 65 فی صد، عیسائی 80 فی صد ، سکھ 69 فی صد ، بدھ 72 فی صد اور جین 94 فی صد کے ساتھ تعلیمی میدان میں سب سے آگے ہیں۔ یہ صورتحال حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ہے، جب کہ حقیقت میں صورتحال اس سے کہیں بد تر ہے۔
اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس تعلیم سے متعلق کوئی ٹھوس لائحۂ عمل نہیں ملتا، جب آزادی کے بعد ہندوستان کا رخ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا تھا، ہندوستاں کے مستقبل کو ایک نئی جہت دی جا رہی تھی اور انگریزون سے جنگ جیتنے کے بعد یہاں کے اکثریتی طبقے نے ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے خلاف تہذیبی و ثقافتی جنگ چھیڑ دی تھی اس وقت مسلم جماعتیں زمام اقتدار دوسروں کے ہاتھوں سپرد کرکے آزاد ہندوستان میں چین کی نیند سو رہی تھیں، علما اپنے مدارس اور خانقاہوں میں واپس چلے گئے تھے، سیاسی رہنما جشن آزادی میں مصروف تھے، تقریبا تین دہائیوں کے بعد جب مسلمانوں کی نیندکھلی تب بہت دیر ہو چکی تھی، اور اچانک سب کچھ تبدیل ہو چکا تھا، ملک کا مسلمان ایک لا چار اور بے بس انسان کی طرح غیروں کے سامنے کاسۂ گدائی لیے کھڑا ہو گیا تھا، اس کے پاس نہ تعلیم تھی اور نا وہ اقتصادی طور پر مضبوط تھا۔ بیو روکریسی سے لےکر تعلیمی محکمے اور عدالتوں اور وکلا سے لےکر ہسپتالوں اور ڈاکٹروں تک مسلمان دوسروں کے محتاج تھے، بمشکل کوئی مسلم اہلکار ان اداروں میں ملتا تھا، ستر اور اسی کی دہائی میں جب مسلمان بیدار ہوئے تو اس وقت بہت سی تحریکیں ابھریں اور تعلیمی بیداری کے عَلم کو بلند کیے لیکن کوئی ٹھوس لائحہ عمل نا ہونے کی وجہ سے وہ تحریکیں بھی وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کے صفحات میں دفن ہوگئیں۔ آج بھی تعلیمی بیداری کی صدائیں بلند ہوتی ہیں لیکن مؤثر عوامل اور منظم منصوبہ بندی نا ہونے کی وجہ سے وہ بھی صدا بصحرا ثابت ہوتی ہیں۔
مدارس اپنی قدیم روایت میں چل رہے ہیں، اسکول اور کالجز میں پڑھنے والوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے کہ یہاں کے طلبا کیا حاصل کر رہے ہیں، ان کا مستقبل کیا ہوگا، آیا وہ مسلمان باقی رہیں گے یا نہیں؟ اس کی کوئی خبر گیری کرنے والا نہیں۔ اور نا ہی کوئی یہ جائزہ لینے کو تیار ہے کہ مدارس پہلے کی طرح مؤثر کیوں نہیں ہیں؟ اور ان کو کیسے مزید بہتر بنایا جائے۔ بالعموم ہم یہ تجزیہ کرنے میں ناکام ہو گئے کہ مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا، بد قسمتی سے یہ ایک ایسی قومی غلطی ہندوستانی مسلانوں سے سرزد ہوئی جس کا الزام ہم کسی ایک فرد یا مخصوص جماعت کو نہیں دے سکتے، بہت روشن خیال لوگ علما اور مدارس کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں تو اہل مدارس سماج کے روشن خیال طبقہ کو متہم کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسی تاریخی اور قومی چوک ہے جس کی ذمہ دار پوری قوم ہے اور اس کا تدارک تبھی ممکن ہے جب قوم کا ہر فرد سر جوڑ کر بیٹھے اور کوئی منظم لائحہ عمل تیار کرے۔ ایک دوسرے کو متہم کرنے کے بجائے عملی میدان میں قدم رکھے۔
ہمارا لائحہ عمل کیا ہو ؟
اس نئی دہائی میں ہم نہ صرف احتساب کریں بلکہ بلند بانگ نعروں اور تعلیمی بیداری کی تحریکوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر عملی میدان میں بھی قدم رکھیں،آئینی طور پر ہمیں خصوصی بورڈ بنانے کا اختیار ہے، پرایویٹ ادارے قائم کرنے اور اپنے طریقے سے چلانے کا حق حاصل ہے، ہم اپنے ان آئینی حقوق کا اسعتمال کرتے ہوئے NCERT کی سطح پر بورڈ بنائیں،جو دینی و عصری نصاب تعلیم کا سنگم ہو،جس طرح دینی تعلیم کے لیے قریہ قریہ مکتب کا ایک جال بچھا ہوا ہے اسے مزید فعال اور مؤثر بنانے کے لیے لائحۂ عمل تیار کریں، اہل خیر کے تعاون سے ایسے پرایویٹ ادارے قائم کیے جائیں جہاں 10 ویں اور 12 ویں تک کی اسلامی ماحول میں تعلیم ہو تاکہ جب طالب علم بڑے بڑے کالجز اور یونیورسٹیز میں جائیں تو ان کے مستقبل کی فکر نا ہو۔
اس کے علاو رحمانی 30 اور زکوۃ فاونڈیشن کے طرز پر پورے ملک میں کوچنگ کے ادارے قائم کئے جائیں،تاکہ قوم کے وہ ہونہار طلبا جو مالی اعتبار سے کمزور ہیں ان کو میڈیکل اور سول سروسز کی تیاری کرائی جائے، مذکورہ اداروں کی کامیابی سے بآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر اس طرح کے کئی اور ادارے ہوں تو ہمارے "تعلیمی بیداری مشن” کے کامیاب ہونے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگےگا۔
اس کے علاوہ انتخابات میں جن ایم ایل ایز اور ایم پیز کو ہم منتخب کرتے ہیں ان کو مجبور کریں کہ وہ آپ کے علاقے میں تعلیمی ادارے قائم کریں، اور ذاتی طور پر پڑھے لکھے افراد ان سرکاری اسکیموں کو جو خصوصا تعلیم سے متعلق ہوں انھیں عوام الناس تک پہنچائیں، اپنے علاقہ کے سرکاری اسکولوں کے ذمہ داروں کی باز پرس کریں وہاں بہتر سے بہتر ماحول اور وہاں کی فضا کو علمی بنانے پر زور ڈالیں، یہ کرنا ملت کے ہر فرد کی اجتماعی و انفرادی ذمہ داری ہے تب جا کر ہماری تعلیمی حالت میں کچھ اصلاح ممکن ہے۔ جب تک ہم خود اس کی فکر نہیں کریں گے اس وقت تک تعلیمی، سماجی اور اقتصادی اعتبار سے ترقی ناممکن ہے۔
لہذا ہم اس دہائی کا آغاز اپنے محاسبہ کے ساتھ کریں، ہمارے پاس مضبوط لائحۂ عمل ہو، تعلیمی بیداری کے جلسوں اور اسٹیج سے اتر کر عملی میدان میں قدم رکھیں، تاکہ باطل کی طرف سے کی جانے والی منظم سازشوں کو ناکام کیا جا سکے۔ کیوں کہ جب تک ہم تعلیم سے خود کو آراستہ نہیں کریں گے اسی طرح ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بنی رہےگی، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا-
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)