Home تجزیہ نفرتی چینلوں اور اینکروں کا یہی علاج ہے !-شکیل رشید

نفرتی چینلوں اور اینکروں کا یہی علاج ہے !-شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )

تین نیوز چینلوں پر کارروائی کی گئی ہے کیونکہ ان چینلوں کے نیوز اینکر ’ نفرت ‘ کی زبان بولتے ہیں ، اور سماج کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں ۔ یہ نیوز چینل ہیں ’ ٹائمز ناؤ ‘ ، ’ آج تک ‘ اور ’ نیوز 18 انڈیا ‘ اور ان کے نیوز اینکروں کے نام ہیں امیش دیوگن ، امن چوپڑا اور سدھیر چودھری ۔ ان نیوز اینکروں نے شردھا والکر قتل کیس میں ’ لو جہاد ‘ سے لے کر رام نومی کے دوران مسلمانوں کو نشانہ بنانے تک ہر وہ بولی بولی جس سے ملک کے دو فرقوں میں نفرت کی خلیج حائل ہو سکے ۔ واضح رہے کہ شردھا والکر قتل معاملہ میں آفتاب پونا والا نام کے ایک نوجوان کو ، جو مذہباً پارسی تھا ، مسلمان بتا کر زبردست فرقہ پرستی پھیلائی گئی تھی ، اور یہ پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ مسلمان ہندو لڑکیوں کو منصوبہ بند طریقے سے پھنسا کر ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں ، اور ان کے ساتھ زیادتی کرکے ان کا قتل بھی کر دیتے ہیں ۔ اس معاملہ میں اندراجیت گھرپڑے نامی ایک شخص کی شکایت پر ’ نیوز براڈکاسٹنگ اتھارٹی ‘ ( این بی ڈی ایس اے ) نے کارروائی کی ہے ، چینلوں پر جرمانے لگائے ہیں ، نفرتی مواد ہٹانے کا حکم دیا ہے اور سخت سرزنش کی ہے ۔ این بی ڈی ایس اے کے صدر سپریم کورٹ کے سابق جسٹس اے کے سیکری ہیں ، جن کا یہ سخت ریمارک کہ ’ ہر بین مذہبی شادی کو لو جہاد کہنا غلط ہے ‘ سنگھیوں پر ایک طرح کا طنز ہے ، کیونکہ یہ سنگھ پریوار اور بی جے پی ہی کے لوگ ہیں جو سارے ملک میں ’ لو جہاد ‘ کا ہوّا پھیلائے ہوئے ہیں ۔ مذکورہ نیوز چینلوں اور ان کے نیوز اینکروں کو معروف ٹی وی صحافی رویش کمار نے ’ گودی میڈیا ‘ کا نام دیا تھا اور آج ساری دنیا میں انہیں ’ گودی میڈیا ‘ ہی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ یہ وہ نیوز اینکر ہیں جن کا ’ انڈیا اتحاد ‘ نے بھی بائیکاٹ کر رکھا ہے اور اس بائیکاٹ پر ان نیوز چینلوں کے ذمے داروں نے بڑا واویلا مچایا تھا ۔ حالانکہ اس ملک میں ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ ، وہ اگر کسی پروگرام ، تقریب یا کسی مذاکرے اور سمینار میں نہ جانا چاہے یا کسی تنظیم ، نیوز پیپر اور ٹی وی اینکر سے بات نہ کرنا چاہے ، نہ کرے ۔ کیا لوگوں کو یاد نہیں ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کرن تھاپر کے سوالوں کے جواب دیے بغیر ان کے پروگرام سے اٹھ آئے تھے ؟ انہوں نے گجرات فسادات پر سوالوں کے جواب نہیں دیے تھے ! یہ ان کا حق تھا ۔ اسی طرح کیا لوگوں کو یاد نہیں کہ ’ این ڈی ٹی وی ‘ پر صحافی رویش کمار کے پروگرام میں سات سال تک بی جے پی کی طرف سے کسی نے شریک ہونا گوارا تک نہیں کیا ! یہ بی جے پی کی مرضی تھی ، لیکن یہ ایک طرح سے رویش کمار کا ، جو اسٹبلشمنٹ سے تیکھے سوال پوچھنے کے لیے جانے جاتے ہیں ، ایک طرح سے ’ بین ‘ بھی تھا ۔ صحافیوں کی ایک لمبی فہرست ہے ؛ پونیہ پرسون جوشی ، ابھیسار شرما ، اجیت انجم ، ساکشی جوشی ، صدیق کپّن ، رانا ایوب ، برکھا دت ، رویش کمار، محمد زبیر وغیرہ جن پر غیر سرکاری بین لگا ہوا ہے ۔ یہ وہ صحافی ہیں جنہیں مودی اور یوگی کی حکومتوں نے نشانہ بنایا ہے ، ان میں سے کئی ہیں جن کے خلاف مقدمے بنائے گئے ہیں ، اور کچھ کو جان سے مارنے کی ، ریپ کرنے اور دیکھ لینے کی دھمکیاں ملی ہیں ۔ یہ ’ نفرتی ‘ کہلانے والے نیوز چینل اور ان کے نیوز اینکر ’ لو جہاد ‘ ، ’ تھوک جہاد ‘ ، ’ تبلیغی جماعت ‘ ، ’ مسلمانوں کی آبادی میں خطرناک اضافہ ‘ اور ’ سناتن پر حملہ ہندو پر حملہ ‘ جیسے انتہائی شرم ناک اور نفرت بھرے پروپگنڈے کرتے پھرتے ہیں ۔ یہ اپوزیشن بالخصوص کانگریس کو ’ پنچنگ بیگ ‘ بنائے ہوئے ہیں ، اور رات دن پنڈت نہرو ، اندارا گاندھی کو ، اُن ساری ناکامیوں کا ، جس کی قصوروار مودی سرکار ہے ، ذمہ دار قرار دیتے پھرتے ہیں ۔ جھوٹ ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔ گودی میڈیا کے جھوٹ کا ایک ہمالیہ پہاڑ ہے ۔ یہ گودی میڈیا ہی ہے جس نے کورونا کے پھیلنے کا سارا الزام تبلیغی جماعت پر ڈال دیا تھا اور اس کے نتیجہ میں کئی مسلمانوں کی لنچنگ ہوگئی تھی ، معاشی بائیکاٹ شروع ہو گیا تھا ۔ ’ آج تک ‘ ، ’ ریپبلک ‘ اور ’ نیوز 18 ‘ پر انجنا اوم کشیپ ، ارنب گوسوامی اور امیش دیوگن نےجو زہر اگلا تھا اس کے خلاف جمعیتہ علماء ہند سپریم کورٹ میں گئی تھی ، مقدمہ چل رہا ہے ۔ ’ سدرشن ٹی وی ‘ کے فیک پروگرام پر ’ یو پی ایس سی جہاد ‘ کی بات کی گئی تھی ۔ گودی میڈیا جھوٹ پھیلا کر ملک کو بھی اور عوام کو بھی بھاری نقصان پہنچانے کا ذمہ دار ہے ۔ یہ فرقہ پرستی اور نفرت کو بڑھاوا دیتا ہے ، اس کے خلاف مزید شدید ترین کارروائی کی جانی چاہیے ۔ اس میڈیا کو سچ کا پابند بنایا جائے بصورت دیگر ہمیشہ کے لیے اس پر پابندی لگا کر جھوٹے اینکروں اور جرنلسٹوں کو جیل کی ہوا کھلا دی جائے ۔ ان کا یہی علاج ہے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like