Home تجزیہ نفرت کو محبت سے بدلیے یوگی جی !- منصورقاسمی

نفرت کو محبت سے بدلیے یوگی جی !- منصورقاسمی

by قندیل

ایڈولف ہٹلر ایک نسل پرست اور قوم پرست آدمی تھا ،وہ جب جرمنی کا چانسلر بن گیا تو اس نے اپنے مخالفین کی سرکوبی کے لیے ہرحربہ آزمایا ، خوف و دہشت پھیلانے کے لیے لاکھوں مرد و خواتین ،بچے ، بوڑھے اور جوانوں کو ہلاک کرڈالا ،اس پر ایک کروڑ ساٹھ لاکھ افراد کے قتل عام کا الزام لگایا جاتا ہے جن میں مبینہ طور پر۶۰ لاکھ یہودی تھے ،یہودیوں اور رومانیوں کو سینکڑوں میل دور بنائے گئے مقتل گاہوں پر جانوروں کی طرح ریل گاڑی میں ٹھونس کر منتقل کیا جاتا ، کچھ لوگ تو حبس دم کی وجہ سے راہ ہی میں تڑپ تڑپ کر مر جاتے اور جو بچ جاتے انہیں گیس چیمبرمیں ڈال دیا جاتا ، افسوس اور قابل غور امر یہ ہے کہ ہٹلر کے اس ظلم و ستم اور نسل کشی کا ساتھ جرمنی کے افسران بھی دیتے تھے ، بھکت تالیاں بجاتے ، خوش ہوتے اور ہٹلر سمجھتا تھا ہم نے ستاروں پر کمندیں ڈال دیں ، دنیا میری مٹھی میں ہے ۔ دراصل ہٹلر کی آنکھوں میں خون نفرت اتر آیا تھا ،اس کے رگ رگ میں تعصب کا لہو دوڑ رہا تھا ، زبان نفرت زدہ ہو چکی تھی ، دل و دماغ میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی ، جس کی وجہ سے وہ صحیح اور غلط میں تفریق کرنا بھول گیا تھا ۔
آج ہندوستان کی مسند اقتدار پر براجمان پارٹی بی جے پی اسی ہٹلر کی نفرت انگیز ، نسل پرست اور قوم پرست سیاست کررہی ہے ، اور اس معاملے میں اترپردیش کی یوگی سرکار سب سے پیش پیش ہے ۔۲۰۱۷ میں اترپردیش کی کرسی سنبھالتے ہی سب سے پہلے اس نے ان شہروں کے نام تبدیل کرنے کی مہم چھیڑ ی جن سے مسلمانوں کی شناخت ہوتی ہو اور محسوس ہوتا ہو کہ اس شہر کو بسانے والا کوئی مسلمان تھا ، چناں چہ تاریخی شہر الٰہ آباد کو پریاگ راج اور فیض آباد کو ایودھیا کردیا ۔ اس عمل قبیح کے ذریعے یوگی سرکار نے اکثریتی طبقہ کو یہ پیغام دینے کی کوشش کہ ہم ہی ہندو تہذیب و تمدن کے رکھوالے اور تمہاری غیرت و خودداری کے محافظ ہیں ۔اس کے بعد لو جہاد قانون لے کر آ گئی ، کہنے کو تو یہ قانون ہردھرم کے ماننے والوں پر یکساں نافذ ہوگا ؛لیکن احباب ذی شعور اور اہل نظر نے اسی وقت کہا تھا اس قانون کا غلط استعمال ہوگا اور یہ ایک مخصوص طبقہ(مسلمانوں) پر نافذ ہوگا اور وہی ہورہا ہے ، اب تک ۸۵ لوگوں کے خلاف اس قانون کی دفعات کے تحت مقدمے قائم ہوئے ،ان میں سے ۷۹ مسلمان ہیں جبکہ دیگر کا تعلق بھی عیسائی فرقہ سے ہے ، اسی دوران بریلی ، میرٹھ،کانپور اور کئی جگہوں میں ایسے متعدد واقعات رونما ہوئے جن میں لڑکا ہندو اورلڑکی مسلمان تھی، رپورٹوں کے مطابق ایسے جوڑوں کو پولیس تحفظ فراہم کرتی ہے اور جب لڑکی کے اہل خانہ ایف آئی آر درج کرانے تھانہ جاتے ہیں تو انہیں ڈرا دھمکا کر بھگا دیا جاتا ہے ۔آگرہ کا رہنے والا بجرنگ دل کے اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے آرگنائزر اجو چوہان کا کہنا ہے :ہم لوگ سب سے پہلے ہندو لڑکیوں کے والدین کے ذریعے مسلم لڑکے پر کئی سخت مقدمات لگواتے ہیں جیسے گھر کے زیور اور نقدی چوری ،عصمت دری وغیرہ وغیرہ ،پھر پولیس پر جلدی کارروائی کے لیے دباؤ بناتے ہیں ، ہمارا نیٹ ورک بھی لڑکی کو تلاش کرتا ہے ، پولیس ہمارا مکمل ساتھ دیتی ہے ، عدالتوں میں بھی ہمارا نیٹ ورک کام کرتا ہے ، قانون بننے کے بعد پہلے ہی ماہ میں ۱۴ مقدمات درج ہوئے ، ۵۰ افراد گرفتار کر کے پابند سلاسل کیے گئے ان میں سب کے سب مسلمان تھے ۔،،سابق آئی پی ایس وبھوتی نارائن رائے کہتے ہیں:ہندو جماعتیں جانتی ہیں اس وقت ہماری سرکار ہے ، لو جہاد معاملے میں پولیس اور ہندو کارکنوں کے درمیان ایک طرح کا سمجھوتہ ہے ، کارکنان کئی بار پولیس کی طرح کام کرتے ہیں ،،۔الٰہ آباد ہائی کورٹ کہتی ہے :کسی کو بھی اپنی پسند کے شخص کے ساتھ رہنے کا حق ہے چاہے وہ کسی بھی دھرم کا ہو ، آزادی اور خود مختاری اس کا بنیادی حق ہے اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا حق نہیں،مگر سرکاری غنڈے قانون اور سسٹم کو ٹھینگا دکھا رہے ہیں ،لکھنؤ کے وجے گپتا کی بیٹی کی شادی خاندان کی رضامندی سے ایک مسلمان لڑکے کے ساتھ ہو رہی تھی ،بجرنگ دل نے پولیس سے شکا یت کی اور پولیس نے آکر شادی رکوا دی، گپتا جی کا خاندان خوف میں جی رہا ہے۔
اب یوگی سرکار اپنے سیاسی مخالفین خصوصا مسلمان نام والے نیتاؤں کو جیسے عتیق انصاری ، مختار انصاری کی بلڈنگوں پر بلڈوزر چلوا رہی ہے، ان کی جائداد پر قبضہ جما رہی ہے ، سابق وزیر اور بی ایس پی کے سابق لیڈرنسیم صدیقی خواتین پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے گئے ہیں جبکہ یوگی جی نے خود ایک بار کہا تھا : قبر سے نکال کر مسلم عورتوں کا ریپ کرو مگر ان کا بال بھی بانکا نہیں ہوا ؛بلکہ وزیر اعلی بنتے ہی اپنے سارے مقدمات ختم کروا دیے۔ سماج وادی پارٹی کے سابق ایم ایل اے عارف انور کی قریب ۱۷ کروڑ روپے کی غیر منقولہ جائیداد یوگی سرکار نے ضبط کرلی ،ضبط شدہ جائیداد میں زرعی زمینیں ،مکان بنانے کے لائق زمینیں اور ایک انٹر کالج عبدالغفار ہاشمی گرلس انڈر کالج کی زمین ہے ، یوگی جی ابھی روکے نہیں ہیں، اب تو اس نے اتر پردیش کے سابق وزیر اور سماجوادی پارٹی کے سینئر رہنما رکن پارلیامنٹ اعظم خان اور ان کے پورے خاندان کو جیل میں ڈلوا دیا ہے ،چونکہ اعظم خان مسلمانوں کے ایک دبنگ اور بڑے نیتا شمار کئے جاتے ہیں، ان کے سیاسی قد کا اندازہ یوگی جی کو اچھی طرح ہے سو انہوں نے بکری چوری ، مرغی چوری اور کتاب چوری جیسے مضحکہ خیز الزام ات لگا کر پا بہ زنجیرکیا اوراب ا ن کے خوابوں کی تعبیر مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی پراپنی نگاہ ٹیڑھی کردی ہے ، کہا جا رہا ہے جوہر یونیورسٹی کی زمین خریدتے وقت متعدد شرائط کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیںمگر حقیقت یہ ہے کہ یوگی کو اعظم خان اور جوہر یونیورسٹی سے نفرت ہے ،کیا یوگی جی یہ نہیں جانتے ہیں کہ ملک میں جتنی یونیورسٹیاںں بنتی ہیں سبھی کو سرکار زمین مہیا کراتی ہے اور سرکار ہی اس کا بل اسمبلی میں پاس کراتی ہے ، خود مودی بھکت لالہ رام دیو کی یونیورسٹی جو اتراکھنڈ میں بنی ہے جس کو کانگریس نے زمین مہیا کروائی تھی اس سے زمین واپس لی جائے گی؟ یقینا نہیں کیونکہ اس یونیورسٹی کو اعظم خان نے نہیں بنوایا ہے اور نہ ہی محمد علی جوہر نام ہے ۔ یوگی جی یہ بتادیں کہ اتر پردیش میں ایسی کون سی یونیورسیٹی نہیں ہے جس کو سرکار نے زمین مہیا نہ کرائی ہو خواہ نوئیڈا میں ٹائمس اف انڈیا کی یونیورسٹی ہو یا لکھنؤ میں بی بی اے یو یونیورسٹی ،اگر مان لیا جائے کہ جوہر یونیورسٹی کی زمین خریدتے وقت کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو ان کو درست کر کے جوہر ٹرسٹ کے حوالے کردی جائے مگرایسا نہ کر کے بولڈوزر چلانے کی تیاری ہو رہی ہے ؛کیوں کہ جوہر یونیورسٹی کوبنانے والا ایک مسلمان ہے ، ایک مسلمان کے نا م پر اس یونیورسٹی کا نام رکھا گیا ہے ، سابق گورنر عزیز قریشی نے بل پر دستخط کر کے اقلیت کا درجہ دیا ہے، یہاں ۵۰ فیصد مسلم بچے بچیاں پڑھیں گے ، آئندہ نسلیں اعظم خان اور عزیز قریشی کو یاد کریں گی، اس لیے یوگی سرکار نے پہلے جوہر یونیورسٹی کی لائبریری توڑ وادی ، پھر اردو گیٹ پر بولڈوزر چلوادیا اور اب چودہ سو بیگھہ زمین یعنی ۹۴ فیصدیونیورسٹی کی زمین کو یوگی سرکار نے اپنی تحویل میں لے لی ہے ،بہت ممکن ہے یونیورسٹی کی شاندار عمارت زمیں دوز کر دی جائے اور ہزاروں بچوں کا مستقبل تاریک ہو جائے۔مودی جی نے کہا تھا : میں مسلمان بچوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں کمپیوٹر دیکھنا چاہتا ہے ؛لیکن یوگی مسلمانوں کو کہیں دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔، یو پی میں مسلمان کے نام سے کوئی شہرنہ رہے ، مسلمان کے نام سے کوئی تعلیمی ادارہ نہ ہو، مسلمان کے نام سے کوئی سڑک نہ ہو ، مسلمان اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ ہوں ، مسلمان اعلی عہدے پر فائز نہ ہوں ،مسلمان اعلی سیاست داں نہ ہوں ،مسلمانوں کو وہ صرف سبزی بیچتے ہوئے ،پنچربناتے ہوئے ،کباڑی ڈھوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تاہم یوگی جی کو جان لینا چاہئے اس ملک پر جتنا کسی ہندو کا حق ہے اتنا ہی اک مسلمان کا حق ہے ، ہندو اس ملک کا شہری ہے تو مسلمان بھی ہے ،ہندوستان کے ایک ایک ذرے پرمسلمانوں کا خون ہے ، ملک کی آزادی میں ، ملک کی ترقی میں مسلمانوں کا یکساں رول ہے ،اس لئے یوگی سرکار کو چاہئے نفرت بھری سیاست چھوڑکرمسلمانوں کے ساتھ محبت کی راہ اپنائے اسی سے اترپردیش ترقی کے منازل طے کرے گا، صوبے میںامن و محبت کی فضا قائم ہوگی اور بھائی چارہ فروغ پائے گا۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment