Home سفرنامہ ندوہ میں گزرے خوش گوار لمحات ۔ محمد رضی الاسلام ندوی

ندوہ میں گزرے خوش گوار لمحات ۔ محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

ندوہ کیمپس میں داخل ہوتے ہوئے میری وہی کیفیت تھی جسے کسی شاعر نے ان الفاظ کا جامہ پہنایا ہے :
اَمُرُّ علی الدِّیارِ دیارِ لیلیٰ
اُقَبِّلَ ذَا الجدَارَ وَ ذَا الجِدارَ
و ما حبُّ الدیارِ شغفن قلبي
و لکن حبُّ من سکن الدیارَ
[ میں لیلیٰ کے علاقے سے گزرتا ہوں تو کبھی اِس دیوار کو چومتا ہوں ، کبھی اُس دیوار کو – مجھے ان در و دیوار سے محبت نہیں ہے ، بلکہ اس سے محبت ہے جس کی ان میں رہائش تھی – ]

ندوہ میں میری حاضری مجلس تحقیقات شرعیہ کے سمینار میں شرکت کے مقصد سے ہوئی تھی ، چنانچہ 23 نومبر 2022 کی صبح وہاں پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد سے 24 کی شب واپسی سے ذرا پہلے تک سمینار کی کارروائیوں میں شریک رہا ، لیکن درمیانی وقفوں میں میں نے اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے مواقع نکال لیے – مرکزی عمارت کے بعض ان کمروں میں گیا جن میں بیٹھ کر پڑھتا تھا ، سلیمانیہ ہاسٹل میں گھوما ، جس میں میری رہائش تھی ، شبلی ہاسٹل کی طرف گیا ، جس میں واقع جمعیۃ الإصلاح کے ہال میں ہونے والے پروگراموں میں شرکت کرتا اور وہاں کی لائبریری سے استفادہ کرتا تھا – مولانا عبد العزیز بھٹکلی نائب مہتمم ندوہ سے ملاقات ہوئی ، انھوں نے بہت محبت کا اظہار کیا – مولانا عثمان ندوی سے ، جو میرے زمانے سے اب تک عربی جریدہ الرائد کے منیجر ہیں ، ملاقات ہوئی ، وہ اپنے دفتر لے گئے – اردو جریدہ تعمیر حیات کے دفتر گیا ، وہاں کلاس فیلو مولانا محمد مبین ندوی سے ملاقات ہوئی – سرِ راہ اپنے کلاس فیلو برادر عرفان حسنی سے ملاقات ہوگئی ، جو وہاں آئے ہوئے تھے ، بہت تپاک سے ملے – مولانا نعمان الدین ندوی سے ملاقات کرنے ان کے گھر گیا – ان کے والد مولانا محمد برہان الدین سنبھلی میرے مشفق استاذ تھے اور ان کے صاحب زادے حسان الدین سے بھی میرے قریبی تعلقات ہیں – میں نے اپنے اساتذہ سے ملاقات کرنا ضروری سمجھا ، جن کے سامنے زانوئے تلمّذ تہہ کیا تھا ، چنانچہ مولانا شمس الحق ندوی سے ملاقات کے لیے ان کے گھر حاضر ہوا – ندوہ کے اساتذہ میں سب سے زیادہ میں انہی سے قریب رہا ہوں – وہ بہت محبت و شفقت سے ملے – میں نے ان کی خدمت میں اپنی کچھ تصانیف پیش کیں تو بہت مسرت کا اظہار کیا اور دعائیں دیں _ مولانا سعید الرحمٰن الاعظمی مہتمم ندوہ سے سمینار کے افتتاحی اجلاس میں ملاقات ہوچکی تھی ، لیکن ان کے دفتر میں بھی حاضری دی – مولانا محمد رابع حسنی ناظم ندوہ سے مہمان خانہ میں جاکر شرفِ ملاقات حاصل کیا – یہ وہ اساتذہ ہیں جن سے باقاعدہ کلاس میں بیٹھ کر درس لیا ہے – مولانا محمد زکریا سنبھلی سے ، جن سے میں نے حدیث پڑھی ہے ، خواہش کے باوجود ملاقات نہ کرسکا ، جس کا بہت افسوس ہے – کلاس فیلو بھائی جعفر مسعود حسنی سے ملاقات کا ارادہ تھا ، لیکن مصروفیت کی وجہ سے وقت نہ نکل سکا – کلاس فیلو بھائی محمد خالد کان پوری ، جو عرصہ سے دبئ میں ہیں ، آئے ہوئے تھے ، لیکن تین چار روز قبل ہی وہ واپس جاچکے تھے – ندوہ کے بہت سے ان اساتذہ سے ملاقات ہوئی جو میرے زمانے میں طالب علم تھے اور جن کے ساتھ میری صبحیں اور شامیں گزری تھیں – انھوں نے بہت احترام اور محبت کا مظاہرہ کیا – مجلس کے رفیق مولانا منور سلطان ندوی ، جنھوں نے ‘ابنائے ندوہ کی فقہی خدمات’ پر کام کیا ہے ، ملاقات کے لیے کمرے پر تشریف لائے اور مختلف موضوعات پر دیر تک ان سے گفتگو ہوتی رہی –

مولانا فیصل احمد بھٹکلی ندوی نے فون کرکے مجھے اپنی رہائش گاہ پر بلایا اور خاطر تواضع کی – موصوف بہت ذی استعداد اور فنا فی العلم شخصیت کے مالک ہیں – ان کی رہائش گاہ دیکھ کر ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیرس) یاد آگئے کہ انہی کی طرح مولانا کے گھر کے تمام کمرے بھی کتابوں سے بھرے ہوئے تھے – ہر کمرے میں الماریاں چھت تک بنی ہوئی تھیں اور وہ کتابوں سے پُر تھیں – یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہر کتاب پلاسٹک کی تھیلی میں ہے – میں نے چٹکی لی : ” مولانا! آپ نے کتابیں سجا رکھی ہیں ، کیا انہیں پڑھتے نہیں ہیں؟ “ وہ سمجھ گئے – کہنے لگے :” دھول سے محفوظ رکھنے کا یہ اچھا طریقہ ہے -“ میں نے کہا :” اتنی کتابیں ہیں ، کوئی کٹیلاگ بھی نہیں ہے – کیسے معلوم ہوتا ہے کہ کون سی کتاب کہاں رکھی ہے؟ “ انھوں نے جواب :” مجھے ہر کتاب کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ کس الماری میں ہے؟ “ انھوں نے اپنے گھر میں لگے ہوئے پیڑ کے امردو کھلائے – وہ اتنے لذیذ تھے کہ اس کے آگے سیب بھی فیل تھے – کہنے لگے :” اس پیڑ کے پھل سے بیش تر اساتذہ لطف اندوز ہوتے ہیں – “

ندوہ میں کتابوں کی قیمتی سوغاتیں بھی ملیں – وہ کتابیں جو مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے شائع ہوئی ہیں، ‘ذکرِ محمود’ ، جو مولانا محمود سید حسن حسنی کی وفات پر شائع ہونے والے مضامین کا مجموعہ ہے، استاذ گرامی مولانا واضح رشید ندوی کی کتاب ‘چند باکمال ہستیاں’ ، مولانا عتیق احمد بستوی کی کتاب ‘مولانا سید ابو الحسن علی ندوی : شخصیت ، افکار اور مکاتیب’ ، مولانا عبید اللہ اسعدی کی کتاب : ‘کرونا : مسائل و احکام’ ،مولانا محمد خالد ندوی غازی پوری کی کتاب ‘صحابہ کرام کی زندگی کے روح پرور واقعات’ ، مفتی محمد توصیف قاسمی کی کتاب ‘دفاع اور شہادت کے اقسام و احکام’ ، ڈاکٹر محمد علی ندوی استاد ندوہ کی عربی تصنیف ‘الإعجاز العلم فی القرآن الكريم’ ، مفتی محمد اشرف قاسمی کے کتابچے’فتنہ اکبری اور مجدد الف ثانی کی قلمی مقاومت’ اور’ تبلیغی جماعت اور تحریک ولی اللہی’ – کچھ اور کتابیں بھی – ان شاء اللہ ان میں سے بعض کا تعارف آئندہ کراؤں گا –

ندوہ میں میرے لیے سب سے زیادہ حیرت اور خوشی کی بات یہ تھی کہ وہاں کے طلبہ کے درمیان میرا تعارف پہلے سے تھا – آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے – بہت سے طلبہ پہلے سے فیس بک پر مجھے فالو کرتے تھے اور بہت سے واٹس ایپ پر مجھ سے جڑے ہوئے تھے – انھوں نے پہلے سے دریافت کرلیا تھا کہ میں مجلس کے اس سمینار میں پہنچ رہا ہوں یا نہیں؟ اجتماع گاہ میں داخل ہونے سے پہلے بہت سے طلبہ مصافحہ کرنے کے لیے بے تاب رہتے تھے – دیگر اوقات میں بھی ان سے اچھی ملاقاتیں رہیں – بہت سے طلبہ کمرے پر بھی ملنے آئے – میں اپنی کچھ کتابیں اور کتابچے لیتا گیا تھا – وہ انہیں دیں – مختلف موضوعات پر ان سے گفتگو ہوتی رہی – عالمیت کے آخری سال کے بہت سے طلبہ سے ملاقات ہوئی – ان سے معلوم ہوا کہ 700 طلبہ اس درجہ میں ہیں اور ان کے 9 سیکشن ہیں – سمینار میں آخری درجات کے طلبہ کو بھی شرکت کا موقع دیا گیا تھا – طلبہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کی صلاحیتوں کا اندازہ ہوا –

ندوہ میں گزارے گئے یہ دو دن میرے لیے بہت قیمتی تھے – مجھے روحانی مسرتوں کا احساس ہوا – اساتذہ سے دعائیں ملیں – جیسے موبائل ڈسچارج ہونے لگے تو اسے کچھ دیر الیکٹرک پلگ سے لگا دینے پر اس کی بیٹری چارج ہوجاتی ہے ، اسی طرح محسوس ہوا کہ مادرِ علمی کے روحانی ماحول میں کچھ وقت گزارنے پر میری بیٹری بھی چارج ہوگئی ہے – اللہ تعالیٰ مادرِ علمی کو دن دونی رات چوگنی ترقی دے ، اسے ہر طرح کے شرور و فِتَن سے محفوظ رکھے اور اس کا فیضان عام کرے ، آمین ، یا رب العالمین –

You may also like

Leave a Comment