ڈاکٹر سید افضل حسین قاسمی
نورنگ دواخانہ بنگلور
ہم نے دیکھ کر طیبہ ، قسم ایسی کھالی ہے
کہ یہ شاعری اپنی ، اب گُنہ سے خالی ہے
د ر ر سو لِ ا کر م کا ، مر جعِ خلا ئق ہے
جاکے اس جگہ دیکھو ، ہر کوئی سوالی ہے
وہ نظر سعا د ت کی ، بھو ل ہی نہیں پا تے
جب سے اک نظر ہم نے، جالیوں پہ ڈالی ہے
ان پہ جان کے صدقے ، مال بھی نچھاور ہے
جن کا ہر عمل مِشعل ، ہر ا د ا نر ا لی ہے
سر خرو و ہی ہو گا ، جس نے بند گی کر تے
ا ن کی را ہ پر چل کر ، ز ند گی بنا لی ہے
و ا عظو نہ سمجھا ؤ ، طو رِ بند گی ہم کو
حکمِ بند گی اُن کا ، اِن سے گردِ پا لی ہے
ہیں غلا م د نیا میں ، آ پ کے بہت لیکن
پا سکا ہے کو ئی جو، رُ تبہ ء بلا لی ہے
آپ ہیں ر سو لو ں میں، عظمتو ں کا مینا ر ہ
ہا شمی لقب اُ مّی ، اور نسب بھی عا لی ہے
قا سمی ند ا مت کے ، عر قِ چشم ہیں ریزاں
ہے نہ کچھ عمل اپنا ، سر کُلَہ سے خا لی ہے