فضا میں رقصاں ہر ایک منظر میں
اس کے جلووں کی تابناکی
اسی کے دم سے ہے آسماں پر
شفق کے رنگوں کی بے کرانی
اسی کے نقشِ قدم نے بدلے
یہ ریگزاروں کے تپتے منظر
اسی کی چشمِ کرم نے بخشی
یہ رحمتوں کی عظیم چادر
اسی کی خاطر بنائے رب نے
یہ سب مناظر یہ سارے پیکر
اسی کی خاطر صدائے کن سے
تمام عالم کی ابتدا کی
اسی کے ہاتھوں عروجِ آدم کی
لفظ اقرأ سے انتہا کی
اسی نے آکر ہمیں بتایا
کہ علم و حکمت کی رہگزر پر
ہے ابن آدم کی سر بلندی
طلسم دنیا کا اسم اعظم
حصولِ علم و عمل میں پنہاں
کہ اس پہ چل کر
وقارِ آدم کی عظمتوں کے نشاں ملیں گے
کہ اس کو کھو کر
جہنموں کے مہیب سیلِ رواں ملیں گے
رموز اقرأ کا وہ شناسا
وہ میرا مولا وہ میرا آقا
وہ میرا والی وہ میرا رہبر
وہ میرا شافع وہ میرا سرور
وقار آدم کا نقش اول
کتاب ہستی کا حرف آخر
فضا میں رقصاں ہر ایک منظر میں اس کے جلووں کی تابناکی