حیدر آباد کا دریدہ دہن اکیلا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ایک نظریہ ہے‘ ایک منصوبہ ہے۔ اس کے ساتھ ایک جماعت اور حکومت ہے۔اس غلیظ عمل میں وہ تنہا نہیں ہے۔اور بھی بہت ہیں۔اس سے پہلے بھی تھے اور اس کے بعد بھی آئیں گے۔وہ نہ پہلا ہے اور نہ آخری۔
تلنگانہ اسمبلی میں بی جے پی کا ممبر ٹی راجا سنگھ ایک عرصہ سے غلاظت بکھیر رہا ہے۔اس کی مجرمانہ ذہنیت کو سمجھنے کیلئے اتنا سمجھنا کافی ہے کہ اس کے خلاف 101مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ 18 مقدمات فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے ہیں۔
مجلس اتحاد المسلمین کی حمایت سے قائم ٹی آر ایس حکومت نے آخر اس کا انتظار کیوں کیا کہ وہ شان رسول میں ایسی گستاخی کرے کہ جس کو سننے کی بھی تاب نہ ہو۔ وہ آزاد گھومتا بھی رہا اور الیکشن جیتتا بھی رہا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کم سے کم اس کے حلقہ اسمبلی‘ گوش محل میں اتنے ووٹر تو اسی کے ہم خیال ہیں کہ جو اسے جتاکر اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں۔
جب پہلی گرفتاری کے بعد تکنیکی بنیادوں پر اسے ضمانت مل گئی اور وہ بی جے پی کے دفتر پہنچا تو کس شان سے اس کا استقبال کیا گیا۔مسلمانوں اور ان کے قائدین کو یہاں ٹھہر کر جائزہ لینا پڑے گا کہ ایسے میں کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔
اس شیطان کے خلاف حیدر آباد میں جو مظاہرے ہوئے ان میں لگنے والے نعروں نے پولیس کا ہی نہیں پوری مہم کا ہی رخ موڑ دیا۔ ’سرتن سے جدا‘ کے نعروں کے شور کے بعد کس طرح نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوئیں۔ خود پولیس کے مطابق 90 سے زائد نوجوانوں کی گرفتاریاں کی گئیں۔مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے دعوی کیا ہے کہ انہوں نے خود پولیس کمشنر سے بات کرکے انہیں رہا کرایا اور اپنے کارپوریٹرس کے ذریعہ انہیں ان کے گھروں کو بھجوایا۔
24 اگست کو شاہ علی بنڈا کے علاقہ سے مسلمانوں نے ٹی راجا کی شرانگیزی اور بدزبانی کے خلاف مظاہرہ شروع کیا تو پولیس کے مطابق تین نوجوانوں نے اس پر پتھر پھینکے۔یہ اعتراف مظاہرہ میں شریک لوگ بھی کر رہے ہیں کہ تین نوجوان پولیس پر پتھر پھینک کر بھاگ گئے۔لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ پتھر پھینکنے والے ان کے مظاہرہ کا حصہ نہیں تھے۔اس علاقہ کی ایک گلی کے مکین بھی کہتے ہیں کہ تین نوجوان باہری نظر آتے تھے جو پولیس والوں کے ساتھ اس گلی میں گھسے تھے۔
پولیس کہتی ہے کہ یہ تینوں پتھر باز اسی گلی میں گھسے تھے۔ لہذا پولیس نے انتہائی جارحانہ کارروائی کرتے ہوئے گھروں میں گھس کر مارپیٹ کی۔تین نوجوانوں کو بھی پکڑ لیا گیا۔ان کے اہل خانہ کہتے ہیں کہ یہ تینوں بے قصور ہیں۔پولیس کہتی ہے کہ یہی تینوں پتھر پھینک کر بھاگے تھے۔سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے جو ویڈیوز آئی ہیں ان سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس نے مسلمانوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا۔کم سے کم ایک نوجوان کے سر اور منہ سے خون بہتا ہوا دیکھا گیا۔
شاہ علی بنڈا دراصل ایک ملی جلی آبادی ہے۔ایک طرف ہندو آبادی زیادہ ہے اور دوسری طرف مسلم آبادی۔ میرا خیال ہے کہ ایسے علاقہ میں احتجاج اور مظاہرہ کا نظم کرنے والوں کو احتیاط کی سخت ضرورت تھی۔کیا انہوں نے اس کا اندازہ لگاکر کہ شرپسند بھی ان کے مظاہرہ میں گھس سکتے ہیں کوئی پیش بندی کی تھی؟
حیدر آباد کے سینئر صحافی سید فاضل حسین پرویز کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے ایک انتہائی معمولی قسم کے غلیظ انسان کو قومی ہیرو بنادیا۔وہ کہتے ہیں کہ اسے سزا دلوانے کا قانونی طریقہ موجود تھا۔لیکن اس کے خلاف مظاہرہ کا اہتمام کرکے اس کا قد بی جے پی سے بڑا کردیا۔کہتے ہیں کہ ٹی راجا دراصل شراب کا ناجائز کاروبار کرتا تھا۔
فاضل حسین پرویز کا دعوی ہے کہ بی جے پی قیادت خود نہیں چاہتی تھی کہ وہ اتنا آگے بڑھے۔اس بات کا خود ٹی راجا کو بھی اندازہ تھا۔لیکن اس نے آگے بڑھنے کیلئے یہ راستہ اختیار کیا۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ پہلی گرفتاری کے بعد چھوٹ کر آیا تو اس کے حامیوں نے بی جے پی کے دفتر پر اس کا استقبال کیا۔
یہاں ایک سوال یہ ہے کہ آخر وہ پہلی گرفتاری کے بعد چھوٹ کیسے گیا۔اس کا جواب یہ ہے کہ جن دفعات کے تحت ٹی راجا کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں جرم ثابت ہونے پر سزا سات سال یا اس سے کم ہوتی۔سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق ایسے معاملات میں جن میں سزا سات سال یا اس سے کم ہو ملز م کوگرفتار کرنے سے قبل دفعہ 41 اے کے تحت پولیس کو نوٹس دینا ہوتا ہے۔اس معاملہ میں ایسا نہیں ہوا تھا۔اس لئے ٹی راجا کے وکیل کے اعتراض کے بعد مقامی عدالت نے تکنکی بنیادوں پر اسے ضمانت دیدی تھی۔
رضا اکیڈمی ممبئی کے صدر سعید نوری نے زعماء امت سے مطالبہ کیا ہے کہ اب ایک تحریک چلاکر توہین رسالت کا قانون بنوایا جائے جس کے تحت مرتکب کو دس سال سے کم کی سزا نہ ہو۔ ضمانت دیتے وقت عدالت نے شرط عاید کی تھی کہ ٹی راجا اس نوعیت کا کوئی بیان نہیں دے گا۔لیکن اس نے پھر ویڈیو بنائی اور حکومت کو للکارا۔اس مرتبہ حیدر آباد کے پولیس کمشنر نے اسے پی ڈی یعنی ’پریونٹو ڈٹینشن‘ کے تحت گرفتار کرلیا۔پی ڈی کے تحت غنڈوں کو گرفتار کیا جاتا ہے اور اس میں تین مہینے سے پہلے ضمانت نہیں ہوتی۔اسے ایک سال تک توسیع دی جاسکتی ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ تازہ قضیہ کامیڈین منور فاروقی کے شوکے سبب کھڑا ہوا۔ورنہ ٹی راجا سنگھ تو ہمیشہ بدزبانی کرتا ہی رہتا ہے۔اس نے انتباہ دیا تھا کہ وہ منور فاروقی کا شو ہونے نہیں دے گا۔ایک طبقہ کا خیال ہے کہ یہ کامیڈین دوسروں کے دیوی دیوتائوں کا مذاق اڑاتا ہے۔لیکن حکومت تلنگانہ نے اس کا شو پرانے شہر سے دور ہائی ٹیک سٹی میں منعقد کرایا جہاں دوہزار سے زیادہ لوگوں نے اس کا شو دیکھا۔حالانکہ اس نے یہاں ایسی کوئی ہرزہ سرائی نہیں کی لیکن ٹی راجا نے احتجاجاً یہ اعلان کردیا کہ میں نپور شرما کے خیالات کی تائید کرتا ہوں۔کچھ ہی دن پہلے نپور شرما‘ شان رسول میں گستاخی کرچکی ہے۔
مسلمانوں کے جذبات کا بر افروختہ ہونا فطری تھا۔اس سلسلہ میں‘ میں نے ملک بھر کے متعدد اہل علم‘ صاحب فہم و ادراک اور ذی شعور علماء سے ان کی آراء حاصل کی ہیں۔تمام علماء نے بیک زبان یہی کہا ہے کہ ایک طرف جہاں ہمارے لئے شان رسول سے بڑھ کر کچھ نہیں وہیں ہمیں ایسا غیر اسلامی نعرہ لگانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
میں اپنے مشاہدات کی بنیاد پر جو نتیجے اخذ کر رہا ہوں وہ بھیانک ہیں۔ یہ وقت ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی‘ سماجی اور مذہبی قائدین ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہ بیٹھیں۔اپنے تمام تحفظات اور ’انا‘ کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کے در پر جائیں‘ بار بار مل کر بیٹھیں‘ سوچیں کہ آخر ایسے واقعات سے نپٹنے کا کیا لایحہ عمل ہو۔ایک طرف ایسے شرپسند اور شیطانوں کے گلے میں قانونی طوق ڈالنے کا کوئی اچوک‘ موثر اور مضبوط منصوبہ بنایا جائے اور دوسری طرف اپنے نوجوانوں کے جذبات کو سمجھ کر ان کے جوش کو برافروختہ نہ ہونے دیا جائے۔
یہ خاموشی درست نہیں ہے۔یہ خاموشی فائدہ کی بجائے نقصان کا سبب بنے گی۔یہ خاموشی ناموس رسول پر جان نچھاور کرنے والے عشاق کو مایوسی میں دھکیل دے گی۔ میں اپنے فرض منصبی کی بدولت ہر طرح کے لوگوں سے مل رہا ہوں۔بہت سے حلقوں میں اس بات کا ذکر خوف اور نفرت کے ملے جذبات کے ساتھ ہورہا ہے کہ اسلام توہین رسالت کے مرتکبین کا سر تن سے جدا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔لہذا وہ ہر مسلمان کو اسی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔اودے پور کا واقعہ وہ دیکھ چکے ہیں۔پڑھے لکھے اور باشعور لوگ تک روک کر پوچھتے ہیں: کیا واقعی سر تن سے جدا کرنے کا حکم ہے؟
یہ ایک بہت غلط رجحان پیدا ہورہا ہے۔میں نے اس سلسلہ میں ملک بھر کے کبار علما اور صاحبان بصیرت سے ذاتی رابطہ کرکے تین سوالات پر ان کی رائے طلب کی۔
وہ تین سوالات یہ ہیں:
-1توہین رسالت کے خلاف احتجاج اور مظاہروں میں لگائے جانے والے نعرے ’سرتن سے جدا‘ کا شرعی حکم کیا ہے؟
-2 ہندوستان کے فرقہ وارانہ احوال کے تناظر میں توہین رسالت کے خلاف مسلمان کس طرح کا رویہ اختیار کریں؟
3- اور کیا ہندوستان کے تمام مسالک اور مکاتب فکر کے علماء کو اس اہم مسئلہ پر کوئی متفقہ لایحہ عمل ترتیب دے کر عام مسلمانوں کی رہ نمائی نہیں کرنی چاہئے؟۔
ابھی تک جن کبار علما نے اپنی رائے سے نوازا ہے انہیں روزنامہ انقلاب میں اہمیت کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے رکن مولانا ابوطالب رحمانی‘ مولانا ابوالکلام آزاد اویکننگ سینٹر کے صدر مولانا محمد رحمانی‘ رضا اکیڈمی ممبئی کے صدر سعید رضانوری‘ القرآن اکیڈمی کے بانی مفتی اطہر شمسی‘ المعہدالعالی حیدرآباد کے نائب ناظم مفتی عمر عابدین قاسمی اور مدرسہ فاروقیہ کاکوری کے مہتمم مولانا عبدالعلی فاروقی کی آرا شامل ہیں۔
ان سطور کا اختتام عام مسلمانوں سے اس درخواست کے ساتھ کر رہا ہوں کہ خدا کیلئے ایسے مواقع پر اپنے سیاسی قائدین کی نہیں بلکہ اپنے مذہبی قائدین کی رہ نمائی حاصل کیجئے۔ حیدر آباد میں جن 90 مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی تھی انہیں مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی کی مداخلت کے بعد رہا کردیا گیا ہے‘ لیکن حیدر آباد سے باہر کہیں کوئی اویسی بھی نہیں ہے۔اور اویسی ہی کیا کوئی ٹی آر ایس یا کے سی آر جیسا لیڈر بھی نہیں ہے۔کانگریس‘ سماجوادی پارٹی‘ بہوجن سماج پارٹی اور دوسری پارٹیوں کا رویہ ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔