Home تجزیہ ناکردہ گناہوں کی سزا کب تک؟- سہیل انجم

ناکردہ گناہوں کی سزا کب تک؟- سہیل انجم

by قندیل

مولانا کلیم الدین مجاہد، مولانا عبد الرحمن علی خان عرف مولانا منصور، محمد سمیع اورشفیق انصاری۔ یہ نام ان سیکڑوں بے قصور مسلمانوں کی فہرست میں تازہ تازہ شامل ہوئے ہیں جن کو بلا جرم و خطا گرفتار کیا گیا۔ برسوں تک جیلوں میں رکھا گیا اور بالآخر عدالتوں سے ان کو رہائی ملی۔ اب اس ملک میں ایک دستور بن گیا ہے کہ اگر کسی نے کسی مسلمان کے خلاف جھوٹی بھی شکایت کر دی تو پولیس فوراً اپنا فرض منصبی ادا کرتے ہوئے اس شخص کو گرفتار کر لیتی اور عدالت میں پیش کر دیتی ہے۔ عدالت بھی فوری طور پر اسے پولیس یا عدالتی تحویل میں بھیج دیتی ہے۔ پھر اس شخص کو برسوں جیل میں رہنا پڑتا ہے۔ کبھی اس کو وکیل نہیں ملتے۔ کبھی اعلیٰ عدالتوں میں مقدمہ لڑنے کے لیے رقم کا انتظام نہیں ہوتا۔ کبھی کیس سماعت لیے لسٹ نہیں ہو پاتا۔ کبھی سماعت شروع ہوتی ہے تو لمبی لمبی تاریخیں ملتی ہیں۔ اس طرح اس بے قصور شخص کی زندگی کے لاتعداد دن سلاخوں کے پیچھے گزر جاتے ہیں۔ یہ ہر اس مسلمان کا قصہ ہے جسے کسی فرضی جرم میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ لیکن پولیس کی اس مستعدی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان اپنے ساتھ ہونے والے کسی جرم کی رپورٹ پولیس میں لکھانا چاہے تو پہلے تو پولیس رپورٹ نہیں لکھتی اور اگر لکھ بھی لیتی ہے تو ملزم کے خلاف اتنی ہلکی دفعات لگاتی ہے کہ وہ چند روز میں ہی چھوٹ جاتا ہے۔ اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے معاملے میں ہندوتو وادی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی جلوس نکالا جاتا ہے اور کارروائی کے لیے پولیس پر دباو ڈالا جاتا ہے۔ بعض معاملات کو ہندو مسلم رنگ دے دیا جاتا اور بعض کو ملکی سلامتی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات کی آڑمیں تمام مسلمانوں کو ہدف بنایا جاتا ہے اور ان کے خلاف جانے کیا کیا بہتان طرازی کی جاتی ہے۔ بھلا ہو اس ملک کی عدلیہ کا کہ وہ ابھی تک انتظامیہ کے مانند ہندوتو کے رنگ میں رنگی نہیں جا سکی ہے۔ اب بھی اس کا معاملہ بڑی حد تک صاف شفاف ہے اور بہت سے بے قصوروں کو وہی رہائی دلاتی ہے۔ اگر کسی ادارے پر مسلمانوں کا کچھ بھروسہ بچا ہے تو وہ عدلیہ ہی ہے۔
مولانا کلیم الدین مجاہد، مولانا عبد الرحمن علی خان اور محمد سمیع کے خلاف دہلی پولیس کی اسپیشل ٹاسک فورس کی خفیہ اطلاعات پر 2016 میں بستوپور پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ ان تینوں پر الزام تھا کہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہے۔ دہشت گردی سے مبینہ تعلق کے شبہے میں ان سے پوچھ تاچھ اور تحقیقات کی گئی۔ 2023 میں دہلی کی ایک عدالت نے مولانا عبد الرحمن علی خان عرف مولانا منصور اور محمد سمیع کو یو اے پی اے کے تحت سزا سنا دی۔ ان کو اسی سال جمشید پور لے جایا گیا۔ مولانا منصور کا تعلق اڑیسہ کے کٹک سے، شامی کا بستوپور میں دھتکی ڈیہہ سے اور کلیم الدین کا جمشید پور کے آزاد نگر سے ہے۔ جمشید پور کی ضلع جج وملیش کمار سہائے نے یکم مارچ کو شواہد کے فقدان میں تینوں کو الزامات سے باعزت بری کر دیا۔ رہائی ملنے پر ان کا ردعمل تھا کہ عدلیہ پر ان کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ لیکن اس اعتمادکی بحالی سے قبل انھوں نے اپنی زندگی کے جو قیمتی سال سلاخوں کے پیچھے گزارے ان کو کون واپس دلائے گا۔ ان کے دامن پر دہشت گردی کا جو داغ لگا کیا وہ کبھی صاف ہو پائے گا۔ پوری دنیا میں ان کی جو بدنامی ہوئی اور انھیں جو ذہنی اذیت چھیلنی پڑی اس کا ازالہ کون کرے گا۔
اب ایک دوسرے کیس پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ معاملہ راج گڑھ ضلع مدھیہ پردیش کے سابق میونسپل کونسلر 55 سال شفیق انصاری کا ہے۔ فروری 2021 میں ایک مقامی خاتون نے ان پر الزام لگایا کہ انھوں نے اس کو کسی بہانے اپنے گھر بلایا اور اس کی آبرو ریزی کی۔ مارچ میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی اور انھیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ مارچ 2022 میں سارنگ پور میونسپلٹی نے چار ہزار مربع فٹ میں تعمیر ان کے عالیشان مکان کو بلڈوزر سے منہدم کر دیا۔ لیکن رواں سال کے 14 فروری کو راج گڑھ کے ایڈیشنل سیشن جج نے انھیں بے قصور قرار دیتے ہوئے باعزت بری کر دیا۔ دراصل کچھ دنوں قبل خاتون کے کئی پڑوسیوں نے الزام لگایا تھا کہ اس نے سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کرکے مکان تعمیر کیا ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے مکان سے منشیات کا دھندہ کیا جاتا ہے۔ شفیق انصاری نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اس کی شکایت پولیس میں کی اور میونسپلٹی نے اس کے غیر قانونی مکان کو منہدم کر دیا۔ اس خاتون نے اس کا انتقام لینے کے لیے ان پر آبروریزی کا الزام لگایا اور چونکہ الزام ایک باعزت مسلمان پر لگایا گیا اس لیے پولیس نے ان کے خلاف کارروائی کی اور انھیں جیل بھیج دیا۔ لیکن سچائی بہرحال سامنے آ ہی جاتی ہے۔ مذکورہ تینوں مسلمانوں کی طرح ان کے معاملے میں بھی سچائی سامنے آئی اور عدالت نے انھیں رہا کر دیا۔ اس دوران ان کے بیٹے احسن کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ ان کے مکان کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کیا گیا۔ لیکن ہر ایسے معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ شفیق انصاری کا دعویٰ ہے کہ ان کا مکان غیر قانونی نہیں تھا۔ ان کے پاس تمام دستاویزات ہیں لیکن میونسپل اہل کاروں نے ان کی ایک بھی نہیں سنی۔ انہدام سے قبل ان کے اہل خانہ کو گھر کا ایک بھی سامان نہیں نکالنے دیا اور یہاں تک کہ انہدام کے بعد ملبہ بھی اٹھا لے جایا گیا۔ ادھر پولیس نے احسن کے ساتھ ان کے بھائی محمد اقبال کے خلاف بھی کارروائی کی۔ بہرحال اب شفیق انصاری ہرجانہ طلب کرنے کے لیے مقدمہ قائم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
ایک اور معاملے پر نظر ڈال لیتے ہیں۔ یہ مہاراشٹر کے سندھ درگ ضلع کے ملوان علاقے کا ہے۔ دبئی میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے چیمپئنس ٹرافی کرکٹ میچ کے دوران وشو ہندو پریشد کے ایک مقامی کارکن نے الزام لگایا کہ فلاں مکان کے ایک پندرہ سالہ لڑکے نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا ہے۔ اگلے روز ہندو پریشد نے لڑکے اور اس کے اہل خانہ کے خلاف بائیک ریلی نکالی۔ پولیس نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے لڑکے کو حراست میں لیا اور اس کے والدین کو گرفتار کر لیا۔ اس کے والد کباڑ کا کام کرتے ہیں۔ ان کے مکان اور ٹین شیڈ کی دکان کو اگلے روز منہدم کر دیا گیا۔ لڑکے کے چچا کی دکان بھی منہدم کر دی گئی۔ الزام وہی سرکاری زمین پر غیر قانونی تعمیر کا لگایا گیا۔ حالانکہ چچا کی دکان کرائے کی تھی جس کا مالک ایک ہندو ہے۔ لڑکے کے والدین کو عدالت سے ضمانت مل گئی اور لڑکے کو اصلاح گھر میں بھیج دیا گیا۔ ابھی اس کی جانچ ہو رہی ہے کہ لڑکے نے پاکستان کے حق میں نعرہ لگایا تھا یا نہیں۔ ہم پاکستان حامی نعرہ لگانے کے حق میں نہیں ہیں لیکن الزام کی صداقت بھی ثابت ہونی چاہیے۔ میونسپل اہل کاروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے بالکل صحیح کام کیا ہے۔ دراصل اس معاملے میں مسلم دشمنی میں نام پیدا کرنے والے ممبر اسمبلی نلیش رانے بھی کود پڑے تھے۔ اب ان کا عزم ہے کہ وہ اس خاندان کو شہر بدر کرائیں گے۔ لیکن اگر جانچ میں پاکستان حامی نعرہ لگانے کا الزام ثابت نہیں ہوا تو کیا ہوگا۔ کیا شیو سینا (شنڈے) اور وشو ہندو پریشد کے کارکنوں، میونسپل اہل کاروں اور پولیس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ جی نہیں نہ پہلے ایسی کوئی کارروائی ہوئی ہے اور نہ آئندہ ہوگی۔ بلکہ اسی طرح مسلمانوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی رہے گی اور یہ دعویٰ کیا جاتا رہے گا کہ قانون اپنا کام کر رہا ہے۔ یہ کیسا قانون ہے جو یکطرفہ کارروائی کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس قسم کا بے بنیاد الزام لگانے والوں اور رپورٹ درج کرنے والے پولیس اہل کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ جب تک ایسے لوگوں کو سزا نہیں ملے گی یہ سلسلہ جاری رہے گا اور مسلمان ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور ہوتے رہیں گے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like