Home نقدوتبصرہ مظفر حنفی شخصیت اور فکر وفن

مظفر حنفی شخصیت اور فکر وفن

by قندیل


مصنف: جاوید اختر
سن اشاعت:2019
قیمت:300
پبلشرز: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس,نئی دہلی. 6
مبصر:خان محمد رضوان
9810862283
[email protected]

”مظفر حنفی:شخصیت اور فکر وفن“ نوجوان اسکالر جاوید اختر کی دوسری باضابطہ تحقیقی کتاب ہے۔اس کتاب کی اہمیت اور معنویت کئی اعتبارسے دوچند ہے؛کیوں کہ پروفیسر مظفرحنفی نہ صرف اردو زبان و ادب کے ایک مخلص اور مشفق استاذہیں بلکہ وہ ایک اچھے اور زودگو شاعر ہونے کے ساتھ کئی اہم کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔وہ قدیم روا یتوں کے پاسدار اور جدید انداز فکر کے نمایاں شاعر ہیں،انھیں یہ اعتبار مسلسل محنت،جانفشانی،یکسوئی اور مستقل جہد وعمل کے ذریعے حاصل ہوسکا ہے۔ ان کی زندگی اورتخلیقی کارنامے نئی نسل کے لیے مشعل راہ اور قابل تقلید ہیں۔
پروفیسر کوثر مظہری اس کتاب کے فلیپ پر لکھتے ہیں:
”مظفر حنفی اردو شعر وادب کا ایک نمایاں اور اہم نام ہے۔وہ ایک معلمِ ادب کے ساتھ ساتھ خود بھی ادیب وشاعر ہیں۔جدید شعری افق پر ان کا نام دور سے نمایاں نظر آتاہے۔جدیدیت کے عہد میں بھی انھوں نے اپنی تخلیقات کو غیر ضروری فیشن پرستی سے بچائے رکھا۔انھوں نے بھی جدید لب ولہجہ کی پیروی کی؛ لیکن اپنی شعری روایت کے مستحکم نظام سے انحراف نہیں کیااور یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار میں تیزی اور تندی کے ساتھ ساتھ روایت کی پاسداری بھی دکھائی دیتی ہے“۔
کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ انسان کی محنت اور اس کی انتھک کوشش ہی اسے منزل مقصود تک پہنچاسکتی ہے اور کسی حد تک یہ احساس درست بھی ہے۔مظفر حنفی نے اپنی پوری عمر ادب لکھنے اور ادب سکھانے میں صرف کی ہے۔یہ ایک ایسا جذبہ ہے، جو جنون کی حد تک بڑھا ہوا ہے، انھوں نے شاعری،تنقید،تحقیق،صحافت،افسانہ،ادب ِاطفال،سفرنامے اور ترجمہ جیسی اصناف کے علاوہ ترتیب وتدوین کے میدان میں بھی قابل قدرکام کیا ہے۔دراصل مظفر حنفی جیسے بزرگ ادیب وشعراکی ادبی خدمات اور ان کی زندگی کے کارناموں کا اعتراف کرنا میدان ادب کے نووارد طلبہ اور اسکالرس کوادب کی مستحکم روایت اور روشنی سے روبروکراناہے۔
اس تعلق سے ان کا ایک شعر ہے کہ:
جہاں کہیں روشنی ملی بانٹ لی مظفر
ہمارے دل میں کشاکشِ کفر و دیں نہیں تھی
جاوید اختر نے اس کتاب کو لکھ کر ایک مستحن کام انجام دیاہے اور بے حد خوبصورتی سے یہ کردکھایا ہے کہ اپنے بزرگوں کی خدمات کو کس طرح اجاگرکیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عطاعابدی اس تعلق سے لکھتے ہیں:
”جاوید اختر نے اپنی نگاہِ حسن بیں سے کام لے کر فن شناسی کے جذبے کے تحت مظفر حنفی کی خدمات کا نہ صرف واضح طور پر اعتراف کیاہے؛ بلکہ اپنے اعتراف کو منطقی استدلال کا پیکر عطا کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔یعنی یہ کتاب مظفر حنفی کی شعری ونثری خدمات کا آئینہ کہی جاسکتی ہے“۔
جاوید اختر نئی نسل کے فعال اور متحرک اسکالر ہیں۔انھوں نے منٹو پر تحقیقی مقالہ ڈاکٹر ندیم احمد کی نگرانی میں مکمل کیا ہے۔اس سیپیشتر ان کی ایک قابل قدر کتاب ”تحقیقی وتنقیدی مضامین“ کے عنوان سے منظر عام پر آچکی ہے۔جاوید اختر کا شمار اپنی روایت کے پروردہ اور پاس دار نوجوانوں میں ہوتا ہے۔وہ اپنے بڑوں کا اسی طور احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہیں جیسا رکھنا چاہیے،وہ منکسر المزاج،ہمدرد اور مخلص انسان ہیں، وہ ذہین اس معنی میں بھی ہیں کہ اپنے متعلق افراد کی ذہنی اور فطری عادات و اطوار سے واقف ہوکر معاملات کرتے ہیں،یوں تو وہ ہر خاص وعام سے رشتہ استوار رکھتے ہیں، مگر رشتوں کی سماجی اور معاشرتی نوعیتوں کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں،جو عموما لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔
یہ کتاب سات ابواب پر منقسم ہے۔ابواب اس طرح ہیں:باب اول:”شخصیت اور فکر وفن“،باب دوم:”شعری تخلیقات“،باب سوم:”نثری تخلیقات“، باب چہارم:”تحقیق و تنقید“،باب پنجم: ”شاد عارفی پر کتابیں“،باب ششم:”مدیرانہ صلاحیت“،باب:ہفتم:”ترتیب وتدوین و تدوین وتراجم“۔
اگر مجموعی طور پر اس کتاب کا جائزہ پیش کیا جائے، تو کہا جاسکتاہے یہ کتاب یقینا مظفرشناسی میں ایک خوبصورت پیش رفت ہے، اس کا بابِ اول اس معنی میں اہم ہے کہ مصنف نے توقیت نامہ کے علاوہ کتابوں کی موضوعی فہرست سازی بھی کی ہے۔بابِ دوم اس طور پر نہ صرف اہم؛ بلکہ وقیع ہے کہ اس میں مظفر حنفی کی شاعری کا موازنہ ہم عصروں سے کرنے کے ساتھ ادبا اور ناقدین کی آرا بھی پیش کی ہیں اور یہی طریقہ نظم نگاری کے باب میں بھی اختیار کیاہے۔ساتھ ہی طنزیہ ومزاحیہ شاعری اورطنزیہ غزلوں کا موزنہ بھی شادعارفی، غالب، میر، ظفر، آتش اور آرزو جیسے شعرا کے اشعار کے حوالے سے پیش کیا ہے، اس کے علاوہ بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کے حوالے سے بھی مضمون شامل کتاب ہے،جس کی وجہ سے یہ باب دیگر ابواب سے اہم معلوم ہوتا ہے۔ بابِ سوم میں مظفر حنفی کے افسانے، بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں، مکتوب نگاری اور سفرنامہ(چل چنبیلی باغ میں) کو موضوع بحث بنایاگیا ہے۔باب چہارم میں ان کی تحقیق وتنقید، تبصرے اور پیش لفظ کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔باب پنجم میں شاد عارفی پر مظفر حنفی کی لکھی چھ کتابیں، شاد عارفی کی عشقیہ غزلیں، طنزیہ غزلیں، منظریہ نظمیں، عشقیہ نظمیں، طنزیہ نظمیں اور ان کی خطوط نگاری پر جامع گفتگو کی گئی ہے۔باب ششم میں مظفر حنفی کی مدیرانہ صلاحیت، وضاحتی کتابیات اورکتاب شماری پر مختصراً گفتگو کی گئی ہے۔باب ہفتم جو اس کتاب کا آخری باب ہے، مظفر حنفی کی ترتیب، تدوین اور تراجم کے حوالے سے ہے۔
الغرض یہ کتاب اپنے موضوع پر جامعیت کی حامل ہے۔جاویداختر نے اس کام کو بیحد سنجیدگی،محنت اور لگن سے انجام دیاہے،یقینا یہ تحقیقی نوعیت کا کام ہے۔یہ کتاب مظفر حنفی پر آئندہ تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ماخذ کی حیثیت رکھے گی۔ میں اس کتاب کے لیے مصنف کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

You may also like

Leave a Comment