مسعود جاوید
دارالعلوم کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے مالی وسائل کی فراہمی (چندہ) کے لئے منتظمین کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تھی کہ جہاں تک ہو سکے کسی ریاست، سلطنت، حکومت، جاگیردار، نواب، اور امیر و کبیر سے اخراجات پوری کرنے کی ضمانت نہ لی جائے۔ اس سے اعتماد علی اللہ میں کمی آئےگی۔ اخراجات کی فراہمی کے لئے مسلمانوں کے تعاون پر اکتفا کیا جائے بالخصوص علاقے کے عام لوگوں سے چندے ؛ روپے پیسے اور اجناس کی شکل میں تعاون لیا جائے اس کے کئی فوائد ہیں ان میں سب سے اہم دو فائدے یہ ہیں
١- وسائل کی کمی وجہ سے منتظمین کو عوام اور بالخصوص علاقے کے معاونین کے سامنے جوابدہی کا احساس رہے گا۔
٢- جبکہ ریاست،حکومت یا امیر و کبیر کی طرف سے اخراجات اٹھانے کی صورت میں مدرسے کے نصاب اور انتظامی امور میں بجا و بے جا مداخلت اور آزادانہ کام کرنے کی بجائے ان کے لحاظ میں یا رعب سے متاثر ہو کر لائحہ عمل طے کرنے کے امکانات ہیں اور سب سے اہم یہ کہ توکل علی اللہ میں کمی ہو جائے گی۔ امرا کی خوشنودی حاصل کرنا مطمح نظر ہوگا۔
انہی سنہرے اصول کا نتیجہ تھا کہ ہمارے اسلاف قلندر صفت اور قناعت سے بھرپور ہوتے تھے۔ جابر حکمران یا بگڑے نوابوں اور جاگیر داروں کے سامنے بھی کلمۂ حق بولنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ ہمارے مدارس مساجد اور ملی تنظیموں کے دفاتر کی عمارتیں مادی طور پر بہت عالیشان نہیں ہوا کرتی تھیں مگر ان عمارتوں کی روحانی شان و شوکت ایسی ہوتی تھی کہ بڑے بڑے عہدے والے بھی ان کچی عمارتوں میں بیٹھے بوریہ نشینوں سے ملنے کے لئے خود آتے تھے نا کہ اس کے برعکس۔
اس کے بعد دن بہ دن دنیا قریب سے قریب تر ہوتی گئی،بیرون ملک سفر کرنا آسان ہوتا گیا، پٹرو ڈالر کا دور آیا،ملازمت اور تجارت کے لئے ملک سے باہر مقیم دین،ملک اور ملت کے لئے فکر مند خیر خواہان این آر آئیز کا دور آیا،اندرون ملک بھی مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی ـ مختصر یہ کہ مدارس، مساجد اور ملی تنظیموں کے لئے بڑی بڑی رقومات کے راستے کھلے،جس کی وجہ سے کثرت سے مساجد اور مدارس پورے ملک میں تعمیر ہوئے اور ہو رہے ہیں،مگر افسوس رقومات کی ریل پیل نے ان کے منتظمین کے اندر سے وہ قلندرانہ صفت ختم کر دی اور قائدین کے ہاتھ کہیں نہ کہیں دبے ہیں،مال و دولت کا خبیث اور مضر پہلو مفید پہلو پر ایسا حاوی ہوا کہ حکومت وقت یا اصحاب اثر ورسوخ کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرات سلب کر لی ۔ بعض قائدین،علما اور غیر علما نے اپنے اوپر مصلحت کی دبیز چادر ڈال کر ” بدون خوف لومة لائم” کو جزدان میں لپیٹ کر طاق پر رکھ دیا ہے۔
کاش روپے پیسے کی اتنی ریل پیل نہ ہوتی، کاش ہماری مسجدیں قیمتی پتھروں سے نہ بنائی جاتیں،کاش ہمارے مدارس اور ملی دفاتر کی اتنی عالیشان عمارتیں نہ بنائی جاتیں
کاش ہمارے قائدین تعمیراتی ترقی کے لئے حساب کتاب، آڈٹ ، فارن ایکسچینج ریگولیشن ، ٹی اے ڈی کے جھمیلوں میں نہ الجھتے اور نہ کسی محکمے سے خائف رہتے۔کاش ہمارے قائدین اسلاف کے نقش قدم پر چلتے اور اقتدار کےگلیاروں میں اپنی شناخت بنانے اور قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے اثر ورسوخ والوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے اللہ ربّ العزت پر مکمل اعتماد اور افراد سازی پر اپنی توانائی صرف کرتے اور اس پر آشوب وقت میں مختلف تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر آتیں اور مشترکہ طور پر قوم کی رہنمائی کرتیں!