شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
اب کسی بات پر حیرت کم ہی ہوتی ہے۔ ہاں کچھ افسوس ہوتا ہے اور افسوس سے بھی زیادہ غصہ آتا ہے۔شاید اسی لیے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ہمراہ امیر شریعت حضرت مولانا ولی رحمانی اور دیگر علماےکرام کی ہنستی مسکراتی تصویر دیکھ کر حیرت نہیں ہوئی ۔ تھوڑا سا افسوس ضرور ہوا‘ پر غصّہ جیسے کہ آنا چاہئے تھا‘ بالکل نہیں آیا۔ شاید اس لیے کہ غصّہ ’اپنوں ‘ پر آتا ہے‘ پر یہ محترم اور معزز ہستیاں اب ’اپنی‘ رہی کہاں ہیں!
حضرت امیر شریعت کا وہ’ آڈیو بیان‘ جس کا ذکر اِ ن دنوں سوشل میڈیا پر خوب ہے میں نے بھی سُنا ہے۔ندوہ کے ایک فاضِل نے این آر سی اور کالے شہریت قانون کے خلاف حکمرانوں پر ’پریشر‘ بنانے کی درخواست کی تھی‘ حضرت کا جواب تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم پریشر کس کو کہتے ہیں‘ انہوں نے ساتھ ہی یہ ’انکشاف‘ بھی کیا تھا کہ ’ہم اپنے اعتبار سے کوشش کررہے ہیں‘۔
حضرت امیر شریعت کی بات پر اعتبار ہے ‘ یقیناً ’اپنے اعتبار سے کوشش ‘ کی ہوگی لیکن ’یہ کوشش‘ نتیش کمار تک ہی محدود ہوگی اس کا اندازہ قطعی نہیں تھا۔ اس کا اندازہ اس لیے بھی نہیں تھا کہ ہروہ سمجھ دار ہندوستانی شہری‘ جو کالے شہریت قانون اور این آر سی کا مخالف ہو وہ بہار کے وزیر اعلیٰ‘ کےقول وفعل پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔ یہ وہی نتیش کمار ہیں جنہوں نے لالو پرساد یادو کو ’گرا‘ کر بہار پر ’بی جے پی راج‘ کو ممکن بنایا ہے۔ یہ وہی نتیش کمار ہیں جن سے ان کے دو لیڈر پرشانت کشور اور پون کمار ورما یہ کہہ کہہ کر تھک گئے کہ کالے شہریت قانون اور این آر سی کی حمایت نہیں کی جانی چاہئے‘۔ پر وہ مودی بھکتی میں ایسے چو ر تھے‘ بلکہ چور ہیں کہ لوک سبھا سے لے کر راجیہ سبھا تک کالے شہریت قانون کو منظور کروانے کیلئے سب کی درخواستوں پر لات ماردی۔ نتیش کمار نے تو بار بار سیکولر اور جمہوری قدروں کو روندا ہے تو بھلا جس بل سے مسلم اقلیت ایک نہیں کئی بار ڈسی گئی ہو اس بل میں کیسے پھر انگلی ڈالی جاسکتی ہے!
پر حضرت امیر شریعت کو اس بِل میں پھر سے انگلی ڈالنے پر کوئی قباحت نہیں محسوس ہوئی۔ تصویر میں ایک پرانے جرنلسٹ اور آج کے بہار قانون ساز کونسل کے رکن خالد انور بھی نظر آرہے ہیں۔ یہ وہی خالد انور ہیں جنہیں نتیش کمار نے جب یہ حکم‘ دیا کہ شہریت ترمیمی بل کی مخالفت نہ کی جائے‘ اس کے خلاف ایک لفظ نہ بولا جائے تو انہوں نے اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا۔ خیر ان سے اس کے علاوہ اور کچھ امید بھی نہیں تھی۔ وہ حضرت امیر شریعت کے چیلے ہیں اس لیے اسی طرح سے نتیش کمار کو چاہتے ہیں جیسے کہ خود حضرت!
ایک بڑا اہم سوال ہے کہ آج نتیش کمار کو ’رام ولاس پاسوان کو اور نوین پٹنائک وغیرہ وغیرہ کو کیوں این آر سی کی ’مخالفت‘ اور کالے شہریت قانون میں ’ترمیمات‘ کی فکر دامن گیر ہوئی ہے؟ اس لیے کہ انہوں نے جوش اور غصے میں بھرے ہوئے ہندوستانیوں کو بلا لحاظ مذہب وملت کالے قانون اور این آر سی کے خلاف سڑکوں پر جمع دیکھ لیا ہے۔ ہندوستان آج ایک میدان جنگ میں بدل گیا ہے۔
یہ موقع برست لیڈر ہیں‘ انہیں اپنی کرسیاں ہلتی محسوس ہورہی ہیں۔ رہیں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی تو وہ عرصہ سے مخالفت کررہی ہیں۔ کیرالا کی حکومت نے بہت پہلے کہہ دیا ہے کہ وہ ریاست میں ان ’دراڑ‘ ڈالنے والی چیزوں کو کسی صورت میں لاگو نہیں ہونے دے گی۔مہاراشٹر کے شیوسینک وزیر اعلیٰ ادھوٹھاکرے بھی میدان میں کود پڑ ے ہیں۔ انہوں نے باقاعدہ مسلمانوں کو دلاسہ دیا ہے کہ انہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی ) کے سربراہ شردپوار نے پوری قوت کے ساتھ کالے شہریت قانون کی مخالفت کی ہے۔ یوگیندر یادو بولے ہیں‘ مورخ رام چندر گوہا نےپولیس کے ذریعے زمین پر گھسیٹے جانے کے باوجود اس کالہ قانون کے خلاف احتجاج کیاہے۔ مصنفہ اور اکٹی وسٹ اروندھتی رائے نے لوگوں سے اپیل کی ہے وہ اس کالے قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں‘ صر ف اپیل ہی نہیں کی وہ خود میدان میں اتر پڑی ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی شہریت یافتہ چمپئن نوم چومسکی نے بھی احتجاجی آواز بلند کی ہے۔ سارا ملک او ر ساری دنیا کالے شہریت قانون کے خلاف آواز یں اٹھار ہی ہے‘ اور یہ آوازیں اسقدر’تیز‘ ’پراثر‘ اور ’بامعنی‘ ہیں کہ مودی سرکار پر بوکھلاہٹ طاری ہے اور کالے قانون کے آر کی ٹیکٹ امیت شاہ کی حالت ایسی ہے کہ نہ نگلتے بن رہا ہے نہ اگلتے!
ہندوستان میں جو مظاہرہ اور احتجاج جاری ہے اس میں ہر گذرتے دن کے ساتھ شد ت آتی جارہی ہے۔ یوپی میں 13 ہندوستانی ’شہید‘ ہوئے ہیں۔
مینگلور میں ’شہید ‘ ہونے والے علیحدہ ہیں۔ ان ’شہیدوں‘ کا خون یقیناً رائیگاں نہیں جائے گا۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ ’بدلہ‘ لینے کی بات کررہے ہیں‘ ان سے یہی امید ہے۔یوگی نے اعلان کیا ہے کہ مظاہرین کی پراپرٹی ضبط کرلی جائے گی‘ ان کے خلاف سخت ترین کارروائیاں کی جائیں گی۔ ‘ شری یوگی جی ! ہنستے کھیلتے جمہوری انداز میں احتجاج اور مظاہرہ کرتے افراد پر گولیاں چلوانے سے بھی زیادہ سخت ’بدلہ‘کیا ہوسکتا ہے!
یوپی پولیس دعویٰ کررہی ہے کہ ’ہم نے گولیاں نہیں چلائیں‘۔ ڈی جی کہہ رہے ہیں ’گولیاں آمنے سامنے چلیں‘۔ یہ کون لوگ تھے ’آمنے سامنے‘؟پولیس اور ہندستانی ہی تو تھے ’آمنے سامنے‘ ۔خیز‘ جھوٹ بول لیں‘ الزامات لگالیں‘ جیلیں بھردیں‘ آپ کا ہی راج ہے اور آپ نے ہمیشہ یہی کیا ہے‘’ بدلہ‘ لیا ہے۔ پر اب ’بدلہ‘ کی دھمکی اور پولیس کی گولیوں سے یہ احتجاج رکنے والا نہیں ہے‘ یہ جاری رہے گا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ‘ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ‘ دارالعلوم دیوبند اور نہ جانے کتنی درس گاہوں کے نوجوانوں پر لاٹھیاں برسائی گئی ہیں‘ مقدمات قائم کیے گئے اور توڑ پھوڑ کی گئی ہے‘ پر کیا کہیں یہ نظر آر ہا ہے کہ وہ آپ کی گولیوں اور مقدموں سے ڈر گئے ہیں! کہیں نہیں۔ اس کی وجہ ہے ‘ یہ کہ وہ اس ملک کو ’ہندو‘ ’مسلمان‘ میں تقسیم کرنا نہیں چاہتے۔
سارا ملک ‘ کیا ہندو‘ مسلمان‘ سکھ‘ عیسائی‘ دلت‘ بودھ وغیرہ‘ این آر سی اور کالے قانون کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
اٹھنا ضروری بھی ہے کیونکہ قانون ہے ہی اس قدر مہلک اور خطرناک کہ اگر اسے واپس نہ لیا گیا تو ہندوستان کا دم گھٹ جائے گا۔
بالخصوص اس وقت جب کالا شہریت قانون (سی اے اے ) اور این آر سی کو ایک دوسرے سے نتھی کرکے اس کا استعمال ملک کے شہریوں پر کیا جائے گا۔
اب کوشش یہ ہے کہ ہندوستانی شہریوں کے مظاہرے اور احتجاج کو یہ کہہ کر ختم کرایا جائے کہ’’ کہاں‘ کون کہہ رہا ہے ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کو ایک دوسرے سے جوڑا جائے گا!‘‘
یہ حکومت کا ایک بڑا جھوٹ ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اس تعلق سے ’بیانات‘ دے چکے ہیں ۔ مثلاً ان کا یہ بیان دیکھ لیں جو ٹو ئٹر پر آچکا ہے:’’ پہلے ہم شہریت ترمیمی بل لائیں گے اور ہندوؤں‘بودھوں‘ سکھوں‘ جینیوں اور عیسائی مہاجروں کو شہریت دیں گے کہ یہ پڑوسی ممالک کی مذہبی اقلیتیں ہیں‘ پھر ہم این آر سی پر عمل درآمد کرکے اپنے ملک میں موجود گھس پیٹھیوں کو نکال باہر کریں گے‘‘۔ امیت شاہ ان گھس پیٹھیوں کو ’دیمک‘ بھی کہہ چکے ہیں! اس سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کو ایک دوسرے سے ’نتھی‘ کرکے مسلمانوں کو نکال باہر کیا جائے گا۔ بی جے پی یہ سب مغربی بنگال اور آسام سمیت پورے ناتھ ایسٹ پر قبضہ جمانے کیلئے کررہی ہے۔
وہ ’غیر ملکی ہندو‘ جو آسام کے این آر سی کے بعد سامنے آئے ہیں۔ کوئی ۱۶؍ لاکھ ۔ انہیں ’شہریت‘ دے کر اپنا ’ووٹ بینک ‘ بنانا ہے۔ اور یہ صرف مسلمانوں کے حقوق پر نہیں ملک کے تمام شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے دریافت کیا ہے کہ ان رفیوجیو ں کو کہاں بسائیں گے‘ کہاں اور کیسے روزگار دیں وغیرہ؟
یہ وہ سوال ہے جو سارا ملک آج پوچھ رہا ہے سوائے مسلم قیادت کے۔
حضرت امیر شریعت کانتیش کمار کے پاس جانا ثابت کرتا ہے کہ ان میں نہ رام چندر گوہاجیسی جراٗت ہے اور نہ ہی اروندھتی رائے جیسی۔ اور صرف حضرت امیر شریعت کیوں‘ ساری مسلم تنظیمیں اور جماعتیں چاہے وہ جمعیتہ علماء ہند کے دونوں دھڑےہوں‘ جماعت اسلامی ہو یا مسلم پرسنل لاء بورڈ آج ہاتھ پر یاتو ہا تھ دھرے ہیں یا پھر ان کے ذریعے ’حکمرانوں‘ کے ٹھکانوں کے چکر ہورہے ہیں۔ ابھی خبر تھی کہ جماعت اسلامی ہند نے سی اے اے اور این آر سی سے ’نمٹنے‘ کیلئے مسلم تنظیموں اور جماعتوں کا ایک وفاق بنایا ہے۔ ان کیلئے ایک نیک مشورہ ہے‘ کسی وفاق کی ضرورت نہیں ہے بس نکلیں اور’قائد‘ کی طرح نہیں عام ہندوستانی کی طرح یہ جو مظاہرے ہورہے ہیں ان میں شامل ہوجائیں۔ اگر یہ نہیں کرسکتے تو خاموش بیٹھ رہیں!!!