علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ جواہر لال نہرو نے ہندو پرسنل لا میں اصلاحات کے قانون بناتے وقت یہ کہا تھا کہ مسلمانوں میں اصلاح کی آواز خود ان کے اندر سے آنی چاہیے ۔ لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ نہرو نے مسلم پرسنل لا میں اصلاحات کی آواز مسلمانوں کے درمیان سے اٹھے، اس کے لیے بھی بہت سی کوششیں کی تھیں۔ ڈیوورس اینڈ ڈیموکریسی (طلاق اور جمہوریت) کے عنوان سے شائع کتاب کی مصنفہ سومیا سکسینا نے اپنے ۲۰۱۸ میں شائع ایک تحقیقی مضمون میں بہت تفصیل سے کچھ وضاحتیں پیش کی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے جمہوری سفر کے دوران جب فیملی قوانین میں اصلاح کی آوازیں سڑکوں پر بلند کی گئیں تو عدلیہ نے تو ان کی آواز کو سنا، لیکن پارلیمنٹ نے اصلاح مخالف عناصر کی حمایت کی۔ مثلا طاہرہ بی بہ نام علی حسین مقدمے کے فیصلے (۱۹۷۹) اور فضلن بی بہ نام قادر ولی مقدمے کے فیصلے (۱۹۸۰) میں عدلیہ نے اصلاح پسندوں کے حق میں فیصلہ سنایا۔ اس طرح عدلیہ اور مقننہ کے رویوں کو دیکھا جائے تو جنسی انصاف کی جدو جہد کے لئے حکومت کے دو مختلف شعبوں نے مختلف رویے اختیار کیے ۔
سنہ ۱۸۳۴ میں لارڈ میکالے نے سب سے پہلے ایسے قوانین کو کوڈیفائی کروایا تھا۔ سنہ ۱۹۵۵ میں پہلا لا کمیشن مقررکیاگیا جس کی میعاد تین سال ہوا کرتی تھی۔ ایک کمیشن کئی رپورٹیں دیتی تھیں اور ان رپورٹوں کی مدد سے پارلیمنٹ قانون سازی کرتی تھی۔ آئین کے آرٹیکل ۲۵ (مذہب کی آزادی) اور آرٹیکل ۴۴ (یونیفارم سول کوڈ) میں باہمی تضاد ہے۔ اس تضاد کو دور یا کم کرنے کے لیے حکومت نے کمیٹیاں اور کمیشن قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ سنہ ۱۹۶۱ میں اٹھارویں لا کمیشن کی رپورٹ کے بعد نہرو نے اے اے اے فیضی سے مشورہ کیا۔ فیضی نے ۱۹۵۵ میں اپنی کتاب آؤٹ لائنس آف محمڈن لا میں مسلم پرسنل لا میں اصلاحات کی بات کر دی تھی اور دیگر اسلامی ممالک میں ان خطوط پر کئے گئے اصلاحات کی تفصیل بھی پیش کر دی تھی۔ لہذا سنہ ۱۹۶۱ سے ۱۹۶۴ کے درمیان دفتر وزیر اعظم اور فیضی کے درمیان مسلسل مراسلت ہو رہی تھی ۔ فیضی نے مسلم پرسنل لا میں اصلاحات کے لیے ایک کمیشن قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ اسی درمیان مئی ۱۹۶۲ میں ٹوکیو میں اقوام متحدہ نے ایک کانفرنس کیا، بہ عنوان ‘فیملی قوانین میں عورتوں کا درجہ’۔ ان مراسلوں میں طلاق شدہ عورتوں کے مینٹیننس وغیرہ کے سوالات پر تفصیلی باتیں ہوئیں جو ۲۵ برس بعد شاہ بانو کے معاملے میں پھر سے ابھرے۔ ۲ مئی ۱۹۶۲ کو نہرو نے وزیر قانون اشوک سین سے خواہش ظاہر کی کہ مسلم پرسنل لا میں اصلاحات کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جائے اور فیضی سے اس حوالے سے رابطہ رکھا جائے۔ اس کمیٹی کی صدارت خود سین کریں گے اور اقوام متحدہ کی اس کانفرنس کو بھی بہت سنجیدگی سے لیا گیا۔ اس وفد میں وزیر اعظم نہرو، وزیر خزانہ مرارجی ڈیسائی، وزیر ٹرانسپورٹ جگ جیون رام، اعر وزیر داخلہ لال بہادر شاستری بھی تھے۔ اس تعلق سے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی جس میں مدراس ہائی کورٹ کے جج بشیر احمد اور بمبئی کے معروف بیرسٹر پیر بھائی کو شامل کیا گیا۔ نائب صدر جمہوریہ ذاکر حسین کو صدارت کرنی تھی اس کمیٹی کی۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے لوگوں نے مجوزہ اصلاحات اور اس کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی مخالفت کی اور اس کمیٹی کو بننے سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس کو لے کر ۲۰ اگست ۱۹۶۳ کو اٹل بہاری باجپائی نے راجیہ سبھا میں سوال بھی کیا اور مئی ۱۹۶۴ میں نہرو کی موت کے ساتھ اس مسلم لا اصلاحات کے لئی بنی ہوئی یا بنائی جانے والی کمیٹی کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ سنہ ۱۹۷۰ کی دہائی میں ایسی جو بھی اصلاحات کی گئیں ان سے مسلمانوں کو مستثنٰی رکھتے ہوئے ان کا تشٹیکرن کیا جاتا رہا۔
حالاں کہ سنہ ۱۹۶۴ میں چیف جسٹس آف انڈیا رہ چکے پی بی گجیندر گڈ کر نے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں سنہ ۱۹۶۹ کی ایک تقریر میں مسلم پرسنل لا میں اصلاحات پر کافی زور ڈالا تھا، اور رجعت پسندوں کی سخت تنقید کی تھی۔کیرل ہائی کورٹ کے جسٹس خالد نے بھی اصلاح اور کوڈیفیکیشن کی بات کی تھی۔
سنہ ۱۹۷۰ کی دہائی میں مسلم ستیہ شودھک سماج (نائب صدر، حمید دلوی، ۱۹۳۲۔۱۹۷۷) اور انڈین سیکولر سوسائٹی(پونا، ۱۹۷۰) نام کی تنظیمیں ان اصلاحات کی آواز اٹھاتی رہیں۔ مختلف شہروں میں مذاکرے منعقد کئے گئے اور شریفہ طیب جی نے خاص طور سے اصلاح کی حمایت میں تقریریں کیں۔ حسین دلوی (بعد میں کانگریس سے راجیہ سبھا ممبر ہوئے) نے بھی ان اصلاحات کے مانگوں کی تائید کی۔ ان اقدام کے خلاف شدید رد عمل ہوئے۔ جماعت اسلامی نے ان اصلاحات کی مانگ کے خلاف ۱۹۷۲ میں کانفرنس کی۔ ہوا یہ تھا کہ پارلیمنٹ نے سنہ ۱۹۷۲ میں ایڈوپشن کے تعلق سے قانون بنایا۔ اس کا براہ راست تعلق ہندو قوانین سے تھا اور اس مخصوص تعلق سے اسلام میں بھی اصلاح کی مکمل گنجائش ہے (حضرت زید کو نبی کریم نے گود لیا تھا، اور وہ ان کی ہی کسٹڈی میں رہے، اور قرآن کی جس آیت کے حوالے سے ایڈوپشن کو ممنوع کہا جاتا ہے اس میں صرف بایولوجیکل پیٹرنیٹی کو چھپانے کی ممانعت ہے، نہ کہ ایڈوپشن یا کسٹڈی کی)۔ پھر بھی ان تفصیلات پر مجرمانہ پردہ ڈالتے ہوئے احتجاج کیا گیا اور اپریل ۱۹۷۳ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام حیدرآباد میں کیا گیا۔ لیکن بورڈ نے تب سے اب تک ایڈوپشن سے متعلق ان باتوں کی وضاحت نہیں کی ہے۔
اس پوری تحریک کو ایسا پروجیکٹ کیا گیا مانو یہ تحریک عورتوں کو اور اسلام کو بچانے کی تحریک ہو۔ انہیں گمراہ کن طریقوں سے اور خطوط پر مسلمانوں کے اندر سیاسی بیداری لانے کا کام کیا گیا ہے۔ قیصر بیگم نیازی نے اپریل مئی ۱۹۷۳ میں رجعت پسندوں کی حمایت میں ایسے ہی بیانات جاری کئے۔ اور اصلاحی تحریکوں کو غیر اسلامی قرار دینے میں رجعت پسند کامیاب رہے۔ لیکن عورتوں کی ان تحریکوں میں شرکت سے اتنا ضرور ہوا کہ عورتیں آپس میں من مانے ڈھنگ سے دئے جانے والے طلاق، جہیز، اور دیگر پریشانیوں کو شئر کرنے لگیں۔ مثلا کلثوم پاریکھ نے ایک واقعہ ایسا بتایا جس میں ساٹھ برس کے ایک شخص نے اپنی بیوی کو صرف اس لیے طلاق دے دیا کہ وہ ساڑی کیوں نہیں پہنتی ہے اور پھر سولہ برس کی ایک لڑکی سے دوسری شادی کر لی۔ ان سارے ڈیویلپمنٹس سے اتنا ہوا کہ بعد کی دہائیوں میں فیمینزم، سیکولرازم اور سٹزن شپ کے تعلق سے مباحثوں اور مذاکروں میں بصیرت افزا مواد فراہم ہو سکے۔ مہاراشٹر کے وزیر قانون نے بھی سنہ ۱۹۷۶ میں رجعت پسندوں کی بڑھتی طاقت کے خلاف یہ تجویز پیش کی کہ کثیرالازدواز کے خلاف قانون سازی کی جائے۔ فیضی نے بھی یہ بات سنہ ۱۹۷۳ میں زوروں سے دہرائی تھی۔ لیکن تب تک حکومت عمومی طور پر رجعت پسند مسلمانوں کی جانب جھکنے لگی تھی۔ شمالی ہند کے مسلمان مردوں (بشمول جماعت اسلامی اور پرسنل لا بورڈ نے طلاق شدہ عورتوں کی مینٹیننس کے خلاف آٹھ اگست ۱۹۷۳ کو وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملاقات بھی کی تھی۔ایڈوپشن کے سوال پر بھی جو بل تھا اسے ۱۹۷۷ میں ختم کر کے جنتا پارٹی نے ۱۹۷۹ میں پھر سے پیش کیا جسے کانگریس حکومت نے ۱۹۸۰ میں مسلمان رجعت پسندوں کی تشٹیکرن کر دی گئی۔ یہ اور بات ہے (جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا)، سنہ ۱۹۷۹ (طاہرہ بی) اور سنہ ۱۹۸۰ (فضلن بی) میں اور سنہ ۱۹۸۵ (شاہ بانو) سپریم کورٹ نے مینٹیننس ملنے کا فیصلہ سنایا۔
تازہ دہائیوں میں بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن، بیباک کلکٹو، شیعہ پرسنل لا بورڈ، مسلم ویمینس پرسنل لا بورڈ (۲۰۰۵) وغیرہ نے علما کی مونوپولی کو چیلینج تو کیا ہے، لیکن بی جے پی حکومت کی ۲۰۱۹ کی قانونی ترمیم میں مینٹیننس کو نظر انداز ہی کیا گیا ہے، اور اس طرح محض قانون کی معرفت سماجی تبدیلی لانے کا ایجنڈا اب بھی کمزور ہی ہے، اور اصلاحی تحریکیں اب بھی کمزور ہی ہیں۔
مرکزی حکومت کی مسلم اکثریت یونیورسٹیوں نے کیا کیا؟
ان ملک گیر تحریکوں، احتجاجی جلوسوں، مذاکروں اور مباحث میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبات اور استانیوں کا کیا رول تھا؟
رضیہ خان سنہ 1970 ہی کی دہائی میں مسلم یونیورسٹی ملازمت میں عورتوں کی نمائندگی کا سوال اٹھا رہی تھیں۔ سکینہ حسن کمیٹی برائے اسٹیٹس آف وومین کی رکن تھیں۔ لیکن بہ حیثیت مجموعی اس دہائی میں ان لوگوں کا زیادہ سروکار مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجے کے حصول کے لیے جدو جہد سے تھا۔ اور جنسی حقوق و اختیارات کی دیگر ملک گیر تحریکوں سے خود کو تقریبا الگ تھلگ ہی رکھا۔
سنہ 1980 کی دہائی میں جامعہ ملیہ میں انور جمال قدوائی نے بھی کچھ سروکار ان سوالات سے دکھائے تھے۔ سنہ 1976 میں علی گڑھ میں عورتوں کے اسٹیٹس کے موضوع پر ایک سمینار منعقد کروایا۔ سنہ 1977 میں وومینس کالج میگزین نے ان موضوعات پر مضامین شائع کئے۔ لیکن سنہ 1970 کی دہائی میں کیمپس میں اسلامسٹ گروپس کے اثر میں مزید اضافہ ہو گیا۔ سنہ 1990 میں وومینس کالج نے پھر ایسے ایک موضوع پر ایک اور سیمینار منعقد کیا۔
شاہ بانو معاملے میں جہاں ایک طرف ہندو فرقہ پرست طاقتوں کی حوصلہ افزائی کی وہیں دوسری طرف علی گڑھ اور جامعہ ملیہ میں بھی دو نظریاتی دھرے بن گئے۔ اور جامعہ میں SIMI کے اثر میں بہت اضافہ ہونے لگا۔ علی گڑھ میں چند درجن اساتذہ نے مینٹینینس کے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا، لیکن 500 سے زائد اساتذہ (بشمول 63 استانیوں) نے فیصلے کے خلاف اور پارلیمنٹ بل کی حمایت میں دستخط مہم چلائی۔ پروفیسر زویا حسن نے علی گڑھ کے ایک سیمینار میں مارچ 1990 میں اصلاحات اور عورتوں کے حقوق و اختیارات کی بات کی تو کالج کی پرنسپل ذکیہ صدیقی نے ان کے بیانات سے لاتعلقی اور کنارہ کشی کے وضاحتی بیانات جاری کردیے۔
یعنی مرکزی حکومت نے اور حکومت کی فنڈ سے چلنے والی "اقلیتی” یونیورسٹیوں کی مسلم اکثریت نے اصلاح مخالف رجعت پسندوں کی ہی حمایت کی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)