Home تجزیہ مسلم نوجوان! شہید و غازی

مسلم نوجوان! شہید و غازی

by قندیل

 

توصیف القاسمی

 

9/12/19 کو مودی حکومت نےلوک سبھا میں CAB پاس کردیا، اس کے بعد راجیہ سبھا اور پھر صدر جمہوریہ ہند کے دستخط سے یہ بل 2دن کے اندر اندر CAAبن گیا۔ اکثر و بیشتر قانونی ماہرین و کلاء وججز کے مطابق یہ ایکٹ آئین ہند کی روح Sprit of Constutation of India کے منافی ہے۔ جسٹس کاٹجو ، اویسی اور دیگر اعلیٰ قسم کے قانونی ماہرین آئین کی دفعہ 14/15 اور 21کی کھلی خلاف ورزی بتلارہے ہیں۔ اسی دن سے ملک بھر میں احتجاج و مظاہرےکی ایک لہر دوڑ پڑی ہے۔ شمال مشرقی ریاستیں جل اُٹھیں، دہلی تھم گئی ، تمام بڑے شہر ’انقلاب زندہ باد ‘ ،’ CAA‘واپس لو کے نعروں سے دہل اُٹھے، ہر طرف ہاہاکار مچ اُٹھا، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ و طالبات اس آگ میں کود پڑے، دہلی پولیس جو کہ مرکزی حکومت Central Government کے ماتحت ہے، کسی بھی حد اور قانون کا لحاظ کئے بغیر طلبہ و طالبات کے کیمپس میں گھس گئی ، لائبریری میں گھس گئی، جدید ہتھیاروں سے لیس یہ پولیس نہتے طلبہ و طالبات پر ٹوٹ پڑی، عینی شاہدین نے اس کو پولیس کی بربریت اور متاثر طلبہ نے ’موت سے واپسی ‘کانام دیا۔جامعہ کیمپس کے اندرون کی خبریں وائرل ہوتے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھڑک اُٹھی، اس کے شعلے آسمان سے بات کرہی رہے تھے کہ طلبۂ دارالعلوم دیوبند انتظامیہ کے اعلان کے بغیر ہی ٹڈی دل دہلی سہارن پور ہائی وے پر آدھمکے، ملت اسلامیہ کے یہ تین نظری و فکری دھارے جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دارالعلوم دیوبند بھڑک اُٹھے، بلکہ دہک اُٹھے۔ نتیجتاً پوری ملت اسلامیہ سڑکوں پر آگئی، ملک کا سیکولر کردار خطرے میں ہے، اس لیے غیرمسلم اقلیتیں اور سیکولر حضرات بھی CAAکے خلاف یک زبان ہوگئے، انتظام و قانون کے تمام بندھن ٹوٹنے لگے،ہندو نازیوں کے پیدا کردہ اس پورے ’بونڈر ‘میں 26نوجوان شہید ہوگئے، شہید ہونے والوں میں اکثر و بیشتر مسلم نوجوان ہیں،سینکڑوں زخمی ہوگئے، گرفتاریو ں کا سلسلہ ابھی بھی رواں دواں ہے۔ خیال رہے کہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ان ہی کے کلمہ گوحرام خور مخبرین کی بدولت وجود میں آئی ہے۔ یہ سچ ہے کہ پولیس کے تمام جدید ذرائع عوامی انقلاب کے سامنے پھیکے پڑجاتے ہیں، اگر یہ مخبرین نہ ہوں تو پولیس کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ جائیں۔ مگر یاد رکھیے لڑائی لمبی چلے گی، جل کر بھڑک جانا اور بھڑک کر راکھ ہوجانے سے بات نہیں بنے گی، اُمت کو فوراً4محاذوں پر سرگرم ہوجانا ہے، دیگر برادران وطن کی طرح اپنے حقوق کے لیے سر بکف ہوجانا ہے:

1۔ جن خاندانوں کے ’جیالے ‘شہید ہوئے ہیں، ان کو حوصلہ و تسلی دیجیے، ان کی کفالت پر توجہ دیجیے، پوری ملت اسلامیہ پر فرض ہے کہ شہید نوجوانوں کے اہل خانہ کی ہر قسم کی ضرورتوں کا خیال رکھیں تاکہ مزید نوجوان بھی حوصلہ دکھاسکیں اور دیگر اہل خانہ اپنے نوجوانوں کے پیروں کی زنجیر نہ بنیں بلکہ ان کی پیٹھ تھپتھپائیں ہندو نازیوں کے خلاف قربانی دینی ہی پڑے گی۔ ہندو نازیوں اور جنونیوں کی جڑیں بہت مضبوط ہوچکی ہیں۔ سکھ انتہاپسندی (خالصہ )کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے بین الاقوامی ادیب و صحافی خوشونت سنگھ وفات مارچ 2014، نے ہندو نازیوں کے بھارت پر چھاجانے کے خدشے کا بھرپور انداز میں تجزیہ کیا ہے، انھوں نے اپنے طویل تجربات اور تجزیات پر مشتمل مضامین کا نام "The end of India”(بھارت کا خاتمہ) رکھا ہے۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، یہ کتاب ملت اسلامیہ کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتوں اور ڈیموکریٹ حضرات کو بھی دعوت فکر و عمل دیتی ہے اور کچھ کر گزرنے کے لیے مجبور کرتی ہے۔

https://youtu.be/4PnApghDsQ0

 

2۔ گرفتار نوجوانوں کی رہائی کے لیے قانونی کارروائی اوراس کا مکمل خرچ مفت فراہم کریں۔ رہا ہونے والے نوجوان ہمارے ہیرو ہیں، ان کااستقبال غازی کے استقبال کی طرح کیاجائے، ان کو منظم کیاجائے، مسلم نوجوانوں کے اس جو ش کو صحیح سمت میں اگرنہ دھارا گیا تو بکھر کر ٹھنڈا ہوجائے گا۔ الحمداللہ بہت سے افراد اور تنظیمیں تعاون کے لیے میدان میں اتر چکی ہیں، یہ بہت خوش آئند بات ہے۔

3۔ اب یہ سلسلہ تقریباً سال بھر تک چلے گا، تب تک ملت کو اور غیرمسلم حضرات کو سلگائے رکھنا ہے، ان کے خون میں جوش و جذبہ پیدا کرکے رکھنا ہے، ان کو حقیقی صورت حال سے بیدار رکھنا ہے۔22/12/19کو رام لیلا گرائونڈ میں وزیر اعظم نے جو کچھ بھی CAA اور مسلمانوں کے حوالے سے کہاہے، وہ یا تو جھوٹ ہے یا ملک کو گمراہ کررہے ہیں۔ وزیراعظم کی وضاحت و تسلی کے بعد بھی خدشات و سوالات اپنی جگہ برقرار ہیں،اسی قسم کی تسلی وزیرداخلہ امت شاہ نےاپنے انٹرویو میں دی ہے، جبکہ اویسی ، رویش کمار سمیت کئی ماہرین قانون و صحافی کہہ رہے ہیں کہ زبان کچھ ہے اور دستاویزی منصوبہ Policy Documentکچھ اور۔ ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ ’لکھتم کے آگے بکتم نہیں چلتی ‘۔ آنے والے وقت میں وزیراعظم ، وزیر داخلہ کی ’بکتم ‘ہوا ہوجائے گی اور ’لکھتم ‘ انتظام و قانون کو حرکت میں لے آئے گا اور کمزور و ناتواں بھارتی عوام کو ڈٹینشن کیمپ میں لے جائے گا۔ سوالات و خدشات یہ ہیں :

A۔ غیرمسلم پناہ گزینوں کو CAAکے ذریعے شہریت دے دی جائےگی مگر مسلم پناہ گزینوں کا کیا ہوگا،ڈٹینشن کیمپ؟دریا برد؟ یا وطن واپسی؟؟

B۔ ملکی سطح پر ہونے والے این آر سی کا بھی یہی معاملہ ہے، غیرمسلم حضرات کو عدم دستاویزات کے باوجود بھی CAAبچالےجائے گا، جب کہ مسلمان لفظی غلطیوں Spelling Mistacks اور عدم دستاویزات کے بعد کی صورت حال سےپریشان ہیں، خیال ہے کہ 99فیصد لوگوںکے کاغذات نہ تو مکمل ہیں اور نہ ہی اسپیلنگ مسٹیک سے خالی۔ افسران کی لاپرواہی اور دادا گیری کا خمیازہ صرف مسلمانوں ہی کو بھگتنا پڑے گا۔

C۔ ملک کے مختلف حصوں میں قائم ڈٹینشن کیمپ کا کیامطلب ہے؟ غیرمسلم پناہ گزینوں کو تو ـCAAنکال لے گیا، صاف مطلب ہےکہ یہی ڈٹینشن کیمپ مسلمانوں کا مستقبل ہوں گے۔

وزیراعظم، وزیر داخلہ کی اس قسم کی خبروں اور تسلیوں کو عقل و منطق Sense and logicاور قانونی کسوٹیوں پر پرکھ کر تضاد Contradiction جھوٹ Falsheood مکاریوںCattish اندیشوں کو ظاہر کرنا ہے اور جب تک آئین ہند کے پریمبل کے مطابق جائز اور صحیح قانون نہ بن جائے، ہماری پرامن کوشش جاری رہنی چاہیے۔

4۔ ملت اسلامیہ اس بات کودو دو چار کی طرح سمجھ لے کہ جب تک ایک قائد ، ایک پارٹی نہیں ہوگی، ملت اسلامیہ بھیک ہی مانگتی رہے گی، دوسروں کی بیساکھی کے سہارے چلتی رہے گی، دوسروں کے ٹکڑوں پر پلتی رہے گی، یہ خیال بالکل غلط ہے کہ مسلم پارٹی سے ہندو متحد ہوجائے گا، ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہر غیرمسلم ہندو نہیں ہے جو ہندو ہیں وہ متحد ہوچکے ہیں، یہی کٹر ہندو ملک و ملت کے لیے خطرہ ہیں، جو کہ صرف 15فیصد ہیں، بقیہ دلتوں،سکھوں، عیسائیوں، جینیوں ، پارسیوں کی زندگی کا بہترین حصہ یوں چیختے چیختے گزر گیا، We are not Hindu (ہم ہندو نہیں ہیں)۔

یہ آخری محاذ سب سے زیادہ قابل توجہ ہے، یہی وہ محاذ ہے جہاں ملت اور ملت کے قائدین کے شعور و منصوبہ بندی کا امتحان ہے، یہی وہ محاذ ہے، جہاں رجال کار کی سخت ضرورت ہوتی ہے، یہی وہ محاذ ہے جہاں اتحاد و سالمیت کی بقا کے لیے مولانا وحید الدین خان کی زبان میں ’’اپنی رائے ‘‘ کی قربانی دینی پڑتی ہے، یہی وہ محاذ ہے، جہاں اپنی نفی کرکے دوسروں کو ’’زندہ باد ‘‘ کہنا پڑتا ہے اور ہاں یہی وہ محاذ ہے ،جس کو سر کرنے کے عوض میں پوری قوم و ملت سرخ رو ہوجاتی ہے۔ترجمہ: ’’اور کتنی ہی تھوڑی جماعتوں نے زیادہ جماعتوں پر غلبہ پالیا ، اللہ کےحکم سے ‘‘ (البقرہ)’’اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘ (اٰل عمران)

You may also like

Leave a Comment