Home تجزیہ  مسلم حکمرانوں سے غلطی کہاں ہوئی؟-ندیم عبدالقدیر

 مسلم حکمرانوں سے غلطی کہاں ہوئی؟-ندیم عبدالقدیر

by قندیل

(فیچر ایڈیٹر، اردو ٹائمزڈیلی، ممبئی)
اس فرق کو محسوس کیجئے۔ جب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت تھی تب مسلم بادشاہوں نے ہندو مندروں کو زمین ،جائیداد، جاگیر، عطیات اور دولت عطا کی اور آج جب اُن ہی مندروں کے ذمے دار حکومت میں آئے تو وہ مسجدوں کے انہدام پر تُل گئے۔ احسان کا ایسا بدلا کیا آپ نے کہیں دیکھا ہے؟مسلم سلاطین کی روحیں بھی اپنی اپنی قبر میں تڑپ رہی ہوگی کہ ۶۰۰؍سال راج کرنے کے دوران ان سے غلطی کہاں ہوگئی؟کیا ان کا سیکولر ہونا ان کی بڑی غلطی تھی؟ کیا اُن کا ہندو دھرم کی پرورش کرنا اُن کی غلطی تھی؟ یا ۶۰۰؍سال تک انہوں نے سانپ کو دودھ پلایا؟
ایودھیا شہر مسلم دورِ حکومت میں آباد ہوا، ’وِرندھاون‘ شہر مسلم دورِ حکومت میں وجود میں آیا ، ر’ام چرتر مانس‘ مسلم دورِ حکومت میں لکھی گئی ۔ مسلم بادشاہوں نے ہندو کتابوں کا دیگر زبانوں میں ترجمہ کروایا۔ یعنی ہندو دھرم کی تبلیغ و ترویج کی۔ ایک طرف ہندودھرم کو پروان چڑھانے میں مسلم سلاطین نے کلیدی کردار ادا کیا اور دوسری طرف آج جو ہورہا ہے وہ ہم سب دیکھ رہےہیں۔ اس فرق کو محسوس کیجئے! کہ جب مسلمانوں کےہاتھ اقتدار تھا تب مسلمانوںنے دیگر دھرم کےساتھ کیا کِیا اور آج جب دیگر لوگوں کےہاتھ اقتدار آگیا تو وہ مسلمانوںکے ساتھ کیا کررہےہیں؟کس کس کا ذکر کیا جائے اور کسے چھوڑا جائے۔
’جامع مسجد بنارس‘ جو ’گیان واپی مسجد‘ قرار دے دی گئی
آج ملک کا پورا میڈیا جسے ’گیان واپی مسجد‘ کہہ رہا ہے وہ دراصل ’جامع مسجد بنارس‘ ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ اس مسجد کو اورنگ زیب نے نہیں تعمیر کیا تھا بلکہ مسجد اورنگ زیب کے دورِ اقتدار سے بہت پہلے سے موجود ہے۔ ہندوستان کے سب سے بڑی تاریخ داں عرفان حبیب کے مطابق یہ مسجد جونپور کے شرقی بادشاہوں نے تعمیر کروائی تھی ۔اس کا نام بھی جامع مسجد بنارس تھا۔ شرقی خاندان کا دور مغل دور سے پہلے کا ہے۔ عبدالسلام نعمانی اپنی کتاب’تذکرۃ مشائخ بنارس‘  میں’قطب بنارس‘ کہلائے جانے والے ’حضرت مخدوم شاہ طیب بنارس‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اکبر کے دورِ حکومت میں جب مسجد کے امام نے خطبہ میں ’اکبر‘ کا نام لیا تو مخدوم شاہ طیب طیش میں آگئے اور اس کے بعد انہوں نے بنارس کی اس جامع مسجد میں نماز ادا نہیں کی ۔ جامع مسجد بنارس کس نے بنائی تھی اس بارے میں سیدبدیع الدین اپنی کتاب تذکرۃ المتقین میں لکھتےہیں کہ شرقی خاندان نے اودھ کے کئی اہم شہروں میں جامع مسجد تعمیر کروائی تھی اور انہوں نے ہی بنارس میں بھی جامع مسجد تعمیر کروائی ۔ وہ آگے لکھتےہیں کہ اسی مسجد کو آج ’گیان واپی مسجد ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا نام ’جامع مسجد بنارس‘ تھا لیکن مقامی لوگ اسے  پہلے’جامع مسجد گیان بافی ‘ کہتےتھے۔بعد میں سرکاری کاغذات میں اس کا نام’گیان واپی مسجد‘ لکھ دیاگیا۔

 

 

اورنگ زیب کے مندر کو منہدم کرنے کا واقعہ
الہ آباد کے سابق میئر بھشمبر ناتھ نےاورنگ زیب پر بڑی تحقیق کی ہے اور اس تحقیق کو انہوں نے کتاب کی شکل بھی دی۔ ’اورنگ زیب‘ نامی اس کتاب میں بھشمبر ناتھ لکھتےہیں کہ اورنگ زیب اپنے شاہی قافلے کے ساتھ بنگال کیلئے نکلا تھا۔ اس قافلے میں فوجیوں کے ساتھ کئی ہندو راجا بھی تھے۔ راستے میں جب یہ لوگ بنارس پہنچے تو ہندو راجاؤں نے اورنگ زیب سے درخواست کی کہ اس جگہ پر کچھ دن قیام کریں کیونکہ یہ ہم ہندوؤں کا مقدس شہر ہے۔ یہاں پر ہم گنگا کا اشنان بھی کریں گے اور بھگوان کے درشن بھی کرلیں گے۔ اورنگ زیب نے یہ بات مان لی۔یہاں پر پڑاؤ ڈال دیاگیا۔ قافلے کے لوگ درشن اور اشنان میں مصروف ہوگئے ۔ اسی دوران ہندو راجاؤں کی رانیاں بھی گنگا کا اشنان کرنے کیلئے پالکی میں گنگا کنارے پہنچیں۔ اشنان کرنے کے بعد وہ ’وشو ناتھ مندر میں درشن کیلئے گئیں  اور وہاں سے واپس اپنی اپنی پالکی میں لوٹیں لیکن ان میں سے ’کَچھ‘ کی رانی نہیں پہنچی۔ جب کافی دیر ہوگئی تو معاملہ سنگین ہوگیا ۔ رانی کو بہت تلاش کیاگیا لیکن رانی نہیں ملی ۔ ہندوراجااورنگ زیب کے پاس پہنچے اور سارا قصہ سنایا۔ اورنگ زیب یہ سن کر طیش میں آگیا اور اس نے رانی کی  تلاش کا شاہی فرمان جاری کردیا۔ پھر کیاتھا !!!چپے چپے میں رانی کی تلاش شروع ہوئی اور بالآخر مندر کے تہہ خانہ سے رانی کی لاش برآمد ہوئی ۔ رانی کے ساتھ جنسی زیادتی کا بھی پتہ چلا۔ ہندوراجاؤں کو یہ بھی پتہ چلا کہ اس مندر میں یہ گھناؤنا کام لمبے عرصے سے ہوتاآیا ہے ۔ ہندوراجاؤں نے اورنگ زیب سے درخواست کی کہ مندر کے اس حصہ کو منہدم کردیاجائے تاکہ دیگر مندروں  میں اس طرح کی حرکت کرنے والوں کو سبق ملے۔اورنگ زیب نے ہندو راجاؤں کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے مندر کو منہدم کرنے کا حکم دے دیالیکن اورنگ زیب نے کسی مسجد کی تعمیر کا حکم نہیں دیا۔
مسجد کے باہر ’بیل‘ کا مجسمہ کب تعمیر ہوا ۔ جامع مسجد بنارس کے سامنے کی طرف ایک بیل کامجسمہ ہے جس کا منہ مسجد کی طرف ہے۔ عام طو رپر  اس طرح کا مجسمہ ’شیو مندر‘ کے باہر تعمیر کیا جاتا ہے ۔اسی بیل کے مجسمہ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ  مذکورہ مسجد مندر کو توڑ کر بنائی گئی ہے۔ اب سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ جس کسی مسلم بادشاہ نے مبینہ طور پر ہندو دھرم کو مٹانے کیلئے مندر کو توڑا اُس نے آخر بیل کے مجسمے کیوں چھوڑ دیا۔ بیل کے مجسمہ کے بارے میں مسجد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ بہت بعد میں انگریزوں کے دور میں یہاں نصب کیا گیا۔  ۱۸۵۰ء اور ۱۸۶۰ء کے درمیان  انگریزوں کے دور میں نیپال کے بادشاہ نے یہ مجسمہ تحفہ میں دیا تھا اور انگریزوں نے اپنی’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت مسجد کی طرف رُخ کرکے نصب کردیا۔ اس وقت بھی اس مجسمہ کی بہت مخالفت کی گئی تھی لیکن انگریز نہیں مانے۔

 

 

فوارہ
جس طرح کا فوارہ جامع مسجد بنار س میں پایا گیا ہے ۔وہ مغلیہ دور میں بہت عام تھا ۔ تاج محل میں بھی اسی طرح کے فوارے لگے ہوئے تھے۔ دراصل مسجد میں وضو کیلئے پانی کی ضرورت ہوتی تھی لیکن حوض میں ٹھہرا ہوا پانی گندہ ہوجاتا تھا اسلئے پانی کو بہتا ہوا رکھنا تھا ۔اس وقت بجلی بھی نہیں تھی ۔ یہ ایک بڑا مسئلہ تھا ۔ ترکی کے مسلم سائنسداں ’الجرزی‘ نے نئی ٹیکنالوجی دریافت کی اور بغیر بجلی کے پانی کے بہاؤ کو یقینی بنایا۔ انہو ںنے ہی فوارے ایجاد کئےجوبہت جلد پوری دنیا میں خصوصاً مسلم حکومتوں میں عام ہوگئے۔  ان میں سے بہت سے فواروں کی ہئیت ہندو دھرم کی کچھ علامت کی طرح ہوتی تھی ۔ آج بھی ایسے کئی فوارے موجود ہیں۔
مسلمان اور عدلیہ مسلمانوں کو ایذا رسانی کا جو کام ہندوستان میں ہورہا ہے اس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ ہندو وادی تنظیموں کو کس بات کا الزام دیا جائے جب مسلمانوں کو اذیت پہنچانے میں ملک کا تقریباً ہر شعبہ اور ادارہ متحد ہے۔ یوں تو سیاستداں ،پولس، بیوروکریسی اور میڈیا پوری طرح مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہیں لیکن اس میں سب سے اہم کردار ’عدلیہ‘ ادا کررہا ہے ۔ وہ عدلیہ ہی تھی اور موجودہ چیف جسٹس ’دھننجے چندر چور‘ کے والد ’وشنو چندر چور‘ ہی تھے جنہوں نے شاہ بانو معاملے میں شریعت کے خلاف فیصلہ دیا تھا ۔ وہ عدلیہ ہی تھی جس نے ایودھیا میں بابری مسجد کے دروازے کھولنے اور شیلا نیاس کرانے کا حکم دیا تھا۔ وہ عدلیہ ہی تھی جس نے بابری مسجد کی جگہ پر ہندو بھگوان رام کا مندر بنانے کا فیصلہ سنایا تھا اور اب وہ عدلیہ ہی ہے جو ۱۹۹۱ء کے عبادت گاہوں کے قانون کے باوجود ’جامع مسجد(بنارس) عرف گیان واپی مسجد سروے کی درخواست قبول کرلی،وہ عدلیہ ہی ہے جس نے مسجد کے حوض کو سیل کردینے کے نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھااور وہ عدلیہ ہی ہے جس نے اب متھرا شاہی عیدگاہ مسجد کو بھی ہٹانے کی درخواست کو قبول کرلیا۔پتہ نہیں عدلیہ خود ہی یہ فیصلے سنا رہی ہے یا کسی دباؤ میں ہے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ نے کہا کہ جامع مسجد بنارس(گیان واپی مسجد) کی  سماعت نچلی عدالت میں نہیں ہوگی اور اُس کے دوسرے ہی دن جمعہ کو سپریم کورٹ نے بالکل اس کے اُلٹ حکم سناتے ہوئے سماعت نچلی عدالت کو ہی منتقل کردی۔ یہ پوری سماعت ہی عبادت گاہوں کے قانون کے خلاف ہے لیکن سپریم کورٹ نے ہی قانون کو روند دیا۔ عدلیہ کی طرف سے ایسے تعاون کی امید تو شاید ہندوتوا وادی شرپسندوں کو بھی نہیں رہی ہوگی۔

You may also like

Leave a Comment