( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
کیا غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کرنا ، ان پر بے رحمی کے ساتھ بمباری کرنے کی مخالفت کرنا ، کوئی جرم ہے؟ شاید ، یہ جرم ہی ہے ، کم از کم ان کی نظروں میں تو جرم ہی ہے ، جو آنکھیں بند کر کے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ، اور یہ چاہتے ہیں کہ ، ساری دنیا ان کی اتباع کرے ۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بولے یا فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کرے ۔ امریکہ اور یورپ میں بلاشبہ غزہ پر اسرائیلی بمباری کے خلاف عام لوگ سڑکوں پر اتر رہے ہیں ، لیکن حکمران اور اسرائیل نواز ادارے و کمپنیاں اور اسپورٹس کلب اندھ بھکتوں کی طرح غزہ پر بمباری سے حظ اٹھا رہے ہیں ، اور جو بھی غزہ کی ، فلسطینیوں کی حمایت کر رہا ہے ، اس کو ستانے اور پریشان کرنے نیز بدنام کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کر رہے ہیں ۔ اس کی ایک مثال عالمی سطح پر وہ معروف مسلمان فٹ بال کھلاڑی ہیں ، جنہوں نے فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی ہے ، اور اب معطلی اور کارروائی کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں ۔ کریم مصطفیٰ بینزیما کا شمار دنیائے فٹ بال کے صف اول کے اسٹرائیکر میں ہوتا ہے ۔ ریئل میڈرڈ کے لیے وہ سب سے زیادہ گول کرنے والے دوسرے فٹ بالر ہیں ، اور ان دنوں سعودی عرب کے کلب الاتحاد کے لیے کھیل رہے ہیں ۔ وہ فرانس کے شہری ہیں اور فرانس کے لیے کھیل چکے ہیں ، بلکہ فرانس کے سب سے زیادہ گول کرنے والے کھلاڑیوں میں چھٹے نمبر پر ہیں ، اور اپنے شاندار کھیل کے لیے بالن ڈیوور ایوارڈ پانے والے پانچویں کھلاڑی ! انہیں چار بار فرنچ پلئیر آف دی ایئر کا خطاب مل چکا ہے ، اور فرانس کو فٹ بال کے کئی خطاب جتوانے میں ان کا اہم کردار رہا ہے ، لیکن غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں ان کے ایک بیان نے ان کی ساری خدمات پر پانی پھیر دیا ہے ۔ انہوں نے کوئی ایسی بات بھی نہیں کی جو کسی کے خلاف جائے ، بس X پر یہی لکھا کہ ہماری ساری دعائیں غزہ کے مکینوں کے لیے ہیں جنہیں ایک بار پھر غیر منصفانہ بمباری کا سامنا ہے ۔ اس پوسٹ کو لاکھ سے زائد لوگوں نے لائک کیا اور لاکھ سے زائد لوگوں نے ری ٹوئیٹ کیا ، ساٹھ ہزار سے زائد لوگوں نے کمینٹ کیا ، اور اب بینزیما پر چاروں طرف سے یلغار ہے ۔ فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ ڈارمین نے بینزیما پر اخوان المسلمون سے رابطے کا الزام لگا دیا ہے ، اور ایک سینیٹر ویلی بوئر نے مطالبہ کر دیا ہے کہ بینزیما سے ان کی شہریت چھین لی جائے اور بولن ڈیوور کا تمغہ واپس لے لیا جائے ۔ بینزیما ٹرول بھی کیے جا رہے ہیں ، لیکن ان کے کلب الاتحاد نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ہے اور نہ کرے گا ۔ لیکن ڈچ فٹ بالر انور الغازی اور الجیریائی فٹ بالر یوسف عطال اتنے خوش قسمت نہیں ہیں، فلسطینیوں کی حمایت کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑا ہے ۔ انور الغازی جرمنی کے کلب مینز 5 سے کھیلتے ہیں ، کلب نے فی الحال انہیں معطل کر دیا ہے ۔ یوسف عطال فرانس کے نائس کلب کے لیے کھیلتے رہے ہیں ، جس نے انہیں معطلی کا نوٹس تھما دیا ہے ۔ مراکشی فٹ بالر نوسیر مزروی ، جو جرمنی کے کلب سے کھیلتے ہیں ، صرف قرآن پاک کی ایک آیت شیئر کرنے کے لیے نشانے پر ہیں ۔ اندھ بھکتوں نے پورا زور لگا دیا ہے کہ انہیں جرمنی سے نکلوا دیا جائے ۔ لیورپول اور مصر کے عالمی سطح کے معروف اسٹرائیکر صالح محمد نے بھی غزہ کی حمایت کی ہے ، نبیل فقیر اور اسلام سلمانی نے بھی آواز اٹھائی ہے ، اور ایک سابق فرنچ کھلاڑی ایرک کنٹونا نے ، جو عیسائی ہیں ، فلسطینیوں کے حق کی بات کی ہے ، اور صاف لفظوں میں بات کی ہے ۔ ٹرول بازوں اور زہریلے سیاست دانوں کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں ، مگر کھلاڑی دباؤ میں آ گیے ہیں ، ان کی معطلیاں ہوئی ہیں ، ان پر الزامات لگنے لگے ہیں اور متعصب ٹولیاں ان کے خلاف ڈٹ گئی ہیں ۔ کیا اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ زبانوں پر تالے لگا دیے جائیں ! یہ دوغلا پن ہے کیونکہ جو غزہ پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ۔ مثال لندن کے کلب ٹوٹنہام ہاٹ اسپر کی لے لیں ، جس نے اب تک اسرائیلی فٹ بالر مینر سولومن کے خلاف کارروائی نہیں کی ہے ، جبکہ اس نے غزہ کے اسپتال پر حملے کا الزام فلسطینیوں پر تھوپ دیا ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)