Home تجزیہ مسلم اقلیت کے خلاف نئی صف بندی کیوں؟-پروفیسر مشتاق احمد

مسلم اقلیت کے خلاف نئی صف بندی کیوں؟-پروفیسر مشتاق احمد

by قندیل

حال ہی میں راقم الحروف نے اپنے کالم بہ عنوان ’’ایک صدی کا ہندوستان اور مسلمان‘‘ میں اس حقیقت کو عیاں کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس وقت ہندوستان میں جواضطرابی صورتحال ہے وہ ایک دو سال یا ایک دہائی کی مسلسل کوششوں کا ثمرہ نہیں ہے بلکہ گذشتہ ایک صدی میں اس کے لئے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی زمین میں زہریلے پودے کی آبیاری کی گئی ہے۔اس لئے موجودہ حالات کو اسی تاریخی پسِ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج ہمارا ہندوستان ایک حسّاس تاریخی دور سے گذر رہا ہے اور ملک کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کے خلاف روز بروز نئے نئے مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں اور اکثریت طبقے کے ذہن میں اقلیت کے خلاف نہ صرف نفرت پیدا کی جا رہی ہے بلکہ اکثریت میں یہ خوف پیدا کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہاں کی مسلم اقلیت ہندو اکثریت کے لئے خطرہ ہے۔اس لئے قومی سطح پر ایک نئی سماجی اور سیاسی صف بندی ہو رہی ہے اور اس کا خمیازہ ملک کے مختلف حصوں میں اقلیت طبقہ بھگت رہا ہے۔

واضح ہو کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور ہمارا آئین تمام شہری کو مذہبی اور لسانی مساوات وآزادی کے حقوق دیتا ہے لیکن چوں کہ اب آئین کی ہر جگہ اَن دیکھی ہو رہی ہے اور ملک کی سب سے بڑی عدالت عظمیٰ کو بار بار یہ کہنا پڑ رہاہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں آئین کی نہ صرف اَن دیکھی کی جا رہی ہے بلکہ اس کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں ۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت اور مختلف ریاستی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔حا ل ہی میں تمل ناڈو کے گورنر این آر روی کی کارکردگی پر عزت مآب عدالتِ عظمیٰ نے جو تبصرہ کیا ہے وہ نہ صرف چشم کشا ہے بلکہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ کس طرح جمہوریت کی پاسداری کا حلف لینے والے ہی جمہوریت کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ اسی طرح اتر پردیش سمیت دیگر ریاستوں میں بولڈوزر کی غیر قانونی کاروائی کے خلاف بھی ہماری عدالتوں نے تبصرے کئے ہیں اور حکم نامے بھی صادر کئے ہیں مگر اس حکم نامے کی بھی حکومت کو پرواہ نہیں ہے ۔ نتیجہ ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں انانیت کی روش عام ہو گئی ہے اور بالخصوص مسلم اقلیت طبقہ ہراساں ہو رہاہے۔

دراصل موجودہ مودی حکومت اور اس کو استحکام بخشنے والی شدت پسند ہندوتو تنظیموں کو یہ یقین تھا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک میں جس طرح کا ماحول بنا اس سے حکمراں جماعت کو نہ صرف مختلف ریاستوں میں بڑا سیاسی فائدہ ہوا بلکہ مرکز میں بھی وہ اقتدار میں آئی۔اب جب کہ رام مندر کی تعمیر کے بعد اس سیاسی جماعت کو اورتمام ہندوتو پرست تنظیموں کو یقین تھا کہ رام مندر کے افتتاح کے بعد ملک میں جو پیغام عام ہوا ہے اس سے بر سر اقتدار پارٹی کو مرکز میں 400سے زیادہ سیٹیں ملیں گی لیکن 2024کے پارلیامانی انتخاب کے نتائج نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا لیکن سیاست کی شطرنجی چال چل کر اس نے پھر حکومت سازی کی اوروہ اقتدار پرقابض ہیں۔اس لئے اس وقت پورے ملک میں انتقامی جذبے کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اور ملک کی تمام ہندوتو تنظیمیں سماجی سطح پر منافرت کی دیواریں کھڑی کر رہی ہیں اور حکومت کی اس کو پشت پناہی ہے جس کا نتیجہ ہے کہ بیشتر سرکاری حفاظتی دستے ہندوتو تنظیموں کے معاون ثابت ہو رہے ہیں اور انصاف پسند افراد کی آواز کو نہ صرف دبائی جارہی ہے بلکہ انہیں اذیت ناک سزائیں بھی دی جا رہی ہیں۔ظاہر ہے کہ جب ملک کے عوام نے جس سیاسی جماعت کو اقتدار سے باہر کرنے کا فیصلہ لیا لیکن اس کے باوجود اگر وہ جماعت حکومت سازی میں کامیاب ہوتی ہے تو پھر اس حکمراں کا آمر ہو جانا فطری عمل ہے۔اس لئے وہ طرح طرح کے ایجنڈوں کے ذریعہ ملک میں اقلیت طبقے کے خلاف نئی صف بندی کو انجام دے رہے ہیں۔حالیہ وقف قانون بھی اسی سازش کا ایک بڑا حصہ ہے کہ اس قانون کے ذریعہ ملک کی اکثریت کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ قانون ملک کے مفاد میں ہے ۔ ظاہری طور پر یہ کہا جا رہاہے کہ یہ پسماندہ مسلم طبقے کے لئے ترقی کی راہیں ہموار کرے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے ذریعہ وہ ایک طرف ملک کی اکثریت اور بالخصوص ہندوتو پرست تنظیموں کو خوش کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس ملک میں اقلیت طبقے کو سر اٹھا کر جینے کی اجازت نہیں دیں گے اور دوسری طرف مسلم اتحاد کو بھی پارہ پارہ کر رہے ہیں کہ یہ قانون پسماندہ مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔دراصل حالیہ پارلیامانی انتخاب سے پہلے ہی یہ نسخہ عام ہوا تھا کہ پسماندہ مسلم حکمراں جماعت کے ساتھ ہے اور حکومت اس کے لئے بہت سی اسکیموں کا نفاذ کرے گی۔اس قانون میں بھی بار بار یہ بات دہرائی جا رہی ہے کہ اس قانون کے بعد وقف کی جائیداد کی آمدنی سے پسماندہ مسلمانوں کے لئے تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں گے اور ان کی فلاح وبہبود کے راستے ہموار ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قانون کی حمایت میں کچھ تنظیموں نے اور بالخصوص پسماندہ طبقے کے مٹھی بھر لوگوں نے حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کرنی بھی شروع کی ہے۔ ظاہر ہے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی سیاست میں وہ کامیاب رہے ہیں اور جس کا آغاز ریاست بہار سے ہوا تھا کہ لالو یادو اور نتیش کمار کی قیادت والی حکومت میں پسماندہ طبقے کی سیاست کو تقویت دی گئی ۔ اگرچہ اس سے پسماندہ سماج کا کچھ بھی بھلا نہیں ہوا البتہ دو چار افراد قانون ساز کونسل اور راجیہ سبھا ضرور پہنچ گئے۔میں یہاں اس حقیقت کا بھی اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب کبھی پسماندہ طبقے کے لئے سرکاری مراعات کا مطالبہ ہوا تو مسلم سماج کی طرف سے شاید ہی کسی نے اس کی مخالفت کی ہو۔کیوں کہ میرا ماننا ہے کہ اگر مسلم پسماندہ طبقے کو خصوصی رعایت دی جاتی ہے تو مسلم سماج کے ایک بڑے حصے کی تصویر بدل سکتی ہے اس لئے مسلم اعلیٰ طبقے کو بھی ہمیشہ پسماندہ طبقے کی فلاح وبہبود کے لئے حکومت سے مطالبہ کرتے رہنا چاہئے۔

بہر کیف! اس وقت پورے ملک میں وقف قانون کے خلاف جمہوری طریقے سے احتجاج ہو رہاہے اور یہ ضروری بھی ہے کہ ایک جمہوری ملک میں یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم اپنے آئینی حقوق کا استعمال کریں لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہمارے احتجاجی عمل سے کسی آزادی سلب نہ ہو اور کسی کی دل آزاری نہ ہو۔اس وقت ملک کے مختلف حصوںمیں جمہوری طریقے سے احتجاجی جلوس نکل رہے ہیں اور حکومت تک اپنی بات پہنچائی جا رہی ہے لیکن افسوس کہ کہیں کہیں نازیبا واقعات بھی ہوئے ہیں ۔ مغربی بنگال کے مرشد آباد کا واقعہ اگرچہ ایک سازش کا نتیجہ ہے لیکن اس احتجاجی تحریک کو متنازعہ بنا سکتا ہے اس لئے مسلم طبقے کو ہوشیار رہنا ہے اور تمام تر جذباتی واشتعال انگیزی سے پرہیز کرنا لازم ہے کیوں کہ اس قانون کا مقصد ہی ملک میں مسلم اقلیت کے خلاف نئی صف بندی مقصد ہے۔مجھے افسوس ہے کہ ہمارے کچھ مذہبی علماء یا کئی تنظیموں کے سربراہ نتیش کمار ، چندرا بابو نائیڈو ، چراغ پاسوان اور جیتن رام مانجھی پر مبینہ طورپر وعدہ خلافی کا الزام لگا رہے ہیں ۔ مجھے ان مذہبی علماء اور تنظیموں کے سرابراہوں کے سیاسی شعور اور خوش فہمی وغلط فہمی پر ترس آرہا ہے کہ وہ اس طرح کا گمراہ کن بیان دے رہے ہیں۔کیوں کہ نتیش کمار ہوں کہ چندرابابو نائیڈو ، چراغ پاسوان ہوں کہ جیتن رام مانجھی بلکہ کرناٹک میں جنتا دل سیکولر اور مختلف ریاستوں میں کئی چھوٹی چھوٹی جماعتیں اعلامیہ طورپر این ڈی اے میں تھیں اور ان کا یہ اتحاد 2024کے پارلیامانی انتخاب سے پہلے سے تھا۔ غرض کہ اگر ہم نے ان کو ووٹ دیا تو یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے دیا کہ یہ سبھی موجودہ بر سر اقتدار لیڈر مودی کے معاون رہیں گے پھر آج ان پر طرح طرح کی غلط بیان بازی بھی مسلم اقلیت طبقے کے لئے مضر ثابت ہو سکتی ہے اور مسلمانوں کے خلاف نئی صد بندی کو تقویت بخشے گی اس لئے سانپ گذر جانے کے بعد لاٹھی پیٹنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس پر بھی بہت سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اپنی اپنی ڈفلی بجانے کی۔جہاں تک ہمارے کچھ مسلم پسماندہ طبقے کے بھائیوں کے موقف کا سوال ہے کہ وہ اس وقف قانون کو پسماندہ طبقے کے لئے مفید سمجھ رہے ہیں وہ بھی غلط فہمی کے شکار ہیں کیوں کہ اس وقت ملک میں صرف اور صرف مسلمان ہونا ہی شدت پسند تنظیموں کی آنکھوں میں چبھنے کے مترادف ہے ۔ جیسا کہ حالیہ پارلیامانی انتخابی اجلاس راجستھان کے بانسواڑہ میں ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے اس بات کی وضاحت کردی تھی کہ اس ملک کے مسلمان اکثریت طبقے کے منگل سوتر چھین لیں گے، اس کی زمین جائیداد قبضہ کرلیں گے، اس کی بھینسیں کھول کر لے جائیں گے اور طرح طرح کی نفرت انگیز باتیں کہی تھیں۔ اس وقت انہوں نے یہ تفریق نہیں کی تھی کہ پسماندہ مسلمان اکثریت ہندو طبقے کے لئے مضر نہیں ہے بلکہ وہ ملک کے تمام مسلمانوں کو برادرِ وطن کے لئے مضر بتا رہے تھے اور جس کے اثرات بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے جہاں کہیں بھی ماب لینچنگ ہوئی ہے اس میں یہ پوچھ کر مسلمانوں کی جان نہیں لی گئی کہ اس کا تعلق اعلیٰ طبقے سے ہے یا پسماندہ طبقے سے۔ اس لئے اس نازک وقت میں پسماندہ طبقے کے بھائیوں سے بھی گذارش ہے کہ وہ ملک کے بدلتے حالات کو اور مسلمانوں کے خلاف ہو رہی سازشوں کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کریں کہ یہی ہمارے اتحاد میں ہے۔اس وقت پورے ملک میں ایک ایسی تحریک بھی چلانے کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کو محلہ سطح پر متحد کر سکے۔یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ ہمارے مذہبی رہنمائوں نے مسلم اتحاد کو مختلف فرقوں اور مسلکوں میں تقسیم کر یہاں تک پہنچا دیاہے اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم ملک کے سیاسی حالات اور سیاسی صف بندی کے تناظر میں ایک مہم چلائیں اور برادرِ وطن کے ساتھ مل جل کر قومی یک جہتی کو فروغ دیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے مسلم معاشرے میں اتحاد واصلاح کی نئی فضا قائم کریں ۔ میرے خیال میں اس وقت ’’مسلم محلہ اصلاح مہم ‘‘ یا پھر ’’مسلم محلہ اتحاد مہم ‘‘ چلانے کی ضرورت ہے تاکہ زمینی سطح پر ہم پھر بکھرے ہوئے شیرازوں کو یکجا کر سکیں اور کسی بھی جمہوری ملک میں اقلیت طبقے کے لیے ایسا کرنا ہی لازم ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like